قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟

کل یوم ولادت ِقائدِ پاکستان محمد علی جناح ہے، ایک طرف ہم اُن کی ولادت کی خوشی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف میرے سامنے اخبار میں ایک وفاقی وزیر سری لنکن سفارتخانے میں ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں، یہ بالکل ایسے لگ رہا ہے جیسے پورا پاکستان سری لنکا کے سامنے ہاتھ جوڑے اور نظریں جھکائے کھڑا ہے۔ ہو بھی کیوں ناں! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات کے ہم سب ذمہ دار ہیں؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ”ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں“ جبکہ اس کے برعکس میرے قائد ایسا پاکستان چاہتے تھے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ ہنسی خوشی زندگی بسر کریں۔ تبھی انہوں نے 11اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا کہ ”آپ کا تعلق کسی مذہب سے ہوسکتا ہے۔کسی بھی نسل اور کسی بھی عقیدہ کے ساتھ ہوسکتا ہے،یہ صرف اور صرف آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ ریاستِ پاکستان کا ان معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے، پھرکہاکہ میں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم اپنے تاریک دور سے آغاز نہیں کررہے ہیں۔بلکہ ہم تو ایک ایسے عہد میں اپنے ملک کی بنیاد رکھ رہے ہیں جس میں ذات پات اور برادریوں ،مذاہب اور عقائد کے درمیان کوئی فرق ،کوئی امتیاز اور کوئی دوری نہیں ہے۔ہم ایک ایسے یقین اور بنیادی اصول سے اپنی جدوجہد کا آغاز کررہے ہیں جس کے مطابق پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم سب برابر ہیں۔ہم سب ایک قوم ہیں۔مزید فرمایا ”میرے خیال میں عقیدے ،رنگ و نسل کی بنیاد پر کی جانے والی تفریق بھارت کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو ہم کب کے آزاد ہوچکے ہوتے۔ہمیں اپنے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا۔آپ آزاد ہیں ،آپ آزاد ہیں ، آپ پاکستانی ریاست کے آزاد شہری ہیں۔آپ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔آپ کو اپنی مساجد میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔پاکستانی ریاست کے تمام شہریوں کو انکے مذاہب اور عقیدوں کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی حاصل ہے۔میں ایسا مذہبی بنیادوں پر نہیں کہہ رہا ہوں۔کیونکہ مذہب تو ہر شخص کا انفرادی معاملہ ہے۔لیکن ہم سب لوگوں کے درمیان سیاسی طور پر مذہب اور عقائد کا فرق ختم ہو جانا چاہیے۔“ اور پھر چند سال تک اُن کے کہے پر عمل بھی ہوتا رہا حتیٰ کہ 70کی دہائی تک تو یہاں کراچی، لاہور، پشاور تک میں ”اینگلو انڈین“ (یہاں پر انگریز دور حکومت میں لاتعدادانگریزملازمین نے برصغیرمیں شادیاں کرنی شروع کردیں۔اس سماجی اختلاط سے ایک نئی نسل وجود میں آئی، جواینگلوانڈین (Angloindians)کہلاتے تھے۔یہ لوگ حقیقت میں توبرصغیر میں رہتے تھے مگر فکری طورپربرطانیہ سے منسلک تھے۔تقسیم ہندکے وقت محتاط اندازے کے حساب سے ان کی آبادی تیس لاکھ کے قریب تھی۔پاکستان میں بھی ہزاروں کی تعدادمیں موجود تھے۔ یہ لوگ صرف اورصرف شہروں تک محدود تھے۔انڈیا کے شہر کولکتہ میں ہزاروں کی تعداد میں اینگلو انڈین رہائش پذیر ہیں مگر پاکستان میں موجودہ دور میں اینگلو انڈینز کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر ساٹھ کی دہائی وہ وقت تھا جب پاکستان کے کئی شعبوں میں اینگلو انڈین بہت ہی اہم خدمات انجام دے رہے تھے۔ان میں کچھ نمایاں ناموں میں پاکستان ایئر فورس کی بنیاد رکھنے والے پیٹرک ڈیسمنڈ کیلیگن اور میرون مڈل کوٹ، اداکارہ پیشنس کوپر، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید اور چوتھے چیف جسٹس اے آر کارنیلیئس، کرکٹر ڈنکن شارپ اور سابق گورنر پنجاب سلیمان تاثیر شامل ہیں۔) یہ اپنے مخصوص لباس میں سڑکوں پر نظر آتے تھے، آزادی سے پھرتے، شاپنگ کرتے، سیر کو جاتے اور مختلف محکموں میں ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ لوگ جب تک پاکستان ریلوے میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے، ریلوے منافع بخش ادارہ رہا۔ لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان کے لیے وطن عزیز میں ایسے حالات پیدا کر دیے کہ یہ لوگ اب دوسرے ممالک میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جیسے ابھی حال ہی میں ہالینڈ کی ممبر پارلیمنٹ ماریئیل پال منتخب ہوئی ہیں، انہوں نے اپنے حالیہ خطاب میں پاکستان خصوصاََ کراچی کا ذکر شاندار الفاظ میں کیا ہے وہ کہتی ہیں کہ ”میرے والد ہیا سینتھ پال اینگلو انڈین تھے۔ وہ مرتے دم تک کراچی میں صدر کے علاقے میں گزارے گئے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام یاد کرتے رہے۔ گھر میں آج بھی والدہ پاکستانی کھانے پکاتی ہیں جو ہم سب شوق سے کھاتے ہیں۔“وہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میرے لیے دوسرا گھر ہے، رشتہ داروں کے ساتھ رابطے موجود ہیں۔ پاکستان کے لیے کچھ کر سکی تو ضرور کروں گی۔‘ حالانکہ میرے کئی جوانی کے دوست اینگلو انڈین تھے، جن میں سے 100فیصد بیرون ملک شفٹ ہو چکے ہیں، بلکہ اس مرتبہ ”امریکا یاترا “ میں تو ایک مخصوص دوست سے ملاقات بھی ہوگئی اُن کا نام جنید ہے جو 3دہائیاں قبل والدین کے ہمراہ پاکستان چھوڑ آئے تھے، اُن سے یونہی گپ شپ ہوئی تو میں نے پوچھ لیا کہ آپ نے پاکستان کیوں چھوڑا، تو وہ اپنی یادوں میں کھو گئے اور کہا کہ وہ جب لاہور کے گڑھی شاہو میں رہتے تھے تو ایک وقت تک اُن کے پاکستان میں بڑا ساز گار ماحول تھا، جنید نے بتایا کہ ’میں پندرہ یا سولہ سال کا تھا جب میرے والدین نے نوے کی دہائی میں پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔“اس وقت ان کے والد کے زیر انتظام ایک چرچ پر حملہ ہوا تھا۔”اس واقعے کے بعد ہمارے والدین نے فیصلہ کیا کہ اب پاکستان میں رہنا مشکل ہو چکا ہے۔ پہلے میرے والد برطانیہ آئے اور پھر انھوں نے ہماری والدہ اور ہم تین بہن بھائیوں کو بھی برطانیہ بلا لیا۔“جنید کے والد انھیں بتایا کرتے تھے کہ لاہور میں وہ چرچ کے لیے خدمات انجام دیتے تھے۔ وہاں پر مسجد کے لیے بھی کام کرتے تھے۔ ان کی دوستی مسیحی برادری سے زیادہ مسلمانوں سے تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے لگتا ہے کہ اسی اور نوے کی دہائی کے اندر شاید بین الاقوامی صورتحال، افغانستان اور سابق سوویت یونین کی جنگ کے پاکستان کے معاشرے پر اثرات مرتب ہوئے۔“ خیر یہ ایک لمبی گپ شپ تھی، جس پر اگر کتاب بھی لکھی جائے تو شاید اُن کے قصے پورے نہ ہوں، لیکن یہاں یہ باتیں بتانے کا مقصد ہے کہ قائد اعظم جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے ہم وہ نہ بنا سکے۔ ہم نے تمام اُن افراد کو یہاں سے بھگا دیا جو اپنے آپ میں تھوڑے لبرل تھے، یہاں جو شخصی آزادی کے قائل تھے۔ اور پھر یہاں ہم نے 80اور 90کی دہائی میں افغان جنگ کو لے کر مذاہب کے ساتھ جو کھلواڑ کیا، شاید تاریخ اُسے کبھی نہ بھلا پائے گی، یہ شاید اُسی کے اثرات ہیں کہ یہاں سے مخصوص طبقات کو بیرون ملک جانے پر نہ صرف مجبور کر رہے ہیں بلکہ اس قدر پرتشدد ہوچکے ہیں کہ ہمیں ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہونا پڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر یہ قائد کا پاکستان نہیں ہے، قائد اعظم کے بقول ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ سب کی ماں ہوتی ہے، لیکن ہم اُس کے اُلٹ چل رہے ہیں۔ منافقت کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما ہر خطبے ، وعظ میں قائد اعظم کا نام لیتے ہیں، لیکن اُن کو پڑھنا پسند نہیں کرتے۔ چلیں فرض کیا کہ ہم اگر تمام غیر مسلموں کو پاکستان سے نکال دیں تو یقین مانیں ہم آپس میں ہی لڑ لڑ کر مر جائیں گے، یعنی ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائیں گے کہ یہ کس فرقے کا ملک ہے؟ دیو بندیوں کا ملک ہے، بریلویوں کا ملک ہے یا کسی اور فرقے کا ۔ حد تو یہ ہے یا یوں کہہ لیں کہ فکر کرنے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ یہاں ختم نہیں ہوگا، بلکہ بہت آگے تک جائے گا۔ اس لیے اسے اگر یہاں تک ہی روک لیں گے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ اور اس کی زیادہ ذمہ داری سیاسی رہنماﺅں کے بجائے مذہبی رہنماﺅں پر عائد ہوتی ہے۔کیوں کہ یہ سب کا ملک ہے، ہمیں اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پاکستان جب قائم ہوا تو یہاں اقلیتوں کا تناسب 14فیصد سے زائد تھا، جبکہ آج یہ تناسب ساڑھے تین فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم آج کے پاکستان میں مذہبی آزادی رکھنے والے ممالک میں 107ویں نمبر پر موجود ہیں۔ قائد کے دور میں رینکنگ تو نہیں ہوتی تھی مگر ہمیں دنیا مثبت انداز میں گردانتی تھی جبکہ آج جہاں اچھے ملکوں کی فہرست بنائی جاتی ہے وہیں دس Worstترین ممالک کی فہرست بنا کر اُس کے نیچے نوٹ لکھا جاتا ہے کہ یہ ممالک آپ کے لیے بہتر نہیں ہیں۔ اس کی مثال دنیا کی ٹاپ رینکنگ ویب سائیٹ پر دیکھ لیں جہاں دس بہترین ممالک کا ذکر ہے وہیں 10بدترین ممالک میں وطن عزیز کا نمبر 8واں ہے، جبکہ دیگر 9ممالک میں چاڈ، یمن، سنٹرل افریقہ، افغانستان، جنوبی سوڈان، کانگو، شام، سعودی عربیہ اور ایران ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ انگریزی میں یہ لائن بھی لکھی ہے، وہاں سے اندازہ لگالیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ Here are the countries we don’t recommend you move to if you want to see liberal values brought to life. خیر چھوڑیے! معذرت کے ساتھ یہاں تو ہر شخص گلا گھونٹنے کے چکر میں بیٹھا ہے ، ہر شخص سوچوں پر پابندی لگا کر بیٹھا ہے، ہم تو اپنے پرچم کی جس میں سفید سبز رنگ ہے کی بے حرمتی کررہے ہیں، حالانکہ قائد کے دور میں وزیر قانون ہندو تھے۔ وزیر خارجہ کا تعلق اقلیتی فرقے سے تھا۔ اُن کے قریبی ساتھیوں میں بیشتر عیسائی، ہندو اور دیگر فرقوں سے تعلق رکھتے تھے،جبکہ اس کے برعکس ہم نے اُن کو حکومتیں دیں جن کی قائد محترم شکل دیکھنا نہیں چاہتے تھے، اُن میں سرفہرست جنرل ایوب تھے جو 13سال یہاں حکومت کر گئے! اور پھر حد تو یہ ہے کہ آج ہم کسی فرقے سے کسی کو وزیر نہیں بنا سکتے، کسی کو اعلیٰ عہدہ نہیں دے سکتے اور تو اور اب ہم انہیں اقلیتوں کے حقوق دینے سے بھی عاری آتے ہیں ۔ لہٰذاآج کا قائد کا یوم پیدائش ہمیں یہ سبق ضرور دیتا ہے کہ ہم کس طرح انفرادی طور پر اپنے تئیں اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کریں، کیوں کہ ملک اجتماعی ترقی تب ہی کرے گا جب ہم انفرادی طور پر ایماندار اور قانون کی پاسداری کرنے والے بنیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو(آمین) #Quaid ka Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan