ڈاکٹر صفدر محمودکو خراجِ تحسین

ڈاکٹر صفدر محمود کا شمار علامہ اقبال بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور جسٹس جاوید اقبال کے انتقال کے بعد ان کی وفات نہ صرف وطن عزیز بلکہ عالم اسلام کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اتنی بڑی ہے اور دنیا حیران ہو گئی ہے کہ انہوں نے اتنے اعلیٰ پیمانے پہ کام کییا اور ان کا کام تحریک پاکستان اور اکابرین پاکستان کے حوالے سے لازوال علمی اور تحقیقی کام ہے۔ ایک ایسا مایہ ناز سکالر جس کی کتب جناب ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان اپنی تقاریر میں حوالے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ انکشاف ممتاز سماجی شخصیت جناب محمد عبدالشکور صدر الخدمت فاﺅنڈیشن پاکستان نے اپنے ایک تاثراتی کالم میں کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار ان چند بڑے لوگوں میں ہوتا ہے جن کی کتب پڑھ کر لوگ جوان ہوئے اور آج وہ پاکستان کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کو ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ تعلیم دلوائی اور وہ آج ڈاکٹر صاحب کے مشن پر ہی گامزن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا انتقال 13 ستمبر کو ہوا۔ اس کے بعد ممتاز کالم نگاروں نے ڈاکٹر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنا شروع کر دیا۔ جناب اظہار الحق، جناب ڈاکٹر حسین پراچہ، جناب عطا الحق قاسمی، محترمہ مریم ارشد، جناب توفیق بٹ، جناب سجاد میر، جناب عامر خاکوانی، جناب مجیب الرحمن شامی، فاطمہ قمر، جناب عطاءالرحمن، جناب امجد اسلام امجد، احتشام ارشد نظامی، جناب فاروق عزمی، جناب طاہر جمیل نورانی، چودھری عثمان کسانہ، محترمہ سعدیہ قریشی، محمد عبدالشکور صدر الخدمت فاﺅنڈیشن پاکستان، افضل رحمن وائس آف امریکا، جناب الطاف حسن قریشی، حفیظ اللہ خان نیازی، پروفیسر یوسف عرفان کے علاوہ بے شمار لوگ لکھ رہے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ہمیں پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب کتنی بڑی شخصیت تھے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان کا روشن ستارہ تھے۔ روزنامہ جرات کے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر قاضی نے لکھا ہے کہ آپ عمر بھر تحقیق و جستجو کے خوگر رہے۔ عشق رسول اللہ ڈاکٹر صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر حسین پراچہ نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود پاکستان کے دشمنوں کے لیے ایک ننگی شمشیر تھے۔ سعدیہ قریشی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو الیکٹرونک میڈیا نے نظرانداز کر کے غلط کیا ہے۔ عامر خاکوانی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں طلبا کے لیے تحقیق کے دروازے کھول دیتی ہیں اور ڈاکٹر صاحب پاکستان کی آواز تھے۔ ان کی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ پاکستان کا آئینہ ہے۔ اسی طرح فاروق عزمی نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے محض قومی خدمت کے جذبے کے تحت لکھنا شروع کیا اور پاکستانی قوم میںاپنی تاریخ کا شعور بیدار کرنے کے لیے ”پاکستانیات“ پر تحقیق شروع کی۔ قائداعظمؒ، تحریک پاکستان اورپاکستانیات کے موضوع کو عمر بھر اپنے مرکزی مطالعہ و تحریر کی حیثیت دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے مواقع بھی دیئے کہ انہوں نے سول سروس سے لےکر تعلیم و تدریس تک مختلف شعبوں میں رہتے ہوئے تاریخ و سیاست کے مختلف پہلوﺅں کو بہت قریب سے دیکھا، سمجھااور ان کا تجزیہ کیا۔ لہٰذا اس اعتبار سے ان کی معلومات، تحقیق اور مطالعہ بہت وسیع اور مستند ہیں۔ لہٰذا ان کی پاکستان کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں کی تعداد اور موضوعات دیکھ کر رشک آتا ہے اور یہ بات کس قدر خوشگوار لگتی ہے کہ پاکستان اور تاریخ پاکستان پر جب بھی کوئی قلمکار کچھ لکھتا ہے تو اس کی تحریر میں ڈاکٹر صفدر محمود کی کتابوں کے حوالے تواتر سے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا شمار امور پاکستان کے ماہرین میں ہوتا ہے اور علمی حلقوں میںانہیں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی شہرہ¿ آفاق کتاب” پاکستان، تاریخ و سیاست“ جس کا پہلا ایڈیشن جولائی 1989ءمیں شائع ہوا کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں: ”ماضی کا شعور ہی مستقبل کی راہ میں چراغ جلاتا اور قوموںکی رہنمائی کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ شعور اپنی تاریخ کے ادراک سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میںملکی تاریخ و سیاست کے تجزیئے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ پاکستانی قوم میںاپنی تاریخ کا شعور پیدا کرنے کے لیے پاکستانیات پر تحقیق کرنا اورتصنیف وتالیف کرنا میری زندگی کا اہم ترین مشن ہے۔ پاکستانیات کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا میرا خواب ہے اور اسے مقبول بنانا میری آرزو ہے۔ کچھ آرزوئیں اور خواب زندگی میں پورے ہو جاتے ہیں، کچھ زندگی کا دیا بجھنے کے بعداور کچھ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتے لیکن اگر لگن سچی ہو اور مقصد میں اخلاص ہو تو انسان نتائج کی پروا کیے بغیراپنے مشن کی تکمیل میں مصروف رہتا ہے۔ میں نے محض قومی خدمت کے جذبے سے اس میدان میںقدم رکھا ہے اور حتی الواسع اسی جذبے کے تحت لکھتا ہوںاس کے سوا میرا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔“ اگر ہم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی تصنیفات کا جائزہ لیں تو اب تک ڈاکٹر صاحب کی 21 کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں بیشتر کتابوں کا موضوع ”پاکستان“ ہے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی پاکستان سے محبت بلکہ عشق کا ثبوت ہے۔ اردو میں ڈاکٹر صاحب کی سب سے ضحیم کتاب کا نام بھی ”پاکستان میری محبت“ ہے۔ یہ 468 صفحات کی کتاب ہے اس کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں: ”بلاشبہ پاکستان، قائداعظمؒ، تحریک پاکستان، علامہ اقبال اور پاکستان کی تاریخ میری پہلی اور سچی محبتیں ہیں اور میں زندگی بھر ان محبتوں سے وفا کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہوں۔ مجھے کہنے دیجیے کہ میں نے زندگی کی دوسری محبتوں کوکبھی ان پہلی محبتوں کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔“ اپنی پہلی محبت یعنی پاکستان سے متعلق ڈاکٹر صاحب کی دیگر کتب مندرجہ ذیل ہیں: ٭ آئین پاکستان (1973ئ) تجزیہ و موازنہ ٭ مسلم لیگ کا دور حکومت (1954ئ۔ 1947ئ) ٭ پاکستان کیوں ٹوٹا٭ پاکستان تاریخ و سیاست ٭ تقسیم ہند .... (افسانہ اور حقیقت) ٭ پاکستان .... میری محبت ٭ اقبال، جناح اور پاکستان ٭ سچ تو یہ ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے انگریزی زبان میں بھی تصنیف و تالیف کا قابل قدر اور لائق تحسین کام کیا ہے ان کی چند انگریزی کتب کے نام درج ذیل ہیں: PAKISTAN: Political Roots & Development (1947-99). PAKISTAN DIVIDED. Pakistan Rule of Muslim League and Inception of Democracy. Constitional Foundation of Pakistan. International Affairs. Introducting Founders of Pakistan. جناب وزیراعظم عمران خان اور صدر پاکستان جناب عارف علوی کو چاہیے کہ ایک آرڈیننس جاری کریں کہ ڈاکٹر صاحب کی تمام کتابیں، پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں میں اور پبلک لائبریریوںمیں ایک ایک گوشے بنانے کا سرکاری طور پر بنانے کا آرڈیننس جاری کریں۔ اس سے طلبا اور اساتذہ کرام جان سکیں گے کہ پاکستان کیسے بنا اور کس طرح ہم حفاظت کر سکتے ہیں۔