جیت خوشی دیتی ہے! مگر یہ کرکٹ میں ہی کیوں؟

حالیہ ورلڈ کپ میں کرکٹ ٹیم کی مسلسل فتوحات نے جس انداز میں قوم کو خوشی دی اور مورال بلند کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ یقینا ملک کے طول وعرض میں پھیلی سرشاری کی کیفیت نے نہال کردیا ۔ایسا نہال کہ ہر پیر وجواں ایسا خوش مدتوں بعد دیکھا۔ میچ نہیں جیسے پاکستان جنگ میں فاتح قرارپایاہو۔ محض ایک کامیابی نے قوم کا اجتماعی مورال اس قدر بلند کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس قوم کو خوشی کی کوئی بڑی خبر نہیں ملی۔مسائل اور پے درپے ناکامیوں اور معاشی مجبوریوں نے ایسا جھکڑا کہ اجتماعی حوصلہ ہی شکستہ ہوگیا۔لوگ کامیابی کا تصور ہی بھول گئے۔یعنی فتوحات نے مہنگائی کے ہاتھوں مسائل کا شکار بائیس کروڑ عوام کے چہروں پر خوشیاں بکھیر کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تو وہاں عقل والوں کے لئے بھی بہت سی نشانیاں چھوڑیں کہ اگر سلیکٹرز غیر جانب دار ہوں ، میرٹ پہلی ترجیح ہو، ٹیم کی سلیکشن فیورٹ ازم سے بالاتر ہو تو پھر ٹیم کا مورال بھی ہائی ہوتا ہے، وہ قومی جذبے سے فتح حاصل کرنے کے لئے جان بھی لڑا دیتی ہے اور کچھ کر گزرنے کی لگن انہیں ہر قیمت پر ڈٹے رہنے پر مائل رکھتی ہے۔یہی باتیں راقم نے اپنے گزشتہ ماہ کے کالم میں لکھیں کہ ہمیشہ ایسی ٹیم منتخب کی جائے جو کامیابی سے ہمکنار کرے، اور سفارشی کلچر کو نکال باہر کیا جائے تاکہ ٹیم میں کسی قسم کی بدمزگی نہ ہو۔ رمیز راجہ نے آتے ہی ایسا ہی کیا، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو خلوص نیت سے آخری گیند تک لڑتے ہیں۔ گرین شرٹس کی میدان میں باڈی لینگوئج سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کسی سلیکٹر ز کی پیداوار ہیں نہ ہی ان پر کسی قسم کا دباﺅ ہے۔ کپتان نے وہی کھلاڑی کھلائے جو باصلاحیت تھے، جن پر اسے پورا اعتماد تھا، میدان میں کسی کوچ کی پرچی آئی نہ ہی سلیکٹرز نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو حتمی الیون میں شامل کرنے پر دباﺅ ڈالا۔قصہ مختصر کہ کرکٹ اگر چہ ایک کھیل ہے۔ ہار اور جیت اس کا لازمی حصہ ہے لیکن اس کے باوجود جس طرح پوری قوم میں حوصلہ پیدا ہوا۔لوگوں نے خوشیاں منائیں۔ پاکستان سے محبت کا اظہار کیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس ملک کو مسلسل چھوٹی یا بڑی کامیابیوںکی مسلسل ضرورت ہے تاکہ نا امیدی یقین میں بدلے۔ لوگوں کو اپنے محفوظ مستقبل پر یقین ہو۔ بہت سارے میدان ایسے ہیں جہاں پاکستان دوسرے بہت سے ممالک سے آگے ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیرممالک کی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں ہے لیکن اس کے باوجود میڈیا پر ان کامیابیوں کا چرچا نہیں ہوتا۔غیرملکی میڈیا کا خیر ذکر ہی نہیں وہ عمومی طور پر ان پہلوﺅں کو زیادہ اجاگر کرتا ہے جو ہماری منفی شبیہ ابھارتے ہےں۔اس لیے ہمیں کم سے کم ایسی چیزوں کو شو آف کرنا چاہیے! دنیا بھر میں ہنگامے ہوتے ہیں، مگر وہاں حکومتی رٹ بھی دکھائی جاتی ہے، اور حکومت بتاتی ہے کہ وہ بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے، ایسا کرنے سے یقینا عوام کا مورال بلند ہوتا ہے اور اُنہیں حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذااگر اسی طرح کی خوشیاں چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی ”فتوحات“ حاصل کرنا ہوں گی، فتوحات ایسی نہیں کہ حکومت یہ کہہ دے کہ جولائی سے اکتوبر تک 1840 ارب کا ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے جو گزشتہ برس سے 37 فیصد زیادہ ہے۔ پھر عوام کو یہ ”خوشخبری“ سنائی جاتی ہے کہ ورلڈ بینک کے اندازو ں کے مطابق‘ غربت کا تناسب 5.3 فیصد سے گر کر 4.8 فیصد ہوگیا ہے جو مالی سال 2023ءتک مزید کم ہوکر 4.0 فیصد پر آ جائے گا(یعنی اب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جھوٹے دعوے کرکے عوام کو حوصلہ دے رہے ہیں، کہ مجموعی طور پر پاکستان میں غربت ختم ہوئی ہے اور تف یہ کہ حکومت بھی اس کا کریڈٹ لینے سے باز نہیں آرہی بلکہ عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ یہ حکومت کی اَنتھک محنت اور کام سے لگن کا نتیجہ ہے۔) لہٰذاحکومت کو آخری ایک سال اور چند ماہ میں ان” فتوحات“ سے ہٹ کر ہمیں کام کرنا چاہیے جیسے آج کل ڈینگی اموات کے ریکارڈ توڑنے میں مصروف ہے، بزدار حکومت ہنگامی بنیادوں پر کام کرے، ہر طرف ایمرجنسی نافذ کردے، ویسے بھی کئی اضافی پراجیکٹس پر حکومت اربوں روپے ضائع کر رہی ہے، جبکہ صرف چند کروڑ روپے استعمال کرکے پورے شہر میں گاڑیوں کے ذریعے سپرے کا اہتمام کرے، یا یہ سب کچھ چھوڑ دیں ، پنجاب میں صفائی ستھرائی ہی کو پرانی سطح پر بحال کردیں یا چھوٹے چھوٹے کام جو کئی برسوں سے رکے ہوئے ہیں وہی کروا دیں تو عوام کا مورال نہ صرف بلند ہوگا بلکہ وہ اگلی حکومت کے بارے میں بھی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ پھر تاجر برادری کے چھوٹے چھوٹے مسائل سُن لے، بڑے تاجروں کی ملیں بند ہو رہی ہیں، حکومت اُنہیں تحویل میں لے لے یا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اُسے سہارا دے۔ جیسے گزشتہ دنوں میری ایک دوست تاجر سے بات ہوئی جن کی فیصل آباد میں درمیانے درجے کی ٹیکسٹائل مل ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھاگا پہلے سے بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ درآمد کیے جانے والے کیمیکلز کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے عائد کردہ ناقابل برداشت ٹیکسوں کی بھرمار کو شامل کر کے ہماری پیداواری لاگت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر ہم اس لاگت کے مطابق اپنی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تو ہم عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر ہم اپنے سالہا سال پرانے گاہکوں کو مال سپلائی کرنا بند کر دیتے ہیں تو ہم مارکیٹ سے آﺅٹ ہو جائیں گے۔ اس مل اونر کے بقول بیرونِ ملک کپڑا وغیرہ برآمد کرنے والے اکثر مل اونرز اسی مشکل کا شکار ہیں۔اگر حکومت ان مل مالکان کے مسائل سنے، یا انہیں کم از کم بجلی میں یا دیگر ٹیکسوں میں ایک خاص مدت کے لیے چھوٹ دے دے تو نہ صرف برآمدات میں اضافہ ہوگا بلکہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی اپنا اثر ورسوخ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کر پائے تو ہمارے Competator بھارت اور بنگلہ دیش ہمارے گاہکوں کو اپنی طرف راغب کر لیں گے۔ پھر مجبوراََ ہمارے انڈسٹریل مین کو اپنی انڈسٹری کسی اور ملک شفٹ کرنا ہوگی۔ جہاں اُسے اپنا پیسہ ڈوبنے کے چانسز صفر فیصد ہوں۔ پھر حکومت نے جب اعلان کیا کہ کنسٹرکشن شروع کی جائیں، کسی سے نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ لوگوںنے دھڑا دھڑ عمارتیں کھڑی کرنا شروع کردیں، لیکن اب جو عمارت ایک کروڑ میں تیار ہو رہی تھی اُس پر لاگت دو کروڑ سے بھی زائد ہو چکی ہے، اسی وجہ سے آدھے سے زائد پراجیکٹ التوا کا شکار ہوچکے ہیںاورگزشتہ دو تین ماہ سے کنسٹرکشن انڈسٹری میں بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت اس پر توجہ دے کر بھی عوام کو حقیقی خوشی سے نواز سکتی ہے۔ پھر سیاحت پر حکومت توجہ تو دے رہی ہے مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے جنگل میں ناچا مور،،، کس نے دیکھا یعنی جب تک ہم ملک میں امن وامان قائم نہیں کریں گے تب تک ہم کیسے باہر سے سیاح لاکر اپنا ملک دکھا سکتے ہیں؟ فی الحال تو جو ملک کی شبیہ پیش کی جا رہی ہے اُس کے مطابق گزشتہ چند دنوں سے پورا ملک جام ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی شاہراہ جی ٹی روڈ کو چند ہزار لوگ بند کردیتے ہیں تو پھر دنیا دیکھتی ہے کہ حکومت کہاں ہے؟ حکومتی رٹ کہا ں ہے؟ ان سب باتوں میں دنیا میں یہ تاثر جارہاہے جیسے کہ سارا پاکستان ایک گروہ نے بند کردیا ہے۔ حکومت بے بس ہوچکی ہے اور انتظامیہ جواب دے گئی ہے۔ اس طرح کے ماحول میں سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے دوست ممالک اور بیرون ملک آباد پاکستانی بھی ملکی سفر سے کترانے لگتے ہیں۔ الغرض یہ ساری سرگرمیاں بے وقت ہوجاتی ہیںکیونکہ سیاح صرف ان ہی ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں امن ہوتاہے۔ سہولتیں ہوتی ہیں۔ خطرات لاحق نہیں ہوتے۔ ماحول دوستانہ ہوتاہے۔ حکومت ملک میں دوستانہ فضاءقائم کرے، اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔ ہر طرف ترقی کی فضاءپیدا کرے، وزیرا عظم اپنے ارد گرد مفاد پرست ٹولے کو نکال باہر پھینکیں۔ اب تک تو وزیرا عظم کو کئی معاملات میں سمجھ بوجھ بھی ہوگئی ہوگی ، کہ عوام ذرا سی خوشی میں بھی جھلک پڑتے ہیں، اُن کا مورال بلند ہو جاتا ہے اس لیے سارے کام اکٹھے ”جیتنے “ کے بجائے الگ الگ اور ایک ایک کرکے جیتے جائیں۔ تبھی ہم عوام کو خوشی دے سکتے ہیں ورنہ ہماری خوشی کے لیے صرف یا تو کرکٹ رہ گئی ہے یا ہمسایہ ملکوں کے ساتھ سرد جنگ جیسے شغل۔یا absolutly not سے Why Notتک کا سفر! #Pakistan #Crticket or jeet #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan