3شہید پولیس اہلکار ، سویلین شہداءاور ہمارا سسٹم !

ہمارا ملک بھی کیسا ملک ہے نہ کوئی سسٹم، نہ کوئی ڈسپلن، نہ کوئی قانون اور نہ ہی کوئی غیر قانونی کام کو روکنے والا۔ آپ خود اندازہ لگالیں کہ یہاں کرائے کے ”ماہرین“ معیشت چلا رہے ہیں، سڑک پر لگا اشارہ توڑنے سے لے کر کسی کا حق مارنے تک ہر کوئی بڑھ چڑھ کر قانون توڑ رہا ہوتا ہے، عدالتوں میں چلے جائیں وہاں وکلاءحضرات آپ کو خود بتا رہے ہوتے ہیں کہ آپ کیسے دونمبری کر کے کیس کو التواءمیں ڈال سکتے ہیں، پھر کوئی سرکاری ٹھیکہ آپ کے ہاتھ لگ جائے تو خود حکومتی اہلکار آپ کو بتاتے ہیں کہ اس میں ناقص میٹریل کیسے استعمال کرنا ہے۔پھر ڈالر ایک آدھ روپیہ مہنگا ہوتا ہے تو بڑے بڑے حاجیوں کا مال گوداموں میں پڑا پڑا مہنگا ہو جاتا ہے۔ پھر آپ ٹیکس چوری میں پکڑے جائیں تو ایف بی آر کا نمائندہ آپ کا سب سے بڑا خیر خواہ بن جاتا ہے اور کہتا ہے کہ جناب ایسے نہیں .... ایسے بچا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ آپ کسی کا قتل کرکے جیل میں چلے جائیں تو آپ کو آپ کا تفتیشی بتا رہا ہوتا ہے کہ اتنے پیسے لاﺅ ، مدعی پارٹی سے صلح نامہ کروانا میرا کام ہے۔اور پھر سارا نظام اسی تکے شاہی میں چل رہا ہے، جس کا اللہ ہی وارث ہے۔ ابھی حال ہی میں دیکھ لیں ایک کالعدم مذہبی جماعت نے عید میلاد النبی پر جلوس نکالا اور بعد ازاں وہ دھرنے میں تبدیل ہوگیا۔ اور پھرپولیس کے ساتھ اس کی جھڑپیں بھی شروع ہوگئیں! اور ان جھڑپوں میں تین پولیس اہلکار بھی جان سے گئے۔ جس کا کسی سطح پر ذکر نہ ہونا بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ اور پھر شاید اس موضوع پر کسی نے لکھنے کی جسارت نہ کی ہو کہ لاہور میں تین پولیس اہلکار شہید ہوگئے ، لکھنا تو دور کی بات اُن کے گھر جا کر کسی پولیس افسر، وزیر، بیوروکریٹ یاسیاستدان نے تعزیت بھی نہیں کی ہوگی۔ چلیں ہم تو ٹھہرے ایرے غیرے لوگ! حد تو یہ ہے کہ ان شہداءکے اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ان کی شہادت کو صحیح انداز میں پیش نہیں کیا ۔ کیسے کرتے؟ بے حسی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، بے نیازی دیکھیے ، لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز کے ترجمان مظہر حسین صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے ہیں ، ایک کا نام خالد ، دوسرے کا نام ایوب ہے جب کہ تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔کسی محکمے کی جانب سے اپنے شہداءکے ساتھ اس سے ز یادہ بد سلوکی کی کوئی مثال اگر موجود ہو تو میرے لیے یہ بریکنگ نیو ز ہو گی۔ ڈی آئی جی نے کلام کرنا ہی گوارا نہیں کیا ، گویا ایک معمولی سا مسئلہ تھا ، ترجمان پر چھوڑ دیا۔اور ترجمان کی چشم خوباں کی بے نیازیاں دیکھیے انہوں نے کس ارزانی سے کہہ دیا تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ایک انسانی وجود فرض کی ادائیگی میں جان سے گزر گیا اور اس کے اپنے محکمے کا ترجمان ارشاد فرما رہا ہے مرنے والے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ حالانکہ یہ تین لوگ جیتے جاگتے انسانی وجود تھے۔ گھروں میں کوئی ان کی راہ دیکھتا ہو گا۔ کتنے خواب ہوں گے جن کی ڈوری سے یہ بندھے ہوں گے۔ شہید ہونے والے ایک اہلکار کی عمر انسٹھ برس تھی۔ کیا عجب وہ ساری رات جاگ کر ریٹائر منٹ ا ور پنشن کا حساب کرتا ہو ، اور کیا معلوم اس کی بیٹیوں کی کتنی ہی خوشیاں ان پیسوں کے انتظار میں خزاں اوڑھے بیٹھی ہوں۔ دھول سے اٹی سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے دیتے اس کے بال سفید ہو گئے اور بدلے میں اسے کیا ملا؟ اور ویسے بھی یہاں ماسوائے چند ایک اداروں کے شہداءکے ، کسی کو کچھ نہیں ملتا، نہ وہ اعزاز، نہ وہ رکھ رکھاﺅ، نہ فیملی کا Survivalاور نہ ہی بچوں کا مستقبل۔ ان کے خاندان کے خاندان اُجڑ جاتے ہیں، برباد ہو جاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے قدم رکھا ہے راقم تب سے یعنی دو دہائیوں سے یہ بات کہہ رہا ہے کہ سویلین شہداءکے خاندانوں کا ریکارڈ ہی اکٹھا کر لیں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان میں سے کون سی فیملی بہتر انداز میں زندگی بسر کر رہی ہے۔لیکن کہیں کوئی سسٹم ہوتا یا کہیں کوئی قانون کا پاسدار ہوتا تو شاید یہ خاندان بھی جنہیں دنیا سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتی ہے، پاکستان میں بھی اُن کی اہمیت ہوتی۔ لیکن یہاں تو سسٹم نام کی چیز ہی نہیں، آپ گھر سے باہر نکل جائیں۔ کوئی پتہ نہیں گھر واپسی پر کونسی شاہرہ پر ”قبضہ“ ہو چکا ہو! میں پھر یہی بات دہراﺅں گا کہ پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے یہ بات کس قدر عام ہو چکی ہے کہ کوئی بھی تنظیم، جماعت یا گروہ چند لوگوں کو اکٹھا کر کے یا تو پورا ملک جام کر دیتا ہے، یا شہر بند کر دیتا ہے یا کوئی بھی قومی اُن کے ہتھے چڑھ جاتی ہے۔ اور ریاست منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔اور اب جبکہ مذکورہ جماعت کے دھرنے کا پڑاﺅ جی ٹی روڈ (مریدکے) ہے تو وہاں سے روزانہ 10لاکھ گاڑیوں کا گزر ہوتا ہے، لیکن کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جبکہ حکومت نے راستہ کھلوانے کے بجائے خود بھی پیشگی اقدامات کے لیے پورے جی ٹی روڈ پر” خندقیں“ کھود ڈالی ہیںاور جگہ جگہ کنٹینر لگا کر روڈ کو بند کردیا ہے۔ یقین مانیں ہمارے اسی ”ڈسپلن“ کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری رینکنگ ڈیڑھ سو ممالک میں 123ویں نمبر پر آتی ہے۔ خیر ہمارا موضوع کالعدم تنظیم یا ریاست کی کارکردگی نہیں بلکہ ریاست کے خراب فیصلوں کی وجہ سے بھینٹ چڑھنے والے عام شہری اور پولیس اہلکار ہیں جنہیں کئی سالوں سے بطور ڈھال استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں ہوں، مذہبی جماعتیں ہوں یا کوئی بھی ادارہ ہو اپنے کارکنوں کو استعمال کرتا نظر آرہا ہے۔ یعنی عنوان حسین ہوتے ہیں مگر مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ تحریکیں بالادست طبقات کے شطرنج سے ز یادہ کچھ نہیںہوتیں۔دکھ تو یہ ہے کہ ان میں انسانوں کو پیادوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔جو جان سے گزر جائے وہ صرف ہندسوں کی صورت گنے جاتے ہیں۔ تین مر جائیں تو شناخت بھی صرف دو کی ہو پاتی ہے۔ یہ سوال آج تک حل طلب ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ، قاضی حسین احمد صاحب نے کیوں دھرنا دیاتھااور اس دھرنے میں جو کارکنان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیا کسی نے مڑ کر کبھی ان کے اہل خانہ سے پوچھا کہ تم پر کیا بیت رہی ہے؟طاہر القادری صاحب کے پرچم تلے جو کارکنان جان سے گئے ان کا خوں بہا کدھر گیا؟نوا زشریف صاحب کے کاررواں میں ایک بچہ کچلا گیا تو داماد جی نے فرمایا یہ شہید جمہوریت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شہید جمہوریت کا منصب کارکنان کے لیے ہی کیوں؟ اپنی بار پلیٹ لیٹس کے نوحے کیوں بلند کیے جاتے ہیں؟ پولیس اور سویلین شہداءکا معاملہ یہ ہے کہ شطرنج پر جب کبھی کوئی بساط بچھائی جائے اور کسی بھی عنوان کے تحت بچھائی جائے یہ محکمہ ہر واردات کا قتیل ہوتا ہے۔مقاصد حاصل ہو جانے پر جب فریقین اور قائدین چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ ’ معاملہ ‘ ہو جانے کی نوید سناکر قوم سے داد پا رہے ہوتے ہیں تو پولیس اور عام شہریوں کے لاشے وہاں حرف اضافی ہوتے ہیں۔ ان شہیدوں کو نہ کوئی روتا ہے نہ کوئی یاد کرتا ہے۔ حتی کہ ان کے اپنے محکمے کے ترجمان کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اس کا نام کیا تھا۔آپ دیکھ لیں 2016ءکے دھرنوں میں بھی یہی ہوا۔ کئی ایک جانیں گئیں مگر مجال ہے کہ کسی نے اُن کے خاندان کا حال پوچھا ہو۔پھر 2017ءمیں بھی یہی ہوا، پولیس کو فرنٹ لائن پر کھڑا کرکے جھڑپیں کروائیں، راہ گیر لپیٹ میں آئے،تشدد ہوا اور پھر پتہ چلا کہ جناب اندر کھاتے معاملات حل ہوگئے ہیں۔ مطلب یہاں انسانی زندگی کی پرواہ اس لیے نہیں کہ یہاں سسٹم نہیں! اگر سسٹم ہوتا تو ایک ایک جان کے بدلے عدالتوں میں کیس لگا ہوتااور اُس کا فیصلہ ہوتا نظر آتا۔ لندن، امریکا، یورپ جیسے ممالک کیوں ترقی یافتہ ہیں، صرف اس لیے کہ وہاں انسانی جان کی ایک قیمت ہوتی ہے، ایک جان کے ضیاع پر سالوں تک کیس چلتے ہیں، ذمہ داران کو سزا ہوتی ہے، برازیلین صدر کے قافلے کی زد میں آکر ایک شخص جاں بحق ہو جائے تو عدالتیں قافلے میں شامل اُس گاڑی چلانے والے کو جب تک سزا نہیں دیتیں چین سے نہیں بیٹھتیں! لیکن یہاں آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہوگی کہ گزشتہ 20سالوں میں 28ہزار سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ جنوری 2004ءسے دسمبر 2016ءتک کے عرصہ میں صرف خیبر پختونخوا میں 16000کے لگ بھگ پولیس ،خاصہ دار اور لیویز فورس کے اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ کراچی میں بلا ناغہ پولیس والے مارے جاتے ہیں، 2013ءسے لے کر اب تک 33سو اہلکار جان سے گئے ۔الغرض افسوس سے یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ2001ءسے لے کر 2021تک دہشت گردی کی عالمی جنگ ،آپریشن ضرب ،عضب آپریشن راہ حق،آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے شہادت نوش فرمائی وہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران اس مٹی کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں اور بھی نام شامل ہیں۔ بم دھماکوں میں مرنے والے سویلین تو کسی قطار شمار میں نہیں ۔یعنی ان سویلین کی تعداد 20سالوں میں ایک لاکھ سے زائد ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں ایسا کوئی سسٹم بن سکتا ہے کہ ان شہداءکے ذمہ داروں کا بھی تعین کیا جائے اور ان کے خاندانوں کا بھی سہارا بنا جائے جو حکومت کی غفلت کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ راقم کی اس حوالے سے گزشتہ سال وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بات چیت بھی ہوئی جس کے بعد پنجاب حکومت نے ایک بڑافیصلہ کیا، اور اس حوالے سے پہلی بار سٹیپ اُٹھایا کہ اُنہوں نے سویلین شہداءکے لیے بجٹ میں 15کروڑ روپے کا فنڈ رکھ دیا، بظاہر تو یہ فنڈ بہت کم تھا، مگر خوشی اس بات کی ہوئی کہ عرصہ دراز کے بعد ان شہدا ءکی سنوائی ہوگئی۔ لیکن نہلے پر دہلا یہ کہ آج اس بات کو ڈیڑھ سال ہوگیا، مگر پنجاب حکومت شہداءکے لیے مختص رقم شہداءکے ورثا کو دینا بھول گئی،یا اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں بنایا۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ کوئی ایک سسٹم بنائے، جس میں ہر شخص کو انصاف ملے اور ریاست اس کا انتظام خود کرے، کہ جیسے مذکورہ بالا تینوں اہلکاروں کے قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچائے تبھی سب کے دل میں ریاست کا خوف بیٹھے گا ورنہ کوئی بھی ریاست کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جائے گا اور ریاست محض منہ تکتی رہے گی! #TLP #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan