گوادر: مقامی قیادت اور معاہدے کا احترام کیا جائے !

بحیرہ عرب کے کنارے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر جو موجودہ معاشی دوڑ میں دنیا بلخصوص براعظم ایشیاءمیں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔یہاں گزشتہ ماہ ایک زبردست احتجاجی تحریک نے جنم لیا جو دیکھتے ہی دیکھتے دھرنے میں تبدیل ہوگئی اور دھرنا بلآخر 32روز بعد ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہوگیا۔ معاہدہ کیا طے پایا، کونسے مطالبات تسلیم ہوئے کون سے نہیں، مطالبات تسلیم کرتے ہوئے 32دن کیوں لگے اور اس دوران کس کس کو دبایا گیا اس پر تو بعد میں آتے ہیں مگر سب سے پہلے گوادراور پورے بلوچستان کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہاں پر اس قدر پرہجوم احتجاج کی نوبت کیوں آئی؟ قارئین! بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ غربت کی شرح 71 فی صد ہے۔ 86 فی صد دیہی آبادی خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ بیروزگاری کی شرح 90 فی صد ہے جبکہ گزشتہ 15 سال سے یومیہ فی کس آمدنی ایک ڈالر یعنی 175 روپے سے بھی کم ہے۔ بنیادی سہولتوں کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے ایک کروڑ 24 لاکھ عوام کے لیے سرکاری اسپتالوں میں کل 7797 بستر (Beds) دستیاب ہیں یعنی 1590 افراد کے لیے اسپتالوں میں صرف ایک بستر دستیاب ہے۔ جبکہ صوبہ بھر میں 947ہائی اسکولز، 97 کالجز اور 8 یونیورسٹیاں ہیں۔ 70 فی صد سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔اور اگر وسائل کا مختصر جائزہ لیں تو دنیا کے قدرتی گیس کے ذخائر کا پانچواں حصہ سوئی کے مقام سے نکلتا ہے سوئی سے روزانہ نکالی جانے والی 363 ملین مکعب فٹ قدرتی گیس پورے بلوچستان کے عوام کو میسر نہیں۔ قومی پیداوار کا 90 فی صد بادام، انگور، چیری اور دیگر ڈرائی فروٹس بلوچستان پیدا کرتا ہے۔ یہاں معدنیات، سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں جن سے ابھی تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ بلوچستان میں 25 لاکھ سے زائد تنومند نوجوان ہیں لیکن انسانی سرمایہ بھی بے روزگاری اور محرومی کا شکار ہے۔ گزشتہ74 سال میں سول اور فوجی حکومتوں نے بلوچستان میں پینے کے صاف پانی سمیت کسی مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت نے بھی بلوچستان کو مفاد پرستوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان بدترین پسماندگی اور کرپشن کا شکار ہے۔ اوراگر گوادر کی بات کی جائے تو وہاں بھی عوامی مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، وہاں کے مقامی افراد کا سب سے بڑا مسئلہ ماہی گیری میں بیرونی مداخلت ہے، اور پھر باہر سے آئی آبادی کے پیش نظر وہاں ہر چند کلومیٹر کے بعد چیک پوسٹیں بنا دی گئی ہیں جو مقامی آبادی کے بقول اُنہیں آتے جاتے مختلف قسم کے سوال پوچھتی نظر آتی ہیں۔ اور پھر ایک فوری مسئلہ یہ بھی ہے کہ گوادر اور اس کے قرب وجوار میں واقع گاﺅں پسنی، جیوانی اوراس کے اردگرد کے علاقے شدید خشک سالی کاشکار ہیں اور ان علاقوں میں دھول اڑ رہی ہے ،جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ یا تو اپنے مال مویشی اونے پونے داموں فروخت کررہے ہیں ، یا پانی کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ گوادر اور اس کے اردگرد کے علاقوں کوپانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ اکارہ کور ڈیم ہے لیکن یہ بھی قریب قریب خشک ہوچکاہے ،یہ ڈیم 1990کے اوائل میں تعمیر کیاگیاتھالیکن علاقے اور خاص طورپر گوادر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کی تکمیل میں ناکام رہاہے۔ اس ڈیم میں علاقے کی ضرورت کے مطابق پانی کاذخیرہ نہ ہوسکنے کی ایک او ر بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کو سال بہ سال صاف کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔پھر یہاںکے عوام صحت، تعلیم، روزگار اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ حالانکہ یہاں پر پاک چائنہ اقتصادی راہداری کی بنیادبننے والا CPECچین کے شہرسنکیانگ سے لے کر گوادر تک 2442کلومیٹر لمبا روڈ ہے جس کی کل لاگت 60بلین امریکی ڈالر ہے جس میں انرجی زون، سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک،تعلیمی ادارے،ہسپتال اور رہائشی کالونیوں سمیت دیگر کئی اہم پروجیکٹ شامل ہیں مگر ان تمام منصوبوں اور بجٹ کی خطیر رقم ہونے کے باوجود گوادر اور مکران ڈویژن کے مکین اپنے حقوق کے لیے لمبے عرصے تک سراپا احتجاج رہے ،جس کے بعد جب اُن کی قوت برداشت نے جواب دے دیا تو بقول شاعر برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا الغرض یہاں کے لوگ اپنے حقوق سلب اوراشرافیہ کے ظلم و ستم کے خلاف پھٹ پڑے ، پھر وہاں ایک اور بڑا مسئلہ بن چکا تھا کہ بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک سمیت کمیشن و ٹوکن لیا جا رہا تھا، اور تو اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقامی آبادی کو نشے کی عادت میں ڈالا جا رہا تھا۔ پھر جبری گمشدگیوں کی پرانی ”روایات “ بھی سب کے سامنے تھیں۔ لہٰذایہ تمام جائز مطالبات تھے، جن پر حکومت پہلے تو توجہ دینے سے قاصر تھی، مگر اب معاہدہ جو طے پایا ہے اُس کے مطابق بلوچستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور اس کی روک تھام کے لیے محکمہ ماہی گیری اور ماہی گیر مشترکہ پیٹرولنگ کریں گے۔بلوچستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی غیر قانونی ماہی گیری کی روک تھام سے متعلق نکات کے مطابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ ’پسنی، ماڑہ اور لسبیلہ کے علاقوں میں آئندہ اگر کوئی ٹرالر پایا گیا تو متعلقہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی جبکہ وی آئی پی نقل و حمل کے دوران بلاضرورت عوام الناس کی نقل و حمل کو محدود نہیں کیا جائے گا۔پھر کہا گیا ہے کہ تمام غیر ضرووری چیک پوسٹیں فوری طور پر ختم کر دی جائیں گی، اس کے علاوہ گوادر میں ایکسپریس وے متاثرین کو دوبارہ سروے کے بعد جلد معاوضہ ادا کیا جائے گا۔معاہدے کے مطابق حق دو تحریک کے کارکنان پر تمام مقدمات فوراً ختم کیے جائیں گے اور حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت کا نام فورتھ شیڈول سے فوری طور پر خارج کیا جائے گا۔ ؒخیر اس معاہدے کے بعد ایک بات تو طے ہوگئی کہ حکومت اور اداروں پر جب تک دباﺅ نہ بڑھایا جائے، یہ کسی کی نہیں سنتے۔ اور اب جبکہ ان 32دنوں میں پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے والے ایک اور بڑے منصوبے گوادر کے حوالے سے عوام کس قدر نالاں ہیں تو ساتھ ہی حکومت کو بھی مطالبات تسلیم کرنے کا خیال آگیا۔ حالانکہ اس سے پہلے حکومت مظاہرین کو بزور طاقت کچلنا چاہتی تھی، جس کے لیے کوششیں بھی کی جاتی رہیں، نہ جانے اس قسم کے مشورے حکمرانوں کو کون دیتا ہے؟ کہ ہم ”طاقتور“ کے مطالبات کو من و عن تسلیم کرتے اور غریب کے مطالبات کو کچلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ غریب کی دفعہ ہمیں قواعد وضوابط یاد آجاتے ہیں، لاءاینڈ آرڈر یاد آجاتاہے، وہاں آپکا رویہ جارحانہ ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس طاقتور کے سامنے ریاست بے بس ہو جاتی ہے، اور پھر محض ایک دو ہزار افراد پورے ملک کو یک لخت بلاک کر دیتا ہے، یا اسی طرح اگر ن لیگ ، پیپلزپارٹی یا مولانا فضل الرحمن کوئی مطالبہ کرے تو وہاں ریاست کا رویہ کچھ اور ہوتا ہے، حالانکہ ریاست تو سب کی ماں ہوتی ہے، تو پھر وہ ایک طبقے کو زہر اور دوسرے طبقے کو دودھ کیوں پلا رہی ہے؟ لہٰذاابھی بھی وقت ہے، گوادر کو رکوڈک منصوبے کی طرح سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جائے، وہاں اگر آج وقتی طور پر تحریک تھم گئی ہے تو اگر معاہدے کے مطابق کام نہ کیا تو خاکم بدہن یہ تحریک پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ سامنے آئے گی، اور پھر وہاں کے عوام کے مسائل زیادہ گھمبیر بھی نہیں ہیں، جیسے اگر بات کی جائے گوادر میں آباد کاریوں کے حوالے سے تو یہ بات بھی گوادر کے مکینوں کی درست ہے کہ گوادر میں جو آباد کاریاں کی جارہی ہیں، وہ غیرقانونی ہیں، اس حوالے سے آپ دبئی یا پورے متحدہ عرب امارات کی مثال لے لیں، جہاں مقامی آبادی محض 10سے 15فیصد ہے، جبکہ 85فیصد آبادی غیر ملکیوں کی ہے، لیکن اس کے برعکس مقامی آبادی کو آج بھی سب سے زیادہ حقوق حاصل ہے، اُنہیں فری راشن کارڈ کے ساتھ ساتھ بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلوں میں خاصی رعایت دی جاتی ہے۔ یعنی ریاست مقامی افراد کو اس لیے زیادہ اہمیت دیتی ہے کہ کہیں اکثریت اقلیت(مقامی آبادی) پر غالب نہ آجائے، پھر آپ کینیڈا کی مثال لے لیں، وہاں کی مقامی آبادی بھی نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن کینیڈین نے مہاجرین یا دوسرے ملکوں سے شہریت حاصل کرنے کی غرض سے آنے والوں کے لیے ایک فارمولا طے کر رکھا ہے، وہ کبھی بھی تمام آبادی ایک خطے سے نہیں بلاتے۔ بلکہ وہ پوری دنیا کے مختلف لوگوں کو اس حوالے سے منتخب کرتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ کہیں وہاں ایک قوم کے باشندوں سے کوئی تحریک نہ جنم لے لے۔ یہ بالکل اسی طرح کا خطرہ ہے جیسے 1947ءکے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان نے مہاجرین کو بھارت سے لاکر کراچی میں آباد کر لیا، جس سے مہاجرین کی ایک تشدد پسند جماعت نے جنم لیااور پھر سب نے دیکھا کہ اس تنظیم نے نا صرف الگ صوبے کی آواز لگائی بلکہ اُس سے جان چھڑا نا بھی مشکل ہوگیا۔ لہٰذااگر اسی طرز پر گوادر کو آباد کیا تو 10، 15سال کے بعد تو وہاں پر بلوچی کو ئی نظر ہی نہیں آئے گا۔ اور جہاں جہاں بلوچی ہوں گے وہاں وہاں سے تحریکیں جنم لیں گی۔ اس لیے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور بلوچستان کے غریب عوام کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں،اور سب سے بڑھ کر ترقی کے نام پرنسل در نسل روزگار کے ذرائع سے مرحوم کرنا کہاں کا انصاف ہے صبح وشام اپنی تذلیل کون برداشت کرتاہے کون یہ برداشت کرے گا کہ اس کے علاقے میں ایسے اسٹیڈیم بنائے جائیں جہاں مسند اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے بچے سیرو تفریح پر آئیں اور کھیلیں جبکہ مقامی بچوں کوعلاج و معالجے اور سکول و کالجز جیسی بنیادی سہولیات بھی میسر نہ ہوں قانون فطرت ہے کہ کسی بھی قدرتی نعمت میں سب سے پہلا حق مقامی لوگوں کا ہوتا ہے پھر باقی دنیا کی باری آتی ہے۔ #Pakistan #gawadar protest #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan