ناظم جوکھیو! آپ کے قاتلوں کو بھی کبھی سزا نہیں ہوگی!

ناظم جوکھیو! ایک اور ناحق قتل ہوگیا، یہاں بھی قاتل طاقتور اور مقتول کمزور ہے۔ یہاں بھی قاتل کا تعلق حکومتی ایوانوں سے ہے یعنی قاتل سندھ اسمبلی سے اور قاتل کا بھائی قومی اسمبلی سے جبکہ خاندان کی سردار عطاءاللہ مینگل سے قریبی رشتے داری ہے۔ یقینا نہ جانے ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہاں بھی قاتلوں کو سزا نہیں ہوگی اور قاتل ماضی کی طرح مکھن سے بال کی طرح آزاد بھی ہوجائے گا ۔ اگر حالیہ واقعہ کی تفصیل میں جائیں تو ہوا کچھ یوں کہ چند روز قبل 27سالہ ناظم جوکھیو اپنے علاقے ملیر کے گاﺅں آچر سالار جوکھیو میں موجود تھا، کہ وہاں بااثر مذکورہ بالا سیاسی خاندان کے کچھ لوگ عرب مہمانوں کے ہمراہ تلور کا شکار کرنے ناظم کے علاقے میں آگئے، جنہیں ناظم نے روکا اور کہا کہ یہ ہمارا علاقہ ہے آپ یہاں شکار نہیں کر سکتے۔ جس پر ان کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی اور بعد میں ناظم نے ان کی ویڈیو بنا کر وائرل کی۔سیاسی خاندان کی جانب سے ناظم جوکھیو کو کہا گیا کہ یہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دو لیکن اُس نے کہا کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا میں یہ ڈیلیٹ نہیں کروں گا، جس کے بعد رات کو جام کا مینیجر آیا کہ چلو جام صاحب نے بلایا ہے۔ ناظم جوکھیو نے ”جام صاحب“ کے فارم ہاﺅس جانے سے انکار کیا تو ناظم کے بھائی افضل جوکھیو نے ناظم پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ چلو جام صاحبان میری عزت کرتے ہیں، میں ضلع کونسل کا رکن بھی منتخب ہو چکا ہوں، مجھے ان پر اعتماد ہے۔افضل جوکھیو کے تین بھائی تھے اور ناظم ان سے چھوٹا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ان کی اوطاق پر پہنچے تو جام کے لوگوں نے ناظم پر لاٹھیوں اور بندوقوں کے بٹ سے تشدد کیا۔میں نے جام سے ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کی۔ جام صاحب نے کہا کہ کوئی معافی نہیں، تم لوگوں نے میرے مہمان کی بے عزتی کی ہے، جس کے بعد وہ اس کو مارتے رہے اور بعد میں ایک کمرے میں بند کر دیا اور مجھے کہا کہ جاو¿ صبح آنا۔ ہمیں لوگوں نے بتایا ہے کہ صبح پانچ بجے دوبارہ اُنھوں نے بھائی پر بے پناہ تشدد کیا جس میں وہ ہلاک ہو گیا۔اور پھرلاش کو تھانے کے قریب پھینک دیا گیا۔ اس سے آگے پوسٹ مارٹم رپورٹ کی کہانی سنیے ۔ ناظم جوکھیو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ”پورے بدن پر بدترین تشدد کے نشانات“ پائے گئے۔یہ رپورٹ جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سنٹر کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے لکھی۔پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر محمد اریب کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے دوران ناظم جوکھیو کے بدن پر بے شمار زخم اور نیل موجود تھے حتیٰ کہ ناظم جوکھیو کے نازک اعضا کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اس ہلاکت کا شاید کسی کو علم بھی نہ ہوتا اگر سندھ کی بڑی شاہراہ کو بند نہ کیا جاتا ۔ لواحقین لاش کو لے کر قومی شاہراہ پر آگئے جسے دونوں اطراف سے بند کر دیا گیا اور پھر جب گاڑیوں کی دونوں اطراف سے لمبی لمبی لائنیں لگ گئیں۔ یہاں احتجاج پر جو منظر دیکھنے کے قابل تھا وہ یہ تھا کہ ناظم جوکھیو کی بیوہ تین بچیوں اور ایک نومولود بیٹے کے ہمراہ موجود تھی ، چاروں چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے تھے، کیوں کہ اُنہیں علم تھا کہ اُن پر قیامت سے پہلے قیامت آچکی ہے۔ان کی بیوہ شیریں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ شیریں کہہ رہی تھی کہ جام خاندان طاقتور ہے۔یہ غریب لوگوں پنچائتی فیصلوں میں جرمانے کر کے دولت مند بنے۔عشروں سے کسی کی بکریاں،کسی سے نقدی اور کسی کی جائیداد فیصلوں کے بدلے ہتھیا رہے ہیں۔شیریں کا کہنا ہے کہ میڈیا مدد نہ کرتا تو پولیس جام کو گرفتار نہ کرتی۔میڈیا نہیں سوشل میڈیا نے یہ مدد کی ،میڈیا تو وڈیرے لیڈروں کا آلہ کار ہے۔ خیر جیسے ہی قومی شاہراہ پر دھرنا ہوا اوردولت مند افراد اور حکومتی شخصیات کا راستہ بند ہوا تو سندھ حکومت کو ہوش آیا کہ وہ تو غریب دوست حکومت ہے،پولیس کو خیال آیا کہ اسے مجرم کو پکڑنا تھا۔نہایت ادب کے ساتھ ایم پی اے کو تھانے لایا گیا۔ایک ڈی ایس پی نے ایم پی اے کو ہتھکڑی لگانے کی بجائے اس کا ہاتھ پکڑ کر عدالت میں پیش کیا، معلوم نہیں جام اویس نے کیا کہانی گھڑی ہو گی تاہم اسی روز کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے ملزم کو تین روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا۔ اب ہوگا یہ بلکہ خبروں میں ہی آرہا ہے کہ جام صاحب کے گارڈز نے ناظم جوکھیو کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے اور جلد ہی جام صاحب بری الذمہ قرار دے دیے جائیں گے اور گارڈز کو شاید عمر قید ہو جائے لیکن چند ماہ بعد یا ایک دو سال کے بعد دونوں پارٹیوں میں دیت کا اسلامی قانون لاگو ہوگا اور ایک دوسرے کو معاف کر دیا جائے گا۔ اور پھر ”گارڈز“ بھی باعزت بری ہو جائیں گے لیکن سیاسی خاندان کا رعب و دبدنہ پہلے سے زیادہ ہوجائے گا اور تمام لوگ اُن کی زیادہ سے زیادہ عزت کیا کریں گے، یہ ہے ہمارے پیارے پاکستان کا قانون! اس سارے کیس میں عجیب بات یہ ہے کہ سندھ کے گورنر نے مقتول کے پسماندگان سے ملاقات کی اوراُس جے آئی ٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جو سندھ کی حکومت نے بنائی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ وفاق کی سطح پر جے آئی ٹی بنوائیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس نوجوان کی درد ناک موت کا بہت افسوس ہے۔ اگر وہ مجرم کو قرار واقعی سزا دلوا سکیں تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں کہ وہ مقتول کے ساتھ ہمدردی اس لیے کر رہے ہیں کہ ملزم کا تعلق ایسی پارٹی سے ہے جو وفاقی حکومت کی مخالف صف میں ہے۔ اور ویسے اگر اجازت ہو تو ان کی خدمت میں ایک گزارش ہے۔ یہ قتل تو سندھ میں ہوا ہے، جس کے نظم و انصرام کا تعلق وفاق سے براہ راست نہیں۔ کیا وہ اُن ہلاکتوں کے بارے میں کچھ معلومات مہیا فرما سکتے ہیں جو وفاق کی ناک کے عین نیچے ہوئیں؟ سالِ رواں کے پہلے مہینے میں اسلام آباد کے ایک نوجوان اسامہ ستی کو چار سرکاری اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ کیا نتیجہ نکلا؟ نو ماہ ہو گئے کیا قاتلوں کو سزا ملی؟ اُس پر بھی جے آئی ٹی بنوا دیں! اس سفاکانہ قتل کے ایک ماہ بعد وفاقی دارالحکومت ہی میں ایک بڑی گاڑی نے مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں گھر سے نکلے تھے۔ اس حوالے سے ایک با اثر خاتون کے بیٹے کا ذکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا۔ کیا وہ ایک خصوصی جے آئی ٹی اس ضمن میں بھی بنوائیں گے؟ یوں تو ماڈل ٹاو¿ن کے قتلِ عام کا مقدمہ بھی موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر تھا۔ توقع تھی کہ قاتلوں کو سزا ملے گی‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا! بہرکیف شاہ رخ جتوئی ہو یا جام اویس ،ساری شکلیں ایک سی ہیں۔سب ظلم کرنے کے عادی اور احتجاج کرنیوالوں کو دشمنوں کا آلہ کار قرار دیتے ہیں۔لیکن ریاست میں انصاف اُسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب ریاست بلاخوف و خطر کارروائی کرے، گواہوں کو تحفظ فراہم کرے۔ غریب کا ساتھ دے، امیر کو کٹہرے میں کھڑا کرے تب مزہ آئے کہ ہم واقعی ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں۔ یہاں آپ کو تاریخ کا ایک قصہ بتاتا چلوں کہ پتہ چل سکے کہ کس طرح کوئی ریاست چلتی ہے۔ ہندوستان میں راجاایلان چولان ایلارا نے 205 قبل مسیح سے 161 قبل مسیح تک ریاست انورادھاپورہ پر حکمرانی کی۔ ایلارا ایک انصاف پرور راجا تھا۔ اسکے لاڈلے بیٹے ”ویدھی ویدنگن“ کی رتھ کے نیچے آکرگائے کا بچھڑاکچلا گیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایلارا نے بڑا عجیب فیصلہ کیا۔ ایلارا نے اپنے بیٹے کو اُسی رتھ کے نیچے کچلنے کا حکم دیدیا۔ فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا تو بیٹے کی ارتھی کو شعلہ دکھانے سے پہلے ایلارا نے ویدھی کے ماتھے پر بوسہ دیا ”ویدھی! تو مجھے بہت پیارا تھا، لیکن انصاف سے زیادہ ہرگز نہیں تھا“۔ پھر آپ خلفاءراشدین کے انصاف کو دیکھ لیںکہ کس طرح وہ غریبوں کی آواز بنتے تھے اور طاقتور کو انصاف کے کٹہرے میں لاتے تھے۔ قصہ مختصر کہ یہ وہ ماضی کی مثالیں ہیں جن پر معاشرے کی بنیادیں استوار ہوئیں اور جن قوموں، ملکوں نے ان پر عمل کیا وہ معاشرے پروان چڑھے اور جنہوں نے عمل نہیں کیا وہ تیسری دنیا میں دھکیل دیے گئے۔ اور پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں نہ تو سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو سزا ملی، نہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ داروں کو ، نہ جتوئیوں کو اور نہ ہی سانحہ بلدیہ ٹاﺅن و سانحہ سندر والوں کو۔ اور اب جبکہ ناظم کا قتل ہوا ہے تو ہر طرف ایک ہی صدا تھی کہ اب ”اس کیس کا بھی کچھ نہیں ہوگا، اور ملزمان بری ہو جائیں گے“۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں ہم عوام کو یقین ہوگیا کہ اس معاشرے میں انصاف نہیں مل سکتا؟ اگر ایسا ہے تو یہ خطرناک بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ خطرناک اس لیے کہ اب معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جبکہ خوش آئند اس لیے کہ شاید اب بادی النظر میں انقلابی تبدیلیاں آنے والی ہیں، یعنی کہیں سے بھی کوئی انقلاب کی کرن پھوٹ سکتی ہے۔ لیکن فی الحال تو بقول شاعر ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے یعنی ناظم جوکھیو کے قتل کی تمام کڑیاں بھلے قاتل کے خلاف گواہی دے رہی ہیں، اس کی بیوہ واقعات کی کڑیاں ملا کر اپنی دنیا لٹ جانے کا حال سنا رہی ہے۔درد دل رکھنے والے لوگ دکھ کا اظہار کر رہے ہیں‘پوسٹ مارٹم رپورٹ موت کی وجہ تشدد بتا رہی ہے لیکن اس سے کیا ہو گا۔یہ سب اس وقت فائدہ مند ہوتا اگر کوئی غریب کسی طاقتور کو قتل کر دیتا۔وڈیروں اور سرداروں پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔کیوں کہ وہ سب قانون سے ماورا ہیں۔اس لیے صرف شرمندگی کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے اور کچھ نہیں! #Pakistan #nazim jokhio #sindh #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan