آصفہ بھٹو کی انٹری ،لاءگریجوایٹس اور ذہنی غلامی !

مشہور امریکی سیاہ فام انقلابی رہنما میلکم ایکس نے غلاموں کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ پہلی قِسم ”فِیلڈ سلیو“ (Field Slave) اور دوسری قِسم”ہاﺅس سلیو“(House Slave) ۔ اس نے اسکی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ” فِیلڈ سلیو “وہ غلام ہوتا ہے جسے جبراً غلام بنایا جاتا ہے اور جو جسمانی غلام کہلاتا ہے، اسطرح کے غلام سے جبری مشقت لی جاتی ہے مگر یہ شخص ہمیشہ آزادی کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرتا ہے، جب اسکا آقا بیمار ہوتا ہے تو یہ بیماری اس قسم کے غلام کیلئے مسرت کا باعث ہوتی ہے اور وہ مالک کی بیماری کی آڑ میں اپنے لیے آزادی کی راہیں تلاش کرتا رہتا ہے۔” ہاﺅس سلیو“ وہ غلام ہوتا ہے جو ذہنی پستی اور احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے، جو اپنے مالک کی خدمت کو اپنا مقدر سمجھ کر راضی ہوا کرتا ہے، جب آقا بیمار ہوتا ہے تو اسطرح کا غلام بہت پریشان رہتا ہے اور اپنے آقا کی خدمت میں اپنے لئے مسرت محسوس کرتا ہے اور اسکی صحت کیلئے دل سے دعا کرتا رہتا ہے۔ میلکم ایکس کے مطابق فِیلڈ سلیو ہزار درجہ بہتر ہے ہاﺅس سلیو سے، کیونکہ فیلڈ سلیو غلامی میں جدوجہد اور ہر قسم کی سختیاں برداشت کرکے اپنی آنے والی نسلوں کو آزاد کرا لیتا ہے جبکہ ہاﺅس سلیو کی نسلیں غلام در غلام رہ جاتی ہیں۔ میلکم ایکس اپنے آپ کو بھی امریکی سفید فام لوگوں کا فیلڈ سلیو یعنی جسمانی غلام کہتا تھا۔ وہ 1925ءمیں پیدا ہوا، وہ افریقہ سے لائے گئے غلاموں کی امریکی نسل میں سے تھا،اُس نے کم عمری ہی میں سیاہ فام لوگوں کے لیے جدوجہد کی، بہت سے گوروں کو اپنا دشمن بنا لیا اور اس جدوجہد کے نتیجے میں وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا۔ اگر دیکھا جائے تو شاید ہم نے یعنی اس خطے کے لوگوں نے جسمانی غلامی سے تونجات حاصل کر لی، لیکن ”فیلڈ سلیو“ جیسی نحوست سے ہماری جان نہیں چھوٹ رہی، اس کی وجہ کیا ہے اس کا آگے چل کر ذکر کریں گے، لیکن اُس سے پہلے میں یہ ضروری بتانا چاہوں گا کہ مجھے اس کالم کے لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وجوہات تو بہت سی ہیں مگر حالیہ دنوں میں دو واقعات نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے مثلاََ پہلا واقعہ پنجاب بار کونسل کے انتخابات کے نتائج آنے پر خوشی سے ہوائی فائرنگ کے واقعہ اور اُس پر بعض گروپوں کی جانب سے سینہ زوری نے ہماری ذہنی پسماندگی پر بہت سے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ صرف لاہور ہی میں نہیں بلکہ اس طرح کا واقعہ فیصل آباد میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں مرد ”لا گریجوایٹس کے ساتھ خواتین وکلا بھی اس ”شغل“ میں قدم بقدم ساتھ تھیں۔ کیا لاءگریجوایٹس کا یہ اقدام کسی تہذیب یافتہ معاشرے یا آزاد معاشرے کی عکاسی کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں!پھر اگر کوئی وکلا برداری کے لیے ”پڑھے لکھے جاہل“ کا لفظ استعمال کرتا ہے یا وکلا گردی کی گردان استعمال کرتا ہے تو اسے عبرت کا نشان بنانے پرتل جاتے ہیں۔ خیر دوسرا واقعہ ملتان کے جلسہ میں آصفہ بھٹو زرداری کاScripted ”جوشیلا“ خطاب اور سیاست میں انٹری ہے۔ چلیں یہاں تک تو حیرانی کی بات نہیں ہے، کیوں کہ یہ سیاسی خاندان ہے اس نے اپنے فرنٹ مین لانے ہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح آصفہ بھٹو کو سراہا جا رہا ہے، یا اُس لڑکی کو جس طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملایا جا رہا ہے اُس سے مجھے اس قدر حیرت ہوئی کہ آخر ہماری منزل ہے کیا؟ اور کیا ہم اس قدر ذہنی غلامی کا شکار ہیں کہ اُس لڑکی کو اپنا مستقبل کا لیڈر مان رہے ہیں جس کی کوالیفیکیشن یہ ہے کہ وہ زرداری اور بے نظیر کی بیٹی ہے، اگر ذہنی غلامی سے باہر نکل کر ذرا سوچیں اپنے آپ سے سوال کریں کہ ابھی تک اُس نے کیا کام کیا ہے؟ کیا اُس نے معذوروں کے لیے کام کیا ہے؟ کیا اُس نے اس ملک کے غریبوں کے لیے کام کیا ہے؟ کیا اُس نے کوڑھ کے مریضوں کی خدمت کی ہے؟ کیا اُس نے دنیا میں پاکستان کو روشناس کروایا ہے؟ کیا وہ سبز پاسپورٹ کے درجوں میں اضافے کا باعث بنی ہے؟ کیا اُس نے اقلیتوں کے لیے آواز بلند کی ہے؟ یا کیا اُس نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ٹاپ پوزیشن حاصل کر کے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ یقین مانیں کہ دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہم کس قدر پسماندگی اور غلامانہ ذہنیت کی طرف اپنے آپ کو دھکیل رہے ہیں، کہ یہ بڑے خاندانوں کی مرضی ہے جب مرضی اپنی اولاد کو ہم پر مسلط کر دیں۔ آپ دوسری جانب دیکھ لیں کہ مریم نواز کی اس سے زیادہ کیا کوالیفیکیشن ہے کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہے، یا حمزہ شہباز کی اور کیا خوبی ہے کہ وہ شہباز شریف کا بیٹا ہے، اور پھر اسفند یار ولی کی اس خوبی کے علاوہ کہ وہ ولی خان کا بیٹا ہے کے علاوہ اُس کی کیا خوبی ہے،یا پھر اختر مینگل کو دیکھ لیں، اُن کی اس کے علاوہ اور کیا خوبی ہے کہ وہ عطاءاللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں۔یا پھر علی ترین کی کیا خوبی ہے اس کے علاوہ کہ وہ جہانگیر ترین کے بیٹے ہیں۔ پھر اسی طرح دوسرے تیسرے سیاسی خاندانوں کو دیکھ لیں ہم پر اپنی اولادیں مسلط کرتے رہتے ہیں اور ہم مسرت و شادمانی کے گن گاتے ہوئے نہیں تھکتے! قصہ مختصر یعنی فیملی لمیٹڈ کمپنیوں کے حصار سے ہم نہیں نکل پا رہے۔ جہاں ایسی کمپنیاں ہوں وہاں سیاست کے دستور بھی الگ ہوتے ہیں۔ حاضریاں دینا پڑتی ہیں اور خوشامد کے کچھ نہ کچھ گُر سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے ہُنر ہر ایک کی دسترس میں نہیں ہوتے۔جب ہم پیپلزپارٹی میں ہوا کرتے تھے اوراُمیدیں بینظیر بھٹو پہ لگائی ہوئی تھیں، تو اکثر پیپلز پارٹی کے دوست رہنما بے نظیر جہاں ہوتیں وہیں ڈیر ے لگا لیتے تھے، اُس زمانے میں پارٹی میں بینظیر بھٹو کو بی بی صاحبہ کہا جاتا تھا۔ یہ الفاظ ہم کبھی ادا نہ کر سکے ۔ نون لیگ میں بھی نواز شریف کو قائدِ محترم کے لقب سے پکارا جاتاہے ، یعنی آپ کارکن ہونے کی حیثیت سے نوازشریف کا نام بھی نہیں لے سکتے، اسے بھی بسا اوقات گستاخی تصور کیا جا تاہے اور پھر طاہر القادری صاحب کو دیکھ لیں اُن کے ورکرز بھی اُن کا نام نہیں لیتے بلکہ ”قبلہ محترم“ کہتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ سب تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ آپ دیکھ لیں موروثی اُمیدوار ہمیشہ پسماندہ علاقوں میں ہی کامیاب ہوتا ہے، کیوں کہ وہاں تعلیم کی کمی کی وجہ سے غلامی کا شکار افراد انہیں کو ووٹ دیتے ہیں جنہیں وہ اپنے آقا سمجھتے ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ان شخصیات کو احتراماََ کیوں پکارا جاتا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کب اس ذہنی غلامی اور شخصیت پرستی سے آزاد ہوں گے؟ یا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا جیسے 2ہزار سال سے چلتا آرہا ہے؟یعنی 2ہزار سالوں میں ہم پر افغانوں نے حکومت کی، کبھی ہم پر ترکوں نے حکومت کی، کبھی ہم پر ایرانی حکومت کرتے رہے ہیں ، کبھی ہم پر انگریز حکومت کرتے رہے ہیں، کبھی عرب حکومت کرتے رہے ہیں تو کبھی منگول حکومت کر تے رہے ہیں، اس عرصے میں ہم بمشکل رنجیت سنگھ کے دور میں آزاد رہے ہیں ، وہ بھی صرف مختصر عرصے کے لیے۔ الغرض سکندر اعظم کے بعد شاید ہی کوئی دور رہا ہو جب ہم آزاد رہے ہوں گے۔ اور پھر جب ہم یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ہم ”آزاد“ ہوگئے تو معذرت کے ساتھ یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے کیوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد پاکستان جیسے ممالک میں غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز شروع کر دیا اس غلامی کو ذہنی یا نفسیاتی غلامی کہتے ہیں۔ غلامی کے اس دور میں عام انسان کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ آ یا وہ آزاد ہے یا غلام ؟ بظاہر وہ انگریز کے تسلط سے آزاد دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ذہنی غلام ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں ملکی نظام سامراج کا ہی چلتا ہے۔اسی حوالے سے آلڈس ہکسلے نے اپنی کتاب ”بریونیو ورلڈ “ میں لکھا ہے کہ”اب حکومتیں عوام کو جبر کے ذریعے نہیں بلکہ ان کی اپنی رضامندی کے ذریعے کنٹرول کریں گی “ کیونکہ وہ ذہنی لحاظ سے اتنے پسماندہ ہونگے کہ ان کے لیے آزادی اور غلامی میں تمیز کرنا مشکل ہوجائے گا۔ قارئین! یہاں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ آصفہ بھٹو جیسی”سیاسی اولاد“ کے قدم مبارک سیاست میں پڑنے پر خوشی کے شادیانے بجانے والے غلامانہ ذہنوں کو یہ یقین دلانا کہ وہ غلام نہیں ہیں۔خیرایک بات یہ بھی ہے کہ اس میں خوشیاں منانے والوں کا بھی قصور نہیں ہے کیوں کہ جب کوئی قوم صدیوں تک بیرونی حملہ آوروں کی غلام رہے تو وہ قوم شعوری طور پر حملہ آوروں کی حاکمیت کو تسلیم کرلیتی ہے اور نسل در نسل کی یہ غلامی اس قوم میں سے آزادی کی جدوجہد کرنے کی خواہش ختم کردیتی ہے۔ جہا ں ایک طرف چند خاندان، سیاسی پارٹیاں اور ادارے اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے مذہب، علاقائی تعصب اور قومیت کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں اور دوسری طرف عوام تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہے ہیں اور عوام کو کہیں احتساب اور کہیں ووٹ کو عزت دو اور کہیں روٹی کپڑا اور مکان اور کہیں مذہبی عقیدت کے خوشنما نعروں کے ذریعے بہلایا جارہا ہے۔ بہرکیف میرے نزدیک غلامی کی بدترین شکل وہ ہے ”جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے“ ۔ ہمیں ان زنجیروں سے پیار نہیں کرنا بلکہ ان کو توڑ کر آزادی حاصل کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح جاپان ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تباہی کی کچھ ہی سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن کر ابھرا۔ چین جو افیمیوں کا ملک کہلاتا تھا آج دنیا کی سپر پاور ہے۔ ہم بھی اپنے ملک میں ذہنی غلامی کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کریں، اس کے لیے سب سے پہلے تعلیم کو فروغ دیں، کیوں کہ معاشرہ ایجوکیٹ ہوگا تو سب ہی اپنا اچھا برا سوچنا شروع کر دیں گے۔ لیکن یہاں بھی مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران کبھی تعلیم کو فروغ نہیں دینے دیں گے کیوں کہ اس سے اُن کی ”دوکانداری“ پر خاصا اثر پڑے گا جو ہماری اشرافیہ کو کسی صورت قبول نہیں ہو سکتا۔