تحریک انصاف کو اب کرنا کیا چاہیے!

لو بھئی ! رہی سہی کسر اب نکل رہی ہے کہ اب پٹرول بھی عوام کو مہنگا اور لائنوں میں لگ کر ہی ملے گا، کیوں کہ تادم تحریر پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشنز نے منافع بڑھانے کے لیے حکومت کو استدعا کر رکھی ہے جبکہ حکومت بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے، اور اسی کشمکش میں عوام عجیب کیفیت میں مبتلاءہیں کہ ناجانے اب کیا ہوگا؟ غریب عوام مہنگائی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ ساڑھے 3 سال میں ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے تو اس کی ذمہ دار صرف حکومت نہیں ہے۔ اپوزیشن اس میں برابر کی سہولت کار ہے، خیر یہ تو الگ بحث ہے۔مگر اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ آٹا، چینی، دال، سبزی، پٹرول، بجلی اور گیس سمیت بنیادی استعمال کی ہر چیز اتنی مہنگی ہوچکی ہے کہ عام آدمی اپنے شب روز کیسے بسر کررہا ہے، اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ وزرا، مشیروں اور ترجمانوں کی فوج ظفر موج اعداد و شمار کو جتنا مرضی گھما پھرا لیں، یہ بات ان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ مہنگائی کی موجودہ شرح نے عام آدمی کی زندگی کو مشکل بنارکھا ہے، یا یوں کہیے کہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کیلئے جینا اجیرن ہو چکا ہے۔ خوفناک مہنگائی کی لپیٹ میں آئے عوام میں غصے کی ایک لہر موجود ہے۔ تحریک انصاف پر مرمٹنے والے کارکن بھی اب مہنگائی کی اس لہر کا دفاع پہلے سے جوش و جذبے کے ساتھ نہیں کرپاتے، مگر وزیراعظم اس حوالے سے خوش قسمت ثابت ہوئے کہ اس سب کے باوجود بھی راوی ابھی تک تبدیلی سرکار کے لیے چین ہی چین لکھتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب حکومت کو اندرونی و بیرونی سازشوں نے گھیر رکھا ہے، جس پر ناصرف حکومت کی کوئی واضح حکمت عملی نظر آرہی ہے نہ ہی حکومت اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل رکھتی ہے، بلکہ ”خدائی طاقت“ کے انتظار میں کھڑی ہے کہ شایدحکومت یوں نقشہ کھینچے اور اُس کے سارے مسائل حل ہو جائیں کہ بقول شاعر شاید کوئی دیکھنے والا ہو جائے حیران کمرے کی دیواروں پر کوئی نقش بنا کر دیکھ خیر نومبر تو لگتا ہے کہ اس ملک پر ہی بھاری ثابت ہو رہا ہے اور حکومت مسائل سے بے خبر چپ سادھے کھڑی ہے۔ جیسے گزشتہ دنوں لاہور میں ہوئی اپنے ڈھب کی آزادی اظہار کانفرنس، جس میں ملکی اداروں کو تاک تاک کر نشانے لگائے گئے‘ یقینا قابلِ مذمت ہے۔ کسی کو یہ اجازت کس نے دی ہے کہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات پر بے ہنگم طریقے سے ناچتا پھرے لیکن جب کوئی دوسرا اس کی کسی خامی کی نشاندہی کرے تو وہ آپ اپنے گھر کے دروازے ہی بند کرلے۔ کم از کم اس معاملے میں معیار تو ایک ہونا چاہیے۔ جس طرح اس کانفرنس میں بعض افراد نے پاکستان کی اندرونی سیا سی صورت حال پر کب کشائی کی وہ ایک آزاد ملک کو کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں ، یہ دیکھیں کہ سابق چیف جسٹس کی ایک مبینہ آڈیو بھی گردش کررہی ہے، یہ بھی کس منظم انداز میں وائرل کروائی گئی اور اُس پر سونے پر سہاگہ کہ ساتھ دیگر چیزوں کو جوڑ کر کس طرح حکومت کے خلاف منظم تحریک چلائی جا رہی ہے، مسلم لیگ نون اس مبینہ آڈیو میں ہونے والی گفتگو کو بنیاد بناکر اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنما ایک بار پھر یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف بہت بڑی سازش کی گئی اور ایک منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے باہر کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچایا گیا۔ سابق چیف جسٹس اس آڈیو کو جعلی قرار دے کر مسترد تو کرچکے ہیں لیکن اس آڈیو کو جاری کرنے والے صحافی اور ویب سائٹ کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی کرنی ہے، اس حوالے سے ابھی تک اپنے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا۔ اور پھر ان سب سے ہٹ کر آئی ایم ایف حکومت کو چاروں شانے چت کیے ہوئے ہے۔حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے اُس وقت سے آئی ایم ایف پاکستان سے 6ارب ڈالر کا قرضہ لے چکی ہے جس کے بعد حکومت نے رواں سال مارچ میں مزید قرضہ لینے کے لیے رابطہ کیا جو بے سود گیا۔ یعنی مارچ2021ءمیں تحریک انصاف کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات میں اس بنا پر انقطاع آیا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل نہیں کر رہی ہے، اس دوران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی بہت کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہ ہو سکی، تاہم اب آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ، اس کامیابی کے بعد حکومت کو تقریباً ایک ارب ڈالر کی رقم مل سکے گی، جس کی حتمی منظوری ایگزیکٹو بورڈ جنوری2022ءمیں دے گا، مگر اس کے ساتھ ہی نئی کڑی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں، حکومت اگر ان شرائط کو پورا کرتی ہے تو عوام کی مشکلات بڑھ جائیں گی لیکن حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے، کیونکہ اہداف پورے نہ ہوئے تو آئندہ قسط پھر روک لی جائے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں پانچ نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔جن کے بعدایک بار پھر مہنگائی کا طوفان آ جائے گا۔ بہرکیف یہ تمام مسائل حکومت کے سامنے ہیں اور ”حکومت“ عوام کے سامنے ہے ۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ان مشکل حالات میں عوام حکومت کا منہ دیکھ رہے ہیں اور حکومت عوام کا۔ اب تو یقین مانیں حکومت کو کوئی تجویز دینے کو بھی دل نہیں مانتا لیکن کیا کریں ہمارا کام شاید اذانیں دینا ہی رہ گیا ہے کوئی ”نمازی“ آئے نہ آئے۔ لہٰذا اب کسی کو بھی یہ علم نہیں کہ حکومت کو مسائل کی دلدل سے کون نکالے گا۔ عوام سے کیے گئے ایک کروڑ نوکریوں، اور گھروں کے وعدوں کو تو آپ ایک طرف رکھ دیں لیکن فی الوقت حکومت اپنا قبلہ ہی درست کر لے تو یہ کافی ہوگا، مثلاََ خارجہ پالیسی ہی کو لے لیں، اس حوالے سے حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُسے کس بلاک میں بیٹھنا ہے ، چین، روس تو خود امریکا کے بغیر چل نہیں سکتے تو وہ پاکستان کو کیا سپورٹ کریں گے۔ یعنی اگر حکومت امریکا کے ساتھ مراسم ٹھیک کر لے تو اُس کے آدھے مسائل حل ہو سکتے ہیں، اور یہ بات میں اپنے کئی کالموں میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا، اور اگلے 50سال تک رہے گا۔ اور جو ملک امریکا سے دوہری پالیسی (ڈبل گیم) اپنائے گا وہ اُسے معاشی طور پر ناصرف کمزور کردے گا بلکہ اپنا محتاج بھی بنالے گا۔ اس کی حالیہ مثال کے لیے آپ دور نہ جائیں ، ترکی کی مثال لے لیں، کہ گزشتہ ماہ ترک صدر نے دس مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر انہیں ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ 23اکتوبر کو صدر اردوان نے ان غیر ملکی حکام کے ناپسندیدہ شخصیات قرار دیے جانے کا حکم جاری کیا تھا جنہوں نے ترکی کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے زیر حراست ایک اپوزیشن رہنما عثمان کوالا کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ جن دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا وہ امریکا سمیت کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، نیوزی لینڈسے تعلق رکھتے تھے۔ صدر اردوان کا ایسا کرنا تھا کہ آج صرف ایک ماہ گزرنے کے بعد ہی ترکی کو دن میں تارے نظر آگئے اور ہر چیز کے دام دوگنا ہوگئے ہیں یعنی مہنگائی 30فیصد سے بھی زیادہ ہوچکی ہے اور آخری اطلاعات آنے تک عوام اردوان کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ جبکہ مظاہرین کا بنیادی مطالبہ بھی یہی ہے کہ جب تک طیب اردوان استعفیٰ نہیں دیتے تب تک وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ اپنے مسئلے ایک ایک کرکے حل کرے، اپوزیشن سمیت کسی گروپ کے ساتھ مذاکرات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اُس کے سارے مسئلے حل ہوتے جائیں گے!! #Pakistan #PTI #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan