سیاسی لنڈا بازار

لنڈا بازار خریدوفروخت کا ایسا مرکز ھوتا ھے جہاں بڑے بڑے برانڈز کا سامان سستے داموں,چند ٹکوں کے عوض مل جاتا ھے۔اور اسکی کؤئی گارنٹی بھی نہیں ہوتی اور سامان نقص و کمی نکلنے کے باوجود نا قابل واپسی ھوتا ھے۔ہماری زندگی میں کشمیر میں ہونے والا الیکشن ایک ایسا ہی سیاسی لنڈا بازار تھا جس کی مثال ماضی سے ڈھونڈنا نا ممکن ھے۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اپنے نمائندوں کے چناؤ کا طریقہ کار کشمیر میں ہونے والے الیکشن سے یکسر مختلف ہوتا ھے۔یہاں جرمنی میں ہونے والے الیکشن کی بات کی جائے تو یہاں ہم نے نہ کبھی سیاسی پارٹیوں کے نعرے شاہراہوں پر سنے نہ کؤئی قاتل دیکھا نا کؤئی کؤئی سیاسی مقتول دیکھا۔ایک جرمن وزیر پر حالیہ دنوں صرف کرپشن کا الزام لگا اس نے پوری قوم سے اس بات پر معافی مانگی کہ وہ کسی کی نظر میں کرپٹ ھے جبکہ عدالت اور احتساب کا عمل بعد کی بات ہے مگر ان اقوام کی ذہنی و اخلاقی پختگی کا اندازہ لگائیں وہ کس قدر اپنی قوم اور ووٹرز کے احساسات کا خیال رکھنے والے ہیں۔ترقی بھی انھی اقوام کا مقدر ہوتی ھے۔کشمیر کے الیکشن کو سیاسی لنڈا بازار کہنے کی کچھ اہم وجوہات ھیں۔مقتدر جماعت سے وزیروں کو سبز باغ دکھا کر خریدا گیا۔اور الیکشن میں انکو تنہا میدان میں اتارا گیا انکو دکھائے جانے والے خواب سبز باغ نہیں بلکہ راکھ کا ڈھیر ثابت ہوئے۔ہم نے پہلے عرض کر دیا تھا الیکشن جیت جانے کے بعد ایک ایسے بکرے یا بیل کی تلاش میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان مختلف سیاسی بیو پاریوں سے مختلف رنگ ڈھنگ قوم قبیلے چال ڈھال کے سیاسی بکرے کی تلاش میں ھیں۔جسے کسی بھی وقت ذبح کیا جاسکے۔مگر کریں تو کریں کیا ہر طرف ایک سے بڑھ کر ایک شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار سیاسی چھری سے ذبح ہو کر اپنا نام امر کرنا چاہتے ھیں۔آجکل اقتدار کے ایون اسلام آباد میں وقت کا وزیراعظم ایک ایسی ریاست کے سربراہ کا فیصلہ کرنے میں مصروف عمل ہے جو ریاست ابھی تک اقوامِ متحدہ کے Resolution of 48 اور 49 پر عملدرآمد کی منتظر ھے۔جس ریاست کی آزادی کے لئے شہید ھونے والوں کےقبرستان کی مٹی بھی ترو تازہ ہے اور یہاں سیآست اور اقتدار کے نام پر ایک انٹرنیشنل سیاسی میلہ لگا ہوا ھے۔ہم نے آجکل وزیراعظم آزاد کشمیر کی سیٹ حاصل کرنے پر ہونے والی ممکنہ لڑائی کا ذکر سیاست اخبار میں الیکشن سے پہلے ہی کر دیا تھا آج اسی طرح ہم چند گذارشات اور بھی کریں گے تاکہ اپنے حصے کا چراغ جلے اگر اسکی روشنی کسی تک پہنچ جائے تو تاریکی سے اجالے کا سفر شروع کیا جاسکتا ھے۔ آزاد کشمیر پر جب بھی بات ہوتی ھے ہر پاکستانی سیاسی اداکار اپنی اداکاری سے کشمیری قوم کو اپنی طرف راغب کرتا دکھائی دیتا ھے۔رہبر کے روپ میں رہزنی کی رسم اتنی عام ہو گئی ہے کہ ھر سیاسی اداکار اسے سیآسی جمہوری کلچر کا نام دیتا ھے۔میں یہاں اسکی ایک مثال ہر صاحب فکرودانش کے لیے رکھتا ہوں کیا پاکستان کے وزیر داخلہ نے خود کو کشمیری نہیں کہا ? 23 جولائی کی پریس کانفرنس میں انھوں نے اپنا ایڈریس تک بتا دیا اور فرمایا کہ کشمیر کو صوبہ بنانا کؤئی آسان نہیں ھے اور مجھے تو اسکی خبر تک نہیں۔وزیراعظم پاکستان نے کشمیر کے جلسوں میں صوبہ بنانے کی بات پر فرمایا کہ صوبہ بنانے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔انھوں نے کشمیریوں کے سامنے ایک ایسی بات کر دی جس کا نا اقوامِ متحدہ کے آئین میں نا پاکستانی و ہندوستانی آئین میں نا ہی کشمیریوں کے وہم و گمان میں کؤئی تصور موجود ہےوہ یہ کہ پہلے آپ پی ٹی آئی کو الیکشن جتوائیں پھر ھم ریفرنڈم کرائیں گے جس میں آپ نے پاکستان سے الحاق کرنا ھے ۔پھر ھم دوسرا ریفرنڈم کرائیں گے پھر آپ اپنا کشمیر آزاد کروا لینا ۔میرے فہم و ادراک سے یہ بآت بالا ھے کہ 22 کروڑ مسلمانوں کا نمائندہ بغیر بنیاد کے بغیر پلرز کے اتنا بڑا خوابوں کا محل ان لوگوں کے لیے بنا رہآ ھے جن کے ہزاروں گھر شہداء کشمیر کے گھر ہیں۔میں سادہ لفظوں میں عرض کروں تو گویا وہ فرما رہے تھے آؤ میں تمیں گولی مارتا ھوں پھر میں تمیں زندہ کر دوں گا۔آزاد کشمیر کا وزیراعظم کون بنے گا اسکا فیصلہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر انتخاب کے بعد ہو گا۔یہ فیصلہ پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث اس وجہ سے ھے کہ کہ ریاست کشمیر کے ایک جزو کا وزیراعظم بنانے کے لیے انٹرویو کیئے جا رہے ھیں اور یہ جانچا پرکھا جا رہا ھے کہ کون ہے جو شاہ کا وفادار شاہ سے بڑھ کر ہے۔چار افراد میں سے دو افراد کی آپسی لڑائی پی ٹی آئی کی کشمیر میں تباہی اور پہلی اور آخری پی ٹی آئی کی گورنمنٹ کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔اور اگر وزیراعظم مظفرآباد سے بنایا گیا تو اسکو فاروق حیدر اور اس طرز کے کشمیری بیانیہ کو شکست دینے کی لیے اس لیے چنا جائے گا کیونکہ آزادی کا بیس کیمپ بھی مظفرآباد ھے اور حالیہ الیکشن میں ڈویژن مظفرآباد سے پی ٹی آئی کو انتہائی بری طرح شکست کا سامنا سامنا کرنا پڑا ہے۔لہذا آجکل کی گردشی خبروں میں ایک بڑی خبر آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کا آئینی غیر ریاستی مسودہ کی تیاری کی تکمیل بھی ہے۔اور وزیر داخلہ محترم شیخ رشید صاحب کا ایک آڈیو کلپ بھی منظر عام پر آ چکا ہے جس میں وہ فرما رہے ھیں کے جنرل باجوہ صاحب کا حکم ہے کہ الیکشن سے پہلے یا بعد میں کشمیر کو صوبہ بنانے کا کام مکمل کیا جائے۔ایک طرف تو وہ کشمیری ہونے اور کشمیریوں کا ساتھ دینے کی بات کر رہے ھیں جبکہ دوسری طرف انکا دہرا معیار اور کشمیریوں کی ساتھ ایک بڑی سازش سامنے آ رہی ھے۔پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کے وکیل کے طور پر عالمی دنیا میں بآت کرتا رہا ھے مگر اب معاملہ وکالت سے آگے نکلتا دکھائی دیتا ھے۔ایسے حالات میں اگر کؤئی بھی آئینی ترمیم کی کوشش کی گئی تو کشمیر کے اس حصے میں بھی خون کے دریا بہنے کے امکانات ھیں جس کا متحمل پاکستان نہیں ہو سکتآ ناں ہی کشمیری قوم ہو سکتی ھے۔ایسے کچھ حالات بنائے جا رہے ھیں کہ اس خطے کے امن کو بھی برباد کیا جا سکے۔جناب محترم عمران خان صآحب کے لیے یہ سمجھنا از حد ضروری ھے کہ کشمیری ووٹ بھی دیں گے ویلکم بھی کریں گے سب قربانیاں بھی دیں گے مگر انکی آزادی کی بات آئی تو 90% لوگ اپنی سیاسی وابستگيوں اور مفادات کو لات مار سکتے ھیں۔سات دھائیوں سے کشمیر اور پاکستان کا بہت خوبصورت رشتہ ھے اسکو خراب کرنے کی سازش اپنے عروج پر ہے لہذا حکومت پاکستان کو یہ سوچنا ہو گا کہ نیلم میں انتظامیہ اور پاکستان رینجرز کی لڑائی میں دو بے گناہ شہید ھوئے ھیں۔اسی طرح کی فیصلے جن سے کشمیر کی آئینی و جغرافیائی حیثیت پر حرف آئے اس سے ایک الگ فضاجنم لے سکتی ھے جس کا نقصان پاکستان اور کشمیر کو ھو سکتا ھے۔پی ٹی آئی نے علماء و مشائخ کی سیٹ کے لئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ھے جو افغنستان میں طالبان حکومت کا عہدیدار رہا ھے۔اس معاملے پر سارے پی ٹی آئی کارکنوں کو اور پوری ریاست۔کشمیر کو تحفظات ھیں۔کیونکہ کشمیر مختلف مسالک مختلف School of thought کے باوجود پر امن ریاست ھے مگر سعید مظہر جیسے طالبان کمانڈر کو آزاد کشمیر اسمبلی میں علماء و مشائخ کی نشست کے لیے نامزد کرنا کشمیر کی پر امن فضاکو کھلی فرقہ پرستی اور جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ھے۔اگر اس فیصلے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو اسکے نتائج بھی بھیانک ہو سکتے ھیں۔لہذا ہمارا مخلصانہ مشورہ ھے پاکستانی گورنمنٹ کو کہ ایسے اقدامات نہ کیئے جائیں جن سے پاکستان عالمی سطح پر اور اندرونی سطح پر مشکلات سے دوچار ھو۔ اگرچہ بت ھیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ھے حکم ازاں لا الہ الا اللہ #Syed Hasnain Gilani #siyasi landa bazar #leader news