پولیس سویلین شہداکی قربانیاں رائیگاں کیوں جاتی ہیں

پولیس عوام کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے، اس فورس کا براہ راست عوام کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے بارہا مرتبہ اسے تنقید بھی برداشت کرنا پڑتی ہے ، اور کئی مرتبہ عوام کا غم و غصہ بھی۔ لیکن جس طرح پاک فوج کے بہترین سسٹم کی بدولت سرحد پر موجود جوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اعلیٰ افسران سرحد پر پہنچتے اور اُن کا حوصلہ بلند کرتے ہیںیا پاک فوج کے شہداءکو جو ”فیم“ ملتا ہے، پولیس فورس میں ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں،اسی وجہ سے پولیس کا لوئیر طبقہ ہمیشہ ”اعزازات اور شاباشی“ کا متلاشی رہتا ہے، خواہ وہ جتنی بھی بڑی قربانی دے دے لیکن محکمہ پولیس کچھ عرصہ بعد اُن کی قربانیوں کو بھول جاتا ہے۔ جیسے حال ہی میں سندھ کے علاقے کشمور میں وہ قیامت برپا ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ کراچی سے ایک عورت کو نوکری کا جھانسہ دے کر کشمور لایا گیا اور وہاں اس کاگینگ ریپ ہوتا رہا۔اس کے بعد اس عورت کی بیٹی کو یرغمال بنا لیا گیا اور اس خاتون کو کہا گیا کہ بیٹی تب آزاد ہوگی جب وہ کراچی سے دوسری عورت لے کرآئے گی۔اس دوران اس کی کمسن بیٹی کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ خاتون تھانہ کشمور میں شکایت لے کر گئی اور پولیس نے بچی کو بازیاب کرالیا۔ اس واقعے کے حوالے سے بچی اور اس کی ماں کی جو ویڈیو سامنے آئی اس نے سب کو رلا یا۔ان کااغوا ہوا ،دھمکیاں دی گئیں،مارا گیا اور اجتماعی طور پر ریپ کیا گیا۔چھوٹی بچی کے سر کے بال کاٹ دئے گئے، اس کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا، اس کے دانت توڑ دیے، اس کا گلا دبایا گیا۔ بچی اس وقت لاڑکانہ میں زیرعلاج ہے۔ صاحب اولاد شخص یا کوئی بھی درد دل رکھنے والا شخص ایسی ویڈیو نہیں دیکھ سکتا۔ ایسی ویڈیو جس میں وہ سب بتارہی تھی کہ اس پرکیا قیامت گزر گئی۔جبکہ اس واقعہ میں سندھ پولیس کے ایک جانباز اے ایس آئی محمد بخش نے اپنی جوان بیٹی کے ہمراہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ اس واقعہ کے بعد ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ جہاں درندے موجود ہیں وہاں محمد بخش جیسے فرض شناس اور انسانیت دوست بھی موجود ہیں، انسانیت ابھی زندہ ہے۔ ظلم کا نشانہ بننے والی کم سن بچی تو ایسے لگی رہی ہے جیسے ہوش کھو بیٹھی ہو۔ساڑھے چار سال کی اس بچی کا منہ تکلیف سے پک گیا ہے، اس کو کھانا نہیں دیا گیا، جسم پر زخم ہیں جن سے خون رس رہا ہے،اس کا گلا دبایا گیا، سر پر مارا گیا، اس کے جسم پر نیل ہیں ‘اس کو ڈنڈوں سے مارا گیا اور جسم جگہ جگہ سے چھلا ہوا ہے۔اس کم سن بچی کو ہاتھ پاﺅں باندھ کر رکھا گیا، اب اس کی یہ کیفیت ہے کہ وہ بالکل نہیں بول رہی،درد اور تکلیف میں بھی گم صم ہے۔ یہاں پر سب انسپکٹرمحمد بخش اور ان کے خاندان کا کردار قابل ستائش ہے۔ کس طرح انہوں نے سمجھداری سے معاملے کو حل کیا اور بچی بازیاب ہوگئی۔ اس میں پولیس افسر محمد بخش کی پیشہ ورانہ مہارت بھی سامنے آتی ہے مگر سب سے بڑھ کر ان کا جذبہ انسانیت اور معمول سے آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ قابلِ ستائش ہے۔فی الوقت تو محمد بخش کو سندھ حکومت کی جانب سے انعامات سے نوازا جا رہا ہے لیکن اگر محمد بخش یا اُس کی بیٹی کو کچھ ہو جاتا تو وہ کس کے سہارے زندگی گزارتے ، خدانخواستہ اگر محمد بخش شہید ہو جاتا تو محکمے کی یکمشت ”مدد“ کے علاوہ کسی نے اُس کی بیوی بچوں سے پوچھنا گوارہ نہیں کرنا تھا کہ زندگی کا گزر بسر کیسے ہو رہا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے باقی پولیس اہلکاروں کی دی گئی قربانیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔مثلاََ عبدالمجید نامی پولیس اہلکار کی قربانی کسی کو یاد نہیں ہوگی، قارئین کو یاد ہو گا کہ کس 2007ءمیں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے سے پاکستان پر کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے، جس کے 8سال بعد2015ءمیں زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تھی، سخت سیکیورٹی کے باوجود ایک خودکش حملہ آور سٹیڈیم کے قریب پہنچ گیا تھا، جسے دیکھ کر پولیس اہلکار عبدالمجید نے ”موت“ کو گلے لگا لیا تھا، لیکن حکومت نے خود کش حملہ آور کو بڑی تباہی سے روکنے پر عبدالمجید کی قربانی کو پس پشت ڈال دیا،سب مکر گئے کہ کوئی قربان بھی ہوا تھا۔ سب نے ہاتھ کھڑے کر لیے، کہ کہیں دنیا میں دوبارہ رسوائی کا شکار نہ ہو جائیں ، سب نے عبدالمجید کی قربانی کو بھلا دیا، کہا گیا کہ جائے وقوعہ پر ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا بلکہ ٹرانسفارمر کا دھماکہ ہوا تھا۔جس کے بعد بے حسی کا عالم پروان چڑھنے لگا۔ اور پھر حکمرانوں نے توبھلا ہی دیا تھا، محکمہ پولیس نے بھی انہیں بھلا دیا۔ آج کسی کو علم نہیں کہ عبدالمجید شہید کے گھر والے کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں، کس طرح اُن کا گزر بسر ہو رہا ہے، کسی کو علم نہیں کہ اُس کے بیوی بچے زندہ بھی ہیں یانہیں، 2سال قبل تک اُس کی بیوی کابھائی یہ کہتا پایا گیا تھا کہ حکومت ہمارے بھائی کی قربانی کو یاد نہ کرے، کوئی بات نہیں مگر یہ تسلیم تو کر لے کہ ہمارے بھائی نے اس وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔ لیکن مجال ہے کہ کسی نے عبدالمجید شہید کی قربانی کو یاد کیا ہو۔ ایسی بے حسی پر قربان نہ جاﺅں تو کیا کروں ؟کہ بقول شاعر یہ تمہاری تلخ نمائیاں کوئی اور سہہ کے دکھا تو دے یہ جو ہم میں تم میں نبھا ہے میرے حوصلے کی بات ہے میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ جہاں عبدالمجید کی شہادت ہوئی ہے وہاں حکومت ایک تختی ہی چسپاں کردے یا کوئی یادگار بنادے جنہیں دیکھ کر اس کے بچے فخر سے سر بلند کر سکیں، یا ملک میں کوئی ایک سڑک ہی اس کے نام پر منصوب کردے، کہ شاید دوسروں کو بھی ایسی ہی قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہو۔ پھر اسی طرح سانحہ چیئرنگ کراس، سانحہ مال روڈ، قونصل خانوں میں شہید ہونے والے جوانوں کو بھی یاد نہیں کیا جاتا، یا اُن جوانوں کی فیمیلیز کو بھی نہیں دیکھا جاتا، اُن کی بیوائیں نہ جن کن مراحل سے گزر کر پنشن وصول کرتی ہیں۔ پھر آپ انہیں چھوڑیں آپ سویلین شہداءکو دیکھ لیں ، میں نے اس مسئلے کو اپنے کئی کالموں میں اُٹھایا ہے، لیکن مجال ہے کہ کسی حاکم کے کان پر ہلکی سی آہٹ بھی ہوئی ہو، سویلین شہداءکے حوالے سے میں لگاتا یہ تیسری حکومت کے سامنے التجاءکر رہاہوں مگر کوئی بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہے، خیر پچھلی حکومتوں کی ترجیحات ہی اور تھیں مگر جو حکومت انصاف کے نام پر قائم ہوئی ہو کیا ہم اُس سے بھی کسی انصاف کی توقع نہ کریں۔ میں نے اس مسئلے کو ذاتی طور پر بھی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے سامنے رکھا مگر وہ بھی محکمانہ مسائل میں اتنے اُلجھے ہوئے ہیں کہ اُن کی ترجیحات بھی بدلتی نظر آرہی ہیں۔ میں نے اُن سے کہا کہ سویلین شہدا کے بچے کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں ؟کسی کو علم نہیں ہے۔ یہاں تو سروں پر اپنوں کے سائے سلامت بھی ہوں تو سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں تو جن کے سروں سے سائے ہی اٹھ جائیں ان کا حال کون دیکھے اور لکھے گا؟ہزاروں سرکاری محافظوں کے حصار میں محفوظ، مذمت تک محدود، زبانی کلامی حد تک عوام کے دکھوں میں شریک حکمران طبقات اس بات کو پرکاہ جتنی وقعت دینے پر بھی تیار نہیں۔ یہاں 22کروڑ کی آبادی میں چند ہزاریا چند لاکھ اوپر نیچے، آگے پیچھے بھی ہو جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ جتنے مرے، اس سانحہ کے دوران اس سے زیادہ پیدا بھی تو ہو گئے ہوں گے۔ ان کے لئے عام شہری آئی ڈی کارڈ نمبر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ دنیا بھر میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں دس بارہ افراد ہلاک ہوجائیں وہ ان کی یاد میں صدیوں دن مناتے اور انہیں یاد رکھتے ہیں مگر یہاں ایک ایسا مکینزم بن گیا ہے جس کے ہم سب عادی ہو گئے ہیں، قاتل بھی، مقتول بھی، لاشوں پر رونے والے بھی اور حکومتی عہدے دار بھی۔ میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ سکیورٹی اداروں کے شہداءکو اعزازات سے نوازا نہیں جانا چاہیے، بلکہ میرا مقصدپولیس کی قربانیوں ، سویلین شہدا اورمحمد بخش جیسے افراد جو قربانیاں پیش کر تے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں اُن کے لیے الگ سے ایوارڈز، انعامات اور تاحیات ذمہ داری فنڈ قائم کیا جائے ۔اور رہی بات پولیس کی تو جن جوانوں نے جان قربان کی ان کے لواحقین کے لیے ریاست کوئی ٹھوس پروگرام کا آغاز کرے ، پولیس کے جوان جب شہید ہو جاتے ہیں تو ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور لواحقین کی کفالت کے لیے کوئی ڈھنگ کا کوئی منصوبہ پیش کیاجائے ؟ تھانوں کی گرانٹ بھی اعلی افسران کھا جاتے ہیں اور اچھی گاڑیاں بھی افسران اور ان کی اولاد اور بیگمات کے استعمال میں رہتی ہیں۔ لیکن جب یہ شہید ہو جائیں کم از کم اس کے بعد تو ان کا کچھ احساس کیا جانا چاہیے۔ کیا کسی بھی سطح پر یہ احساس موجود ہے؟ بے حسی کی انتہاءیہ ہے کہ پولیس اہلکار شہید ہو جائیں تو بسوں اور ویگنوں کی چھتوں پر رکھ کر ان کے جسد خاکی ان کے گھروں کو روانہ کیے جاتے ہیں۔بقول شاعر کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا ، اسے بھول جا بہرکیف ہمارے ہاں یہ نظام ہے کہ جو ایشو ٹاپ ٹرینڈ بن جاتا ہے، وہی سامنے آتا ہے، اے کاش کہ لاکھوں سویلین و پولیس کے شہداءکے لواحقین کی طرز زندگی بھی ٹاپ ٹرینڈ بن جائے ،تاکہ اُن کی بھی سنی جائے ورنہ تو شاید اُن کی قربانی کو قبول کرنا تو درکنار آنے والے دنوں میں ہمیں ان کے نام بھی بھول جائیں گے۔