تذکار حضرت سید علی بن عثمان ہجویری

آج کی اس پاکیزہ تقریب کے جملہ قابلِ قدر، قابلِ عزت و توقیر مہمانانِ گرامی، محترم اساتذہ کرام، عزیز طلباءو طالبات، جنابِ صدر پروفیسر ڈاکٹر مطلوب احمد صاحب، محترمہ میڈم زاہدہ مقبول صاحبہ، اور ہمارے سرپرست انتہائی قابل احترام جناب پروفیسر ڈاکٹر خلیق الرحمن صاحب، میرے سجیلے نوجوانو، شمعِ علم کے پروانو، حقیقت و حق کے دیوانو! السلام علیکم! سب سے پہلے میں اس پروگرام کے سارے منتظمین کا مشکور ہوں، جنہوں نے برصغیر پاک و ہند کی اتنی عظیم ہستی، تصوف کی دنیا کے بادشاہ، اتنی بڑی روحانی، شخصیت حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب اس سیمینار میں نہ صرف مجھے شرکت کی دعوت دی بلکہ مجھے لاہور کو ”داتا کی نگری“ کا رتبہ دلانے والے داتا گنج بخش علیہ الرحمہ پر بولنے کی سعادت بھی بخشی، میں اس ”اعزاز“ کی عطا پر آپ سب کا شکر گزار اور ممنون ہوں۔ حاضرین گرامی قدر، میں اتنا بڑا صاحبِ تفکر و تصوف نہیں ہوں کہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کے روحانی مقامات، ترکِ ہستی، ترکِ دنیا و عقبا جیسے معمولات پر تفصیل سے روشنی ڈال سکوں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو ”لقد حلقنا الانسان فی احسنِ تقویم“ کی خوشی کے ساتھ ساتھ ، ثم رددناہ، اسفل السالفین“ کے خوف میں توازن رکھ کر اپنی روز مرہ کی زندگی گزارتا ہے 9 صدیاں اور 78 سال گزر گئے، لاہور میں حضور داتا گنج بخش علیہ رحمہ کے یوم وصال پر، ہر سال سجنے والے تین روزہ عرس کی تقریبات پرسوں منگل کی رات گئے، دعائیہ تقریب سے اختتام پذیر ہوئیں۔ کیا وجہ ہے کہ قریب قریب 10 صدیاں بیت گئیں، عقیدت مندوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ملک سے بھی، سمندروں پر پرواز کرتے ہوئے، انتہائی عقیدت و احترام سے داتا کے حضور حاضری دیتا ہے۔ اور یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔ اس کی جو وجہ مجھے سمجھ آتی ہے۔ وہ ہے محبت، آپ علم و فضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تو تھے ہی، بلکہ اللہ عزوجل کے مقرب ولی اور صاحبِ کثیر الکرامات بھی تھے۔ لیکن یہ سب ہونے کے باوصف آپ سراپا محبت تھے۔ آپ جب لاہور تشریف لائے تو یہاں کفر و شرک کے اندھیروں نے انسانیت کے سورج کو گہنایا ہوا تھا، ظلمت نے اپنی گندی اور مکروہ ”لِٹووں“ (زلفوں) سے، حقیقت و محبت کے چہرے کو ڈھانپ رکھا تھا، آپ نے ”لاہور“ میں قدم رکھا تو اس دھرتی پر محبت کا گلستان کھلا دیا اور اپنی محبت سے دلوں کا جہاں فتح کرلیا۔ حاضرینِ کرام! آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، لاہور میں، دریائے راوی کے ایک کنارے اُس بادشاہ کا مقبرہ ہے، جس نے ہندوستان پر حکومت کی۔ لوگ اُسے ”جہانگیر“ کے نام سے کبھی کبھی یاد کرلیتے ہیں، اور راوی کے دوسرے کنارے اس اللہ کے ولی کا مزارِ پُرانوار و تجلیات ہے جس نے دلوں کو فتح کیا، اور لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ اب زمین کے ٹکڑے پر حکومت کے اور دلوں پر حکومت کے فرق کو دیکھیے۔ جہانگیر کو دنیا سے رخصت ہوئے قریباً ۰۰۶ سال گزرے ہیں۔ جبکہ داتا گنج بخش کو پردہ فرمائے ۰۱ صدیاں بیت گئیں، لیکن ایک طرف مغرب کے بعد مقبرہ جہانگیر پر اندھیروں کی چادر تنی ہوتی ہے۔ خوف و دہشت کے سائے منڈلاتے ہیں۔ کِرلیوں اور چمگادڑوں کا بسیرا ہوتا ہے اور دوسری جانب، میرے داتا حضور کے مزارِ پُرانوار وو مرکزِ تجلیات پر، رنگ و نور کی بارش برستی ہے۔ دن اور رات کی ۴۲ ساعتوں میں تلاوتِ قرآن سے فضا مہکتی ہے۔ رات بھیگتی ہے تو عشاق اُمڈتے چلے آتے ہیں۔ نوافل ادا ہوتے ہیں، فاتحہ کے پھول پیش کئے جاتے ہیں، لنگر تقسیم ہوتے ہیں اور اہل محبت کا ہجوم ہوتا ۔ یہ محبت کی کرامات ہیں۔ قلندرِ لاہوری، علامہ اقبال نے فرمایا تھا :یقینِ محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم....جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں۔حاضرین گرامی قدر اور مہمانانِ ذی وقار.... حضور داتا سید علی بن عثمان ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ کی مخلوق سے اللہ کے بندوں سے محبت کی اور محبت کا درس دیا۔ محبت کی دو حالتیں ہیں جو راہ طریقت کے مسافروں پر آتی ہیں۔ ایک حالت وہ ہے جب اللہ اپنے کسی بندہ کے دل پر تجلی فرماتا ہے۔ یہ تجلی جلال ہو تو ڈر پیدا کرتی ہے اور تجلی اگر جمال ہو تواُنس پیدا ہوتا ہے اور اہل اُنس اس کے جمال سے خوش ہوتے ہیں۔ اللہ کا ولی، اللہ کے جلال کی شان میں جلتا ہے اور مشاہدہِ جمال کے نور سے روشن ہوتا ہے۔ ڈر عارفوں کا مقام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ جسے اس کے اوصاف میں پاک کرنا اور ثابت قدم رکھنا چاہتا ہے، اس کے دل پر ڈر کا غلبہ زیادہ کر دیتا ہے۔ لیکن اللہ کے ولی، یعنی اولیاءاللہ خوف و خزن سے محفوظ ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے سورہ یونس کی آیت نمبر 62 ہے۔اَ لَّا اِنَّ اَو±لِیَآئَ اللّٰہِ لاخَو±فµ عَلَی±ھِم± وَلَا ہُم یَح±زَنُو±ن ”سُنو اللہ کے ولیوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوںگے۔“ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمة فرماتے ہیں کہ حضور نبی پاک ، صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے محبت رکھتا ہے۔“ ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو صالحین، علمائ، متقین اور اولیاءکے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔ علامہ مُلا علی قاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں۔ اس حدیثِ پاک کا ظاہر عموم پر دلالت کرتا ہے کہ ہر شخص کا حشر اس کے محبوب کے ساتھ ہوگا یعنی نیک لوگوں سے محبت کرنے والوں کا نیکوں اور فاسق اور بدکار لوگوں سے محبت کرنے والوں کا فاسقوں کے ساتھ حشر ہوگا۔ سامعینِ کرام۔ آج مجھے جن لوگوں سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہو رہا ہے۔ وہ بھی محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ کن سے محبت کرنے والے؟ صالحین سے محبت کرنے والے۔ علماءسے محبت کرنے والے، اولیاءاللہ سے محبت کرنے والے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ نے اس پُرفتن دور میں، محبتوں کے سلطان، حضرت سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش سے منسوب اس عظیم الشان سیمینار کا اہتمام فرمایا۔ یقینا آپ سب مبارک باد کے مستحق ہیں، آج اس دور میں جہاں انسان، انسان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ معصوم بچے ظلم و ستم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں اور دشمنی کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ خون منرل واٹر سے سستا ہے اور روٹی موت سے مہنگی ہے، جہاں ہر طرف لالچ اور طمع کے بازار سجے ہیں۔ ایسے میں اللہ کے ان ولیوں کی یاد میں چند گھڑیاں اکٹھے بیٹھ کر ان کا ذکر کرنا ایک بڑی سعادت اور عظیم خوش نصیبی ہے۔ حضور داتا گنج بخش کی تعلیمات ہمیشہ کے لئے شریعت و طریقت کے عین مطابق نہیں۔ حضور داتا گنج بخش نے صوفیانہ افکار و تعلیمات کو مکمل طور پر احکام شریعت کے نہ صرف تابع قرار دیا، بلکہ تصوف کو شریعت کا امین اور نگہبان بنا کر پیش کیا۔ آپ کے افکار اسلامی علوم و معارف کا خزانہ، اور آپ کا آستانہ روحانی فیوض و برکات کا مرکز ہے۔ آپ نے برصغیر میں ایک ایسے اسلامی مکتبِ تصوف کی عمارت کھڑی کر دی، جس کی بلندیوں پر ہمیشہ شریعت و طریقت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ حضور داتا گنج بخش کی امن و آشتی اور محبت کی ان تعلیمات کے بارے میں نوجوان نسل کی فکری آبیاری ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ یہاں اساتذہ کرام تشریف فرما ہیں۔ اس ذمہ داری کا زیادہ بوجھ انہی کے کندھوں پر ہے کہ وہ نوجوان نسل میں اولیاءکرام اور خصوصاً لاہور کی نگری کے داتا، داتا صاحب علیہ رحمہ کی تعلیمات کو عام کریں، انہیں بتائیں کہ ہم حضرتِ ہجویری کے نسل در نسل قرض دار ہیں، اللہ کے ولیوں کے در سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ سبھی مذاہب کے لوگوں کو فیض ملتا ہے۔ برصغیر کے ان بزرگانف دین کے سبب ہی دین کی ترویج ہوئی، انہوں نے دشمنوں کو بھی گلے سے لگایا، سب کو اپنا سمجھا، اور محبت کے ایسے چراغ روشن کر دیئے کہ ظلمات کے بادل چھٹ گئے اور معاشرہ امن و آشتی، محبت و یگانگت، حلم و برداشت اور رواداری کا گہوارہ بن گیا۔ ہمیں اسلامی فلاحی معاشرے کیلئے حضرت علی ہجویری کی تعلیمات سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ آج ہم جن مصائب و مشکلات کا شکار ہیں، اس کی بنیادی وجہ حرصِ دنیا اور خواہشاتِ انسانی کا لامتناہی ہونا ہے۔ یہی حرصِ دنیا اور خواہشاتِ نفسانی ہماری تباہی و بربادی کا سبب ہیں، لیکن جن اللہ کے بندوں نے، دنیا کو چھوڑ کر اللہ سے لو لگائی اور اللہ کے بندوں سے محبت کی آج وہ 10 صدیاں گزرنے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں اور اپنے مزارات کے اندر زندہ ہیں، جبکہ دنیا کے عیش و عشرت کے پیچھے بھاگنے والے جہانگیروں کے مقبروں پر کوئی دیا جلانے والا بھی میسر نہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنا ”فرض“ ادا کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن اپنے حقوق کیلئے ہمہ وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں جبکہ داتا گنج بخش نے اپنا حق چھوڑ دیا، لیکن فرض ہر حال میں ادا کیا۔ یہاں میں آخری بات یہ کرنا چاہتا وں کہ ہمیںاپنی نصابی کُتب میں داتا صاحب علیہ رحمہ کی تعلیمات اور ان کی تصانیف کو ضرور شامل کرنا چاہیے۔ یہ از بس ضروری ہے۔ اغیار اور مغرب کے کلچر، لٹریچر اور مغربی دانش کی خیرات مانگنے والوں کو کشف المحجوب، غنیة الطابعین، جیسے نسخہ کیمیا کا فہم و ادراک دینا ناگزیر ہے۔ یہی ہماری بقاءکا نسخہ ہے۔ گنج بخش فیض عالم مظہرِ نور خدا.... ناقصاں راہ پیر کامل کاملاں را، رہنما۔آپ سب کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے سنا۔ میں خاص طور پروفیسر ڈاکٹر مطلوب احمد (ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سوشل سائنسز و صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ دی یونیورسٹی آف فیصل آباد) کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس سعادت کا موقع دیا۔ یہ مکالمہ ”تذکار حضرت سیّد علی بن عثمان داتا گنج بخش علیہ الرحمة“ کے عرس کے موقع پر طلبا و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔