مہنگائی تو اچھی ہوتی ہے!

آج کل سب کی زبان پر ایک ہی لفظ چڑھا ہواہے ۔۔ جو ہمیں آٹے میں بھی نظر آتاہے اور چینی میں بھی ۔۔۔خیر چینی نے تو ہماری سیاست میں بھی کافی حل چل مچائی ہوئی ہے ۔کیونکہ اس چینی سے کماۓ گءے اضافی منافعوں میں ماضی کے دوستوں کے میٹھے رشتوں میں شدید "ترین "کڑواہٹ پیدا کردی ہے ۔۔ خیر چھوڑیں سیاست کو ۔۔بات کرتے ہیں اس لفظ کی جو سب کی زبان پر چڑھا ہواہے اور وہ ہے مہنگائی ۔اسے افراط زر بھی کہتے ہیں تو جناب عام طور پر ، مہنگائی اس وقت ہوتی ہے جب قیمتیں بڑھتی ہیں اور آپ کی جیب میں پیسہ تک نہیں بڑھتا بلکہ ہمارے ہاں تو تنخواہوں پر کٹ لگ جاتاہے ۔۔ ۔ خیر چلتے ہیں مہنگائی کی طرف۔ کہاجاتاہے کہ اگر یہ لمبے عرصے تکہ چلے تو اس میں چھپی بہت سی چیزیں معیشت اور عام آدمی کے معاش کے لیے واقعی نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں ۔ مگر اس کے فائدے بھی ہیں ۔۔ جی ہاں ۔ اگے بڑھنے سے پہلے زرہ دیکھیں تو سہی کہ آخر وہ معاشی ماڈ ل کونسے ہیں جن کے تحت ہماری معیشتیں چلتی ہیں ۔۔اور مہنگاءی بھی لاتی ہیں ۔ ایک تو نام نہاد لبرل معاشی ماڈل ہے ۔ اسے لبرل کیپٹل ازم بھی کہا جاتاہے اور یہ نظام معیشت خود سے جڑی تمام معیشتوں کو ان کی اوقات کے مطابق سہولت رعایت اور طاقت فراہم کرتاہے۔ امریکہ بہادر کو ہی دیکھ لیجیے اس کے ڈالر کی اجارہ داری ہی اسے اس سسٹم میں سب سے زیادہ محان بناتی ہے ۔۔ یورپ کا یورو بھی ہے مگر ڈالر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔دوسرا چینی ماڈل ہے جس سے ہم نءے نءے آشنا ہورہے ہیں ۔یہ کہنے کو سوشلسٹ نظام ہے مگر دراصل یہ کیپٹیل ازم کی ہی ایک بگڑی ہوءی شکل ہے جسے آ پ سہولت کے لیے میوٹنٹ یا ہاءبرڈ کیپٹل ازم کہا جاۓ تو زیادہ بہتر ہوگا۔جس میں ریاست براہ راست معیشت میں دخل اندازی بھی کرتی ہے اور اس کے باوجود جدید ترین خطوط پر بھی استوار ہے اس میں لفظ لبرل چھوڑ کر باقی سب کچھ ہے ۔ اور یہ امریکہ جیسی دنیاکی سب سے بڑی معیشت کے لیے سب سےبڑا چیلنج بنا ہواہے۔ اب جب کہ آپ دنیا میں بڑی معاشی نظاموں سے واقفیت حاصل کرچکے ہیں تو ہم واپس آتے ہیں مہنگائی کی طرف۔۔۔ اور آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم جس نظام سے جڑے ہوۓ ہیں یا جس کے پروردہ ہیں وہ مغرب کا معاشی نظام ہے یعنی کیپٹلزازم ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ اس نظام کا سرگرم ادارہ آئی ایم ایف شرطوں کے انبارلگاکر ہماری اوقات کے مطابق نہ صرف قرض دیتاہے بلکہ مہربانی میں چند قدم آگے بڑھ کر وزیر خزانہ سے لے کر گورنر سٹیٹ بنک بھی بنابنایا اور سیکھا سکھایا دے دیتاہے۔بلکہ اب تو کہاجارہاہے کہ سٹیٹ بنک بھی "آزاد " کردیں ۔۔یہ بوجھ بھی وہ اُٹھانے کو تیارہیں ۔ ۔ ارے مہنگائی بے چاری پھر پیچھے رہ گئی ۔۔اب اگر ہم نے طے کر ہی لیا ہے کہ مہنگائی ایک مسئلہ ہے تو سوال یہ ہے یہ کیوں ہے اور یہ سب سے زیادہ تکلیف کسے دیتی ہے ۔۔۔ اس کی وجہ جو سیانے کوے ۔۔ یا معاشی پنڈت ۔فیکٹریوں میں سپلاءی چین اور راستوں کے بڑھتے کراءے کو قرار دیتے ہیں ۔۔ تیل اور اس کے علاوہ تانبے اور دیگر خام مال کی فراہمی میں قلت بھی مہنگاءی کو بڑھا رہی ہے ۔۔ مہنگائی میں اضافے کی ایک اور وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ کچھ حکومتیں اپنی معیشتوں کو وباسے چھٹکارہ حاصل کرنے میں مدد کے لئے بہت زیادہ رقم خرچ کررہی ہیں ۔ اور پھر دنیا بھر سے اور مالیاتی اداروں سے قرضوں میں رعایتیں مانگی جارہی ہیں ۔ ہماری حکومت نے بھی غریبوں پر اربوں روپے لگادیے ۔۔ مگرنہ وبا جھٹی نہ غربت۔۔ ہاں تو مہنگائی ! جب فیکٹریوں میں خام مال مہنگا ہوگا کرایہ مہنگا ہوگاتو تھوک سے پرچون فروشوں تک چیز پہنچتے پہنچتے کئیگنا مہنگیہوجاۓ گی۔ اور سارا بوجھ آپ کو یعنی صارف کو اٹھانا پڑے گااور ظاہر آپ کی ہلکی جیب یہ بوجھ اُٹھا نہیں سکے گی۔ اور پھر گھر کا نظام چلانے کے لیے قرض لیا جاۓ گا۔۔اور حکومتیں بھی یہی کررہی ہیں۔ بلکہ ہماری حکومت تو پہلے سے لیے گئے قرض اور اس پر چڑھے دوگنے سود کو اتارنے کے لیے قرض پر قرض لیتی چلی جا رہی ہے ۔۔ تو کیا بڑے ملک بھی مہنگائی کا شکار ہیں ؟ چین میں ماہانہ بنیادوں پر دیکھاجاۓ تو مارچ میں پیداواری قیمتوں میں 4.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ فروری میں یہ 1.7 فیصد تھا۔ امریکہ میں پچھلے مہینے کے مقابلے میں مارچ میں پیداواری قیمتوں میں 1 فیصد اضافہ ہوا ، جو فروری میں دیکھنے میں دوگنا اضافہ ہوا تھا۔ یعنی دنیا بھر میں چیزیں مہنگی پیدا ہورہی ہیں اور فروخت بھی مہنگی ہورہی ہیں ۔ یعنی چین صرف دنیا بھر کے لیے چیزیں بنانے کا انجن ہی نہیں ۔۔ بلکہ وہاں سے مہنگائی بھی تمام ملکوں کو منتقل ہوتی ہے ۔۔۔ جو ملک پراڈکٹس پیدا کررہاہے ۔۔۔ وہ اگر مہنگی پیدا کررہاہے تو مہنگائی بھی اتنی پھیلارہاہے ۔۔ امریکہ کابھی یہی حال ہے ۔۔۔ امریکہ میں مارچ کے مہینے میں قیمتوں میں 0.6 فیصد اضافہ ہوا۔۔ اور اس مہنگاءی کو 2012 کے بعد سے اب تک سب سے بڑی چھلانگ قرار دیا جارہاہے ۔۔ اور اس میں بڑا حصہ پٹرول کی قیمتوں کا تھا جس میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں مارچ میں 9.1 فی صد تک جا پہنچا۔ یعنی مہنگاءی بھی وبا کی طرح ہرجگہ پھیلی ہوءیے ۔۔ چینیوں نے وبا سے جان چھڑا لی لیکن مہنگائی نے چینیوں کو بھی نہیں چھوڑا جہاں چیزوں کی قیمتیں 0.4 فیصد تک جا پہنچیں ۔ ؂ جن لوگوں کو چینی ماڈل پسند ہے ہو تو جان لیں کہ مہنگاءی وہاں بھی ۔ ہم تو خیر بڑی طاقتوں سے بھی کہیں آگے ہیں جس دن ہمارے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ چھوڑ کر گئے ۔۔ مہنگائی کی شرح 9.1 فی صد تھی اور اب بڑھتی جارہی ہے ۔۔۔ یہ الگ بات ہے وزیر اعظم پھر بھی کہتے ہیں آپ نے گھبرانا نہیں۔ ؂کیونکہ آپ کے لیے چوتھا اور امپورٹڈ ترین وزیر خزانہ لے آءے ہیں ۔۔مبارک ہو۔۔ لیکن مہنگائی!۔۔ تو کیا یہ قیمتیں ایسے ہی برھتی رہیں گی ؟۔۔۔ تو جواب سادہ سا ہے ۔۔ ابھی گھٹنے کا کوئی امکان نہیں ۔لیکن اگر آپ کا تعلق ملک کی اشرافیہ سے ہے تو واقعی آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔کیونکہ آپ کی آمدنی کا بہت چھوٹا حصہ بجلی کے بلوں کرایوں فیسوں اور سودا سلف میں لگے گا۔۔ بلکہ آپ کی تو بچت ہورہی ہے ۔۔ وبا کی وجہ سے سب بندہے ۔ہوائی سفر ۔سیر سپاٹے ہوٹلنگ ۔۔ ۔وغیر سب پر پابندی ہے ۔۔ لیکن اگر آپ متوسط تقریباً متوسط یا اس سے بھی نیچے ہیں تو جتنا مرضی گھبرا لیں۔۔ فرق پھر بھی نہیں پڑے گا۔۔۔ کیونکہ آپ کی انکم کا بڑا حصہ تو گھر کے کراۓ ، بجلی کے بل، بچوں کی فیس ( اگرچہ سکول بند ہیں ) پر خرچ ہو جاۓ گا۔گاڑی یا موٹر ساءیکل کا پٹرول ۔۔۔اور جو بچے گا وہ آپ گروسری لینےجاءیں گے تو آدھا سامان بھی نہیں لے پائیںگے ۔۔پھر ادھار ہی آپ کا سہارا ہوگا۔ اگر آپ کی فکسڈ سیلری ہے ۔۔یا آپ پنشن پر ہیں تو پھر گھبرا لیں جتنا گھبرانا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئیچارہ نہیں۔ تو پھر کیا کا جاۓ ۔۔ ویسے مہنگاءی کا فائدہ بھی ہے ۔۔۔ جی ہاں ۔۔ معاشی کھڑپینچ کہتے ہیں تھوڑی سی افراط زر اچھی چیز ہے کیونکہ اس سے معیشت کو دھکا لگتا رہتاہے۔۔۔ کیونکہ اگر لوگ سوچیں گے کہ قیمتیں قدرے بڑھ جائیں گی توان کی خریداری میں تاخیر کا امکان کم ہے یعنی وہ خریداری رکے گی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مہان معیشت دانوں نے صاف کہہ دیاہے کہ افراط زر 9 فی صد تک رہے گی۔۔اب برداشت کریں کیونکہ پاس تو آپ کر ہی نہیں سکتے ۔۔ کچھ کھڑپینچ معیشت دان کہتے ہیں کہ جولوگ قرض میں ڈوبے ہوۓ ہیں ۔۔ یا پھر اگر ملک قرض میں پھنسا ہوا ہے تو ان کے لیے افراط زراچھی چیز ہے ۔۔ افراط زر سے بوجھ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ ان قرضوں کاجن پیسوں سے قرض اُتاجاءے گا ۔۔ ہیں ان کی قدر ان پیسوں سے کم ہے جو انہوں نے قرض لیاتھا۔ یعنی قرض سستا پڑےگا۔۔ ہے نہ بڑا فائدہ ؟؟؟ اور اگر آپ نے آج تک قرض نہیں لیا تو یقین جانیے بنک تو فون کرکر کہ قرضے دے رہے ہیں ۔۔ اور شرطیں بھی آسان کردی ہیں ۔۔۔ اور پھر اس مہنگائی میں ۔۔۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم ۔کیا کہنے ۔۔ آسان ترین قرضے ۔ چھوڑیے کراۓ کامکان ۔ بس اپنا شناختی کارڈ اور بجلی کا بل لے جاءیے اور ۔۔۔ قرضہ حاصل کیجیے اور اپنے گھر کے مالک بن جاءیے ۔۔۔ رہیں قسطیں تو ۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔ جس طرح ہماری حکومت بیرونی قرضہ مزید قرض لے کر اُتار رہی ہے آپ کو بھی بنکوں نے سہولت دے رکھی ہے ۔ اس لیے صرف داغ ہی نہیں مہنگائی بھی اچھی ہوتی ہے ۔۔۔