دعوے، وعدے اور لارے سب جھوٹ نکلے!

پاکستان آبادی کے لحاظ سے چین، بھارت،امریکا اور انڈونیشیا کے بعد پانچویں نمبر پر موجود ہے جس کی آبادی 22کروڑ سے زیادہ ہے، ان 22کروڑ افراد میں سے 1فیصد بڑے کاروباری افراد، 5فیصد آبادی چھوٹے کاروباری افراد،2فیصد زمیندارو جاگیردار،جبکہ 52فیصد درمیانہ طبقہ اور ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق 40فیصد سے زائدطبقہ یعنی 9کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں متمول (درمیانہ) طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 50 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا80 فیصد سے زائد حصہ خوراک پر ہی خرچ کرتی ہے۔جبکہ تعلیم، صحت اور دیگر چیزوں کے لیے اُن کے پاس کچھ نہیں بچتا۔الغرض پاکستان کی آبادی کا 8فیصد حصہ خوشحال جبکہ 92فیصد حصہ ”عام آدمی“ جیسی زندگی بسر کر رہا ہے۔اس لیے یہاں جب بھی کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے یا ”رات گئے“ تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اُس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔ چلیں یہ بات بھی مان لی جائے کہ حکومت کو بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے تبھی وہ سب کے سامنے برا بن رہی ہے اور مہنگائی کر رہی ہے لیکن کیا حکومت کا یہ طرز عمل ٹھیک ہے کہ وہ عام آدمی کے ذرائع آمدن کو بڑھانے کی ترغیب دینے کے بجائے یا اُنہیں طریقے سے حقائق بتانے کے بجائے ہمسایہ ممالک یا مغربی ممالک کے ساتھ قیمتوں کا توازن کرکے بتائے کہ وہاں چونکہ فلاں چیز کی قیمتیں زیادہ ہیں اس لیے پاکستان میں بھی قیمتیں بڑھانی پڑ رہی ہیں۔ اورپھرگزشتہ ہفتے عوام اُس وقت مایوسی کی انتہا کو پہنچ گئے کہ جب عمران خان عوام سے خطاب کرنے آئے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ اگر پاکستان کے دونوں بڑے سیاسی خاندان اپنی دولت کا آدھا حصہ بھی وطن واپس لے آئیں تو وہ بھی بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں نصف کر دیں گے۔ اُن کی اس بات کو لے کر سب سے پہلے تو عام آدمی کے اوسان خطان ہوگئے اور ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے نیب یا دوسرے احتساب کے ادارے ختم کر دیے گئے ہیں۔ یا پھر ایسے لگا جیسے عوام اب اُن کی اور اُن کی کابینہ کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ الغرض یہ بڑا معصومانہ سا عذر تھا۔ کہ ہم نے اپنی تمام توانائیاں اس حوالے سے صرف کردیں کہ بیرون ملک سے پیسہ واپس لایا جائے، تمام اداروں کو اس کام میں جھونک دیا، مہنگے سے مہنگا وکیل ہائیر کیا، سرکاری خرچے پر بیرون ملک ٹیمیں بھیجی گئیں۔ لیکن پتہ چلا کہ بات اب ترلوں تک آچکی ہے اور غریب و عام آدمی اب صرف آنسو ہی پونچھ سکتا ہے کہ بقول شاعر بہنا کچھ اپنی آنکھ کا دستور ہوگیا دی تھی خدا نے آنکھ پہ ناسور ہوگیا مطلب اگر التجا ہی کرنا تھی، تو عوام خود کرلیتے! پھر آپ نے کیوں تکلیف کی! اور پھر مذکورہ خطاب میں جو باتیں بتائیں گئیں ، تین سال پہلے بھی یہی باتیں دہرائی جا رہی تھیں جیسے قوم سے خطاب کو اگر چار حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو پہلے حصے میں وہی پرانی باتیں دہرائی گئیں کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو معیشت کی بدحالی کا کیا عالم تھا۔ وہی بیس ارب ڈالر کے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے اور قرضوں کی دہائی۔ دوسرے حصے میں کورونا وائرس کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالی اور اپنی”بہترین“پالیسیوں پر داد وصول کرنا چاہی۔تیسرے حصے میں بتایا کہ دنیا میں مہنگائی 50فیصد بڑھ گئی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح صرف 9فیصد بڑھی ہے۔ اور یہ ہر گزنہیں بتایا کہ امریکہ ‘ جرمنی ‘ چین اور برطانیہ کے شہریوں کی فی کس آمدنی اور ایک پاکستانی کی فی کس آمدنی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خیر چوتھے حصے میں بتایا کہ دو کروڑ خاندانوں کے لیے 120 ارب کی سبسڈی۔ آٹا، گھی اور دالیں مارکیٹ ریٹ سے تیس فیصد سستی ملیں گی۔ حالانکہ نہ تو خان صاحب نے یہ بتایا کہ ملک میں پچیس فیصد مہنگائی کا تعلق تو بدانتظامی اور حکومتی رِٹ سے ہے، اور نہ ہی یہ بتایا کہ وہ عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔ اور پھر جو باتیں عوام کو بتائی گئیں یہ تو عوام کو پہلے ہی پتا تھیں، کہ یہ دونوں برسر اقتدار خاندان کرپٹ ہیں، حالانکہ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں تھا، اور عوام نے انہی خاندانوں کو چھوڑ کر آپ کا ساتھ دیا تھا، لیکن عوام اس خوش فہمی میں ماری گئی کہ اُس کا خیال تھا کہ آپ نے کوئی اس حوالے سے ہوم ورک کیا ہوا ہے، کہ ملک کا نظام کیسے چلایا جائے گا؟ یا ان خاندانوں کو نکیل کیسے ڈالی جائے گی، یا دوسرا الفاظ میں عوام کے حالات کس طرح بہتر کیے جا سکیں گے۔ الغرض قوم دکھی ہے کہ جب آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے تو یہ ادراک آپ کو پہلے کیوں نہیں تھا؟ آپ نے اس حوالے سے کوئی تھنک ٹینک کیوں نہیں بنایا کہ جبکہ آپ کو حکومت ملنی ہے تو آپ کیسے پرفارم کریں گے! آپ کو علم تھا کہ شوگر مل والے کیسے عوام اور حکومت کو لوٹتے ہیں،کیسے وہ بلیک میل کر کے حکومت سے سبسڈی لیتے ہیں؟کیسے فلور مل مافیا لوٹتی ہے، کیسے وہ گندم کا ذخیرہ کرکے گندم کا بحران پیدا کرتی ہے، یا کیسے پٹرولیم مافیا تیل کے نرخ بڑھانے کے لیے بیوروکریسی کا استعما ل کرتی ہے۔ یا کیسے بیوروکریسی کی کرپشن میں رکاوٹ بننا ہے۔یعنی اگر کچھ بھی تیاری ہوتی یا کوئی بھی ادارہ ٹھیک کیا ہوتا تو اُس پر تحریک انصاف کے عام کارکن یا تبدیلی چاہنے والے عوام اُس کا ساتھ دیتے۔ لیکن افسوس کچھ بھی نہ بدلا، کچھ بھی نہ ٹھیک ہو سکا کہ جس پر فخر کیا جا سکے ۔نہ تو خارجہ پالیسی ٹھیک ہوسکی ، نہ داخلہ پالیسی ٹھیک ہے؟ اور نہ ہی معاشی پالیسیاں ٹھیک ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آپ ہر محاذ پر شکست کھا رہے ہیں، نہ شوگر مافیا، نہ بھتہ مافیا، نہ فلور مل مافیا، نہ بلڈر مافیا، نہ ملاوٹ مافیا، نہ نیب آپ کے قابو میں آیا،نہ ٹیکس کولیکشن کے سسٹم کو بہتر بنا سکے، نہ ایف بی آر کا اعتماد لوگوں کے اندر بحال کروا سکے۔ نہ الیکشن کمیشن کو بااعتماد ادارہ بنا سکے بلکہ ڈسکہ الیکشن کی حالیہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تو ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہئے کہ کس طرح الیکشن کمیشن اور عملے کو آپ کے ہوتے ہوئے یرغمال بنا کر رزلٹ تبدیل کروانے جیسی بھونڈی حرکت کی گئی۔ یعنی ایک وقت کے لیے تو ایسے لگا جیسے آپ بھی انہی کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ اور پھر آپ تو واپڈا کا چیئرمین بھی مرضی سے نہیں لگوا سکتے، مشیر ووزیر خزانہ بھی آپ کی مرضی کا نہیں لگ سکا، ڈی جی آئی ایس آئی آپ اپنی مرضی کا نہیں لگا سکے۔پھر نہ تعلیم کو آپ ٹھیک کر سکے، نہ صحت کی سہولیات دے سکے۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے ہوتے ہوئے ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر لگ رہی ہے کہ چند ہزار لوگوں پر مشتمل کوئی تنظیم سر اُٹھاتی ہے اور پورے ملک کو مفلوج بنا دیتی ہے، یہاں تک مفلوج بنا دیتی ہے کہ حکومت ایک تنظیم کو کالعدم قرار دیتی ہے، اور پھر دباﺅ میں آکر فوری طور پر نہ صرف اُن کے بندے چھوڑ دیتی ہے بلکہ تمام شرائط مانتے ہوئے اُس جماعت سے کالعدم کا لفظ بھی ختم کردیتی ہے، یعنی اتنے برے حالات تو اُن کرپٹ خاندانوں کے زمانے میں بھی نہیں تھے۔ آخر ساڑھے تین سال ہو گئے ہیں آپ کو اقتدار میں آئے ہوئے تو کیا آپ کو بھی پیپلزپارٹی کی طرح 13سال اور شہباز شریف کی طرح 10سال چاہئے حالانکہ دونوں نے بالترتیب سندھ اور پنجاب کے عوام کا برا حال کردیا، اگر آپ بھی اس فہرست میں آنا چاہتے ہیں تو شوق سے آجائیے ، عوام کا پھر اللہ حافظ۔ حالانکہ آپ یہ کہہ کر آئے تھے کہ میں 100دن میں ملک کی تقدیر بدل دوں گا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کدھر گئے 100دن کے دعوے،؟ کدھر گئی ترقی؟ کدھر گیا عوام کا ریلیف ؟ یہ تو بالکل ایسے ہوگیا ہے جیسے شہباز شریف نے اقتدار میں آکر کہا تھا کہ میں زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹوں گا اور پھر ہاتھ ملا لیا تھا۔ یعنی سب کو بے وقوف بنانے کے لیے صرف عوام ہی ملے ہیں؟ بہرکیف یہ بات سب نے مان لی کہ آپ ایک ایماندار آدمی ہیں، لیکن آپ کی ایمانداری سے عام آدمی کو کیا لینا دینا جب وہ نچلی سطح پر ڈلیور ہی نہیں ہورہی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں رپورٹنگ کیا کرتا تھا، تو اُس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے کا انٹرویو کرنے گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس چیز کا حلف دینے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے کبھی ایک روپیہ رشوت نہیں کھائی، تواس پرراقم نے جواب دیا کہ عام آدمی کو اس کا کیا فائدہ ہے؟ عام آدمی تو آج بھی بغیر پیسے کے کوئی فائل اپنے نام نہیں کروا سکتا۔ یا کوئی بندہ بغیر پیسے رجسٹری نہیں کروا سکتا۔ مطلب آپ کے ایماندار ہونے کا کیا فائدہ ہے؟ اگر آپ پیسہ نہیں کھا رہے تو اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ اُنہیں تو وہی چینی جو 60کی ملتی تھی آج ڈیڑھ سو روپے کلو مل رہی ہے، اُنہیں جو پٹرول 80روپے ملتا تھا آج 140 روپے فی لیٹر دستیاب ہے، اُنہیں جو گھی آئل 170روپے فی لیٹر یا کلو ملتا تھا آج وہی 400روپے کلو مل رہا ہے، اُنہیں جو گندم یا آٹا40روپے کلو دستیاب تھا آج وہی 100روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ الغرض کوئی ایسی چیز نہیں جس کے ریٹ دو گنا یا تین گنا نا بڑھ گئے ہوں ۔ حالات تو یہ ہیں کہ بجائے نظام کو بہتری کی جانب دھکیلنے کے مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی آپ کا سارا زور پنجاب کے آئی جی تبدیل کرنے ، یا چیف سیکرٹری تبدیل کرنے میں لگ رہا ہے، حتیٰ کہ آپ نے آتے ساتھ ائیرپورٹ پر پروٹوکول بند کیا تھا، لیکن وہ پھر سے شروع ہوگیا ہے، 2نمبر گاڑیاں ابھی بھی ہر جگہ دستیاب ہیں الغرض بقول شاعر کیا کیا شکوے کیے جائیں گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ یعنی ہم جیسے لوگ جنہوں نے ہر لمحہ تبدیلی کا ساتھ دیا وہ آج بھی تحریک انصاف سے کوئی نہ کوئی اُمید لگائے بیٹھے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کچھ کر کے تو دکھائے، آج ہر کوئی آپ کا دفاع کر نے سے قاصر ہے ، آپ کا ساتھ دینے والے لوگ آپ کا ہر جگہ ، ہر ریسٹورنٹ ، ہر گلی محلے، یا ہر چوک چوراہے پر کیسے آپ کا دفاع کریں جب آپ کے ہر وعدے، دعوے اور لارے جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لیے جناب آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں ، ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی! #Pakistan #Inflation #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan