”شخصیت پرستی“سے ہماری کب جان چھوٹے گی!

آج 8اکتوبر کو چیئرمین نیب کی مدت ختم ہوجاتی اور نئے نیب چیئرمین اپنے عہدے کا حلف اُٹھاتے اگر حکومت صدارتی آرڈینس نہ لے کر آتی، یہ صدارتی آرڈیننس جسٹس (ر)جاوید اقبال کو نئی تقرری تک چیئرمین نیب برقرار رکھنے کا تحفظ فراہم کرتا ہے، یہ آرڈیننس 2مختلف ورژن پر مشتمل ہے۔ پہلا ورژن اٹارنی جنرل خالد جاوید خان جبکہ دوسرا ورژن وزیر قانون فروغ نسیم نے تحریر کیا ہے۔ نئے صدارتی آرڈیننس کے تحت موجودہ چیئرمین جاوید اقبال کو مزید چار سال کے لیے چیئرمین بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے، آرڈیننس میں موجود اٹارنی جنرل کے ورژن میں صدر پاکستان نئے چیئرمین نیب کی تقرری وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کریں گے۔ اور یہ کہ موجودہ چیئرمین کی ہی مزید چار سال کے لیے تقرری کی جا سکے گی۔ فروغ نسیم کے اضافی ورژن میں یہ بھی شامل ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت جب تک نئے چیئرمین کا تقرر نہیں ہو جاتا تو موجودہ چیئرمین، جس کی مدت پوری ہو چکی ہے، اپنا کام جاری رکھے گا اور اس کے پاس تمام اختیارات ہوں گے۔جبکہ دوسرے ورژن یعنی وزیر قانون فروغ نسیم کے ورژن کے مطابق نئے نیب آرڈیننس میں فیصلہ سازی کے اہم ادارے نیب کی گرفت سے نکال دیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ نیب قانون کا اطلاق وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسیشن کے معاملات پر نہیں ہوگا، وفاقی اور صوبائی کابینہ، کمیٹیوں اور ذیلی کمیٹیوں کے فیصلے نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوں گے۔جبکہ مشترکہ مفادات کونسل، این ای سی، این ایف سی، ایکنک، سی ڈی ڈبلیو پی، پی ڈی ڈبلیو پی کے فیصلے بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ اور پاکستان بھر کی احتساب عدالتوں میں جدید ٹیکنالوجی نصب کی جائے گی تا کہ شہادتوں کو آڈیو اور ویڈیو کی صورت بھی ریکارڈ کیا جا سکے وغیرہ۔ اس آرڈیننس کے آنے کے بعد ملک بھر میں احتساب کے عمل کو لے کر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے، ایک حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ موجودہ نیب آرڈیننس کے مطابق ایک بار پھر سب کو این آر او دے دیا گیا ہے، جبکہ دوسرا حلقہ یہ کہہ رہا ہے کہ نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا ہے، ہم اسے ڈرامہ تو نہیں کہیں گے کیوں کہ مذکورہ نیب چیئرمین کی کارکردگی بلاشبہ سابقہ چیئرمین نیب (جتنے بھی آئے ہیں) کے مقابلے میں بہتر ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ایک روایت بنتی جا رہی ہے کہ ہم لوگ اداروں کو بہتر بنانے کے بجائے شخصیات کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ جیسے پاک فوج میں یا دیگر اداروں میں مدت ملازمت میں توسیع دی جاتی ہے بالکل اسی طرح اب نیب چیئرمین کی مدت ملازمت میں بھی توسیع کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ نیب صرف ایک شخص کی مرہون منت کام کررہا ہے جبکہ پورے ملک میں اُن کے پلے کا کوئی بھی شخص موجود نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا میں جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی، کسی ایک نے بھی شخصیت پرستی کی پیروی نہیں کی۔ دوسری جنگ عظیم میں وزیراعظم سر ونسٹن چرچل برطانوی عوام کا ہیرو تھا۔ اس نے حیران کن جرات، دلیری اور تدبر سے انگلش قوم کی قیادت کی اور ہٹلر کے طوفان سے بچایا۔ اس جنگ میں چرچل کی جگہ کوئی اور وزیراعظم ہوتا تو شائد جنگ کا نقشہ مختلف ہوتا۔ جنگ کے فوری بعد برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے۔ چرچل کا خیال تھا کہ اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے پیش نظر جیت یقینی ہے۔ اسے اپ سیٹ شکست ہوئی اور لیبر پارٹی کے ایٹلی وزیراعظم بن گئے۔چرچل نے یہ کہہ کر اقتدار منتقل کیا کہ آج ملکی ادارے مضبوط ہیں تو برطانیہ ترقی کرتا رہے گا۔ مطلب وہاں کے عوام نے بھی شخصیت پرستی کو فروغ دینے کے بجائے ”آواز کا ووٹ“ دیا اور ایٹلی کو وزیراعظم بنا دیا۔ لیکن اس کے برعکس اگر چرچل اقتدار کے ساتھ چمٹے رہتے اور اُن کی اولاد اقتدار سنبھالتی تو شاید برطانیہ آج ایک تیسری دنیا کا ملک ہوتا۔ پھر امریکی صدر اوباما ریٹائرڈ ہوئے تو وہ واپس نہیں آئے، اور نہ ہی اس نے اپنی بیٹییوں کو سیاست میں زبردستی دھکیلا، بلکہ پنٹا گون اُن کے تجربے سے استفادہ حاصل کر رہا ہے، اور وہ بھی کسی نہ کسی تھنک ٹینک کا حصہ ہیں ۔ اسی طرح صدر کلنٹن جوانی میں ہی ریٹائرڈ ہوگئے، مگر دوبارہ سیاست میں نہ آئے جبکہ ان کی بیگم ہیلری کلنٹن سیاست میں آئیں لیکن ایک سسٹم سے گزر کر سیاست میں آئیںاور صدارتی الیکشن لڑا ۔ پھر جرمنی کی چانسلر کو دیکھ لیں، اُنہوں نے جتنا بھی Surve کیا خود ہی کیا ، اپنے بچوں کو سیاست میں لانے سے گریز کیا۔ یا اپنے بچوں کو سیاست میں لانے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا۔ بہرحال سیاست یا ملکی و قومی اداروں میں تو ویسے بھی شخصیت پرستی زہر قاتل ہوتی ہے، اور آج کے دور میں تو ویسے بھی یہ نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ تحقیق کے مطابق اگر ایک شخص تین سال تک ایک ہی عہدے پر کام کرتا رہے تو اُس کی کارکردگی ڈاﺅن ہو جاتی ہے، آپ یہی تحقیق ہمارے اداروں پر چیک کر لیں، سب کچھ سامنے آجائے گا۔ کیوں کہ جب آپ من پسند شخصیات سے توقع وابستہ کر لیتے ہیں تو کبھی یہ آپ کواوپر لے جاتی ہےں، کبھی عروج کی بلندیوں پر، توکبھی زوال کی گہرائیاں مقدر بنتی ہیں۔یعنی بعض اوقات نتیجہ الٹ نکلتا ہے۔ جس لیڈر سے امید ہوتی ہے کہ وہ اصلاحات لائے گا، تبدیلی کے ایجنڈے کو کامیاب کرے گا، وہ اس بری طرح ناکام ہوتا ہے کہ اس کا ووٹر بھونچکا رہ جائے۔ اس کی طلسماتی شخصیت کا مجسمہ وقت کے تھپیڑوں سے یوں اچھل کر گرتا اور چکنا چور ہوتا ہے کہ کوئی ٹکڑا سلامت نہیں رہتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جسٹس جاوید اقبال نے اچھے کام نہیں کیے، بلکہ میں تو خود کہتا رہا ہوں کہ وہ باقی لوگوں سے بہتر کام کر رہے ہیں جیسے جسٹس جاوید اقبال نے چیئرمین نیب کا منصب سنبھالنے کے بعد ادارے میں متعدد اصلاحات متعارف کروائیں۔کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا نتیجہ تھا کہ جسٹس ر جاوید اقبال کے اکتوبر 2017 سے تادم تحریر دور میںنیب بد عنوان عناصر سے 533 ارب بلواسطہ و بلاواسطہ برآمد کرواچکا ہے جبکہ نیب کے قیام سے 2016 تک کے 17 سالہ دور میں نیب کل 287 ارب روپے ریکور کروا پایا تھا۔نیب کو اپنے قیام سے مارچ 2021 تک کل 4 لاکھ 87 ہزار 9 سو 64 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 4 لاکھ 79 ہزار 6 سو 85 شکایات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا چکا ہے۔اپنے قیام سے 2021 تک نیب نے 15 ہزار 9 سو 30 کمپلینٹ ویری فکیشن (CV) کا آغاز کیا جن میں سے 15 ہزار 1 سو 54 سی ویز کو مکمل کر لیا گیا۔اس وقت نیب میں کل 776 شکایات پر تحقیقات (CVs) کی جارہی ہیں۔نیب نے اپنے قیام 1999 سے مارچ 2021 تک کل 10 ہزار 41 انکوائریوں کا آغاز کیا جن میں سے 9 ہزار 1 سو 14 انکوائریوں کو مکمل کر لیا گیا۔نیب اس وقت کل 927 انکوائریوں میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔21 سالوں کے دوران نیب میں کل 4 ہزار 5 سو 98 انویسٹی گیشنز کی منظوری دی گئی جن میں سے 4 ہزار 2 سو 87 انویسٹی گیشنز کو مکمل کر لیا گیا تاہم فی الوقت نیب میں کل 311 انویسٹی گیشنز جاری ہیں۔179 میگا کرپشن مقدمات میں سے 63 مقدمات نیب نے منطقی انجام تک پہنچائے ہیں۔جبکہ فی الوقت 95 مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر اگلے چار سال بھی جسٹس جاوید اقبال صاحب نے ہی یہ کام کرنے ہیں تو باقی پورے ”نیب“ کو فارغ کر دیا جائے، کیوں کہ بقول حکومت یہ سارے کام اُنہی کے دور میں ہوئے ہیں! اور پھر ہمیں اس حکومت سے یہ اُمید تھی، کہ یہ سسٹم کو آکر بہتر کرے گی، لیکن یہ بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے شخصیات پرستی کے پیچھے چل پڑی ہے۔پھر وزیر اعظم صاحب کے خود کے الفاظ ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر اداروں کو مضبوط کریں گے، مگر آپ ہر ادارے کا حال دیکھ لیں، کہیں حکومتی رٹ نظر نہیں آرہی، پھر وزیر اعظم صاحب نے خود کہا تھا کہ چیئرمین کرکٹ بورڈ وزیر اعظم کیوں منتخب کرتا ہے؟ لیکن رمیز راجہ کو وہ خود لے کر آئے ہیں، یعنی یہاں بھی سسٹم کو تبدیل نہیں کیا۔ پھر آپ نے 17سال سے تعینات چیئرمین اولمپک ایسوسی ایشن کو تبدیل نہیں کیا۔ یعنی معذرت کے ساتھ آپ بھی طاقت کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔ اور پھر ہماری تمام سیاسی جماعتیں موروثیت کے گرد گھوم رہی ہیں، پی پی پی کو دیکھ لیںاسی وجہ سے بلاول کو اعتزار، قمر الزماں کائرہ، نیئر بخاری، فاروق ایچ نائیک جھک کر سلام کرتے ہیں، جبکہ ن لیگ میں مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اسی شخصیت پرستی کی وجہ سے احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناءاللہ، جاوید لطیف، خواجہ آصف جیسے سینئر سیاستدان جھک کر سلام کرتے ہیں ۔ اے این پی کا بھی یہی حال ہے، یعنی سلطنت عثمانیہ یا سلطنت مغلیہ اور ہماری حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور اداروں میں کیا فرق ہے؟ الغرض اس حکومت اور پچھلی حکومتوں میں فرق کیا رہ جاتا ہے، وہ بھی ایسے ہی کرتے تھے، جبکہ یہ بھی اُسی ڈگر پر چل پڑے ہیںاور مجھ جیسے کالم نگاروں کا حال تو یقین مانیں نوابزادہ نصراللہ جیسا ہو چکا ہے کہ جن چیزوں پر ہم اس پارٹی کو سپورٹ کرتے تھے، جب یہ برسراقتدار آئی تو یہ بھی اُنہی روایتی سیاسی جماعتوں جیسی ہوگئی، اس کے قول و فعل میں بھی تضاد آگیا، یعنی میرے خیال میں پی ٹی آئی آہستہ آہستہ پی پی پی اور پی ایم ایل این بنتی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں ہمیں سپریم کورٹ جیسے ادارے سے سبق لینا چاہیے جہاں چیف جسٹس سینئراٹی کی بنیاد پر بنتے ہیں اور وہاں کبھی کوئی اس معاملے میں خرابی بھی پیدا نہیں ہوئی۔ اگر یہی سسٹم باقی جگہ پر ہو جائے، تو آہستہ آہستہ ملک شخصیات کے پنجے سے نکل جائے گا اور ملک اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو جائے گا۔ #Nab Ordinence #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Pakistan