بدھا کا نظریہ لہو لہو روہنگیا

اس وقت پوری دنیا میں مسلمان تقریباً ایک ارب پچیس کروڑ سے زائد افراد پر مشتمل ہیں لیکن چند کروڑ غیر مسلم مسلمانوں کے وسائل پر قابض ہیں۔ ابھی حال ہی میں دنیا کی خود ساختہ سپرپاور امریکا اور اس کے اتحادیوں نے عبرت ناک شکست کے بعد پرندوں کی طرح افغانستان سے بھاگ کر جان بچائی اور یہ پوری دنیا کے حکمرانوں اور امریکا کے عوام کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ انہوں نے بیس سال میں اربوں روپے پانی کی طرح بہا دیے لیکن افغانستان کو فتح نہ کر سکے۔ امریکا اور اس کے حواری افغانستان میں کیا لینے کے لیے آئے تھے۔ دنیا کا سب سے امیر ملک معدنیات کے حوالے سے افغانستان کا نمبر 1 ملک ہے۔ کیونکہ ماہرین کا خیال ہے کہ چند سال بعد مٹی کا تیل، ڈیزل، پٹرول تقریباً ختم ہو جائے گا۔ اس کی جگہ نئی دھاتیں کام آئیں گی۔ اُسی سے ہی دنیا کا نظام چلے گا اور یہ قیمتی ترین دھاتیں افغانستان میں بڑی مقدار میں موجود ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے چائنہ نے طالبان کے ساتھ کئی معاہدے بھی کر رکھے ہیں۔ اگر یہ کامیاب ہو گئے تو کل کی سپر پاور چائنہ ہوگا۔ برما دنیا کا بدقسمت ترین ملک ہے جس میں بدھا کے پیروکاروں نے مسلمانوں کو گاجر اور مولی کی طرح دردناک اور خوف ناک طریقے سے ذبح کیا۔ قتل و غارت کی اور بدنام زمانہ اُس ملک کی وزیراعظم نے مسلمانوں کو چن چن کر مارا۔ ترکی کے علاوہ پوری مسلم اُمہ نہ صرف سوئی ہوئی ہے بلکہ بہت ہی گہری نیند سوئی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر ایک مایا ناز ادیب اور بزرگ عالم نگار جناب پروفیسر فاروق عزمی نے ایک اہم کتاب ”مسلمانوں کی قتل گاہ برما“ کے نام سے لکھی جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے نام ایک خط تھا کہ مسلمانو! اب آپ کس چیز کا انتظار کر رہے ہو، اُٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاﺅ۔ یہ کتاب بھی قلم فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد ایک ماہرہ تعلیم، محقق، قابل رشک اُستاد، عظیم نثر نگار محترمہ پروفیسر ڈاکٹر فرحت علوی نے برما پر ایک بہت ہی مدلل خوبصورت کتاب بدھا کا نظریہ لہو لہو روہنگیا لکھی ہے۔ یہ کتاب سینکڑوں کتابوں کا حاصل ہے اور انہوں نے تحقیق کی دنیا میں بہت بڑا کام کیا ہے۔ بلکہ ایک مصرع ہے کہ سجدہ کر اور حد سے گزر جا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بھی اتنی تحقیق کی ہے کہ حد سے گزر گئی ہیں۔ اس کتاب کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کے دل و دماغ پر ایک دستک ہے۔ ایک پیغام ہے، ایک اذان ہے ہے۔ یہ کتاب سچی بات ہے کہ برما کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ ایک بہت بڑ عالم دین، کئی کتابوں کے مصنف بے لاگ کالم نگار، بے باک خطیب و ادیب جناب ڈاکٹر فرید احمد پراچہ مصنف ”عمرِ رواں“کے بھائی جناب حسین احمد پراچہ کی ہدایات اور زیر نگرانی انتہائی خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ قلم فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام چھپ چکی ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی ہر لائبریری میں موجود ہونی چاہیے۔ مصنفہ اپنی کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ”دنیا ایک عالمی گاﺅں کی طرح سکڑ رہی ہے۔ مشرق اور مغرب اب کوئی دور دراز کی دنیائیں نہیں رہیں۔ اس وقت ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں مختلف مذاہب اور فلسفہ ہائے حیات کے ماننے والے موجود ہیں۔ انسانی تہذیب کا سفر ان مذاہب سے جڑا ہوا ہے اور اخلاقیات کی تعلیم (مثلاً محبت، باہمی احترام، برداشت، افراد کے حقوق و فرائض وغیرہ) کم و بیش یکساں ہیں۔ ان کثیر الثقافتی اور کثیر المذہبی معاشروں میں اجتماعیت اور تنوع کو قبول کرنے کی ضرورت ہے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کا تکثیری معاشروں میں بحیثیت اقلیت ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ تاریخ پہ نظر دوڑائیں تو مکہ، حبشہ یہاں تک کہ مدینہ (فتح مکہ سے قبل) میں بھی مسلمان کئی سال اقلیت میں رہے۔ آنحضور نے خداداد حکمت کے ذریعے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی سیادت قائم کر دی۔ آپ نے اقلیتوں کو مساوی حقوق دیے۔ یہ سلسلہ خلافت راشدہ سے ہوتا ہوا خلافت عثمانیہ تک جاری رہا۔ مسلمانوں نے اندلس، ہندوستان اور دیگر ممالک میں اقلیت ہونے کے باوجود اکثریتی معاشرے میں اپنا تہذیبی و علمی حصہ ڈالا۔ بیسویں صدی عیسوی تک یورپین ممالک میں یہودی اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ یونائیٹڈ نیشنز کے تحت بین الاقوامی قوانین بنے اور بین الاقوامی معاہدے ہوئے جن کے تحت اقلیتیوں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے واضح حقوق دیے گئے۔ جس کے بعد تقریباً تمام دنیا میں تمام اقلیتوں کے ساتھ قانون کی سطح پر بہتر سلوک ہونے لگا لیکن 9/11 کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کی گئی اور اسلاموفوبیا کے اثرات دیکھنے میں آئے۔ پورے یورپ میں مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں بدسلوکی، تشدد، امتیاز اور انتقام کا سامنا کرنا پڑا اور دہشت گردی کے ہر واقعے کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ وہیں برما کی مسلم اقلیت روہنگیا پر ہونے والے مظالم میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس وقت روہنگیا دنیا کی ان دس اقوام میں شامل ہے جن کا وجود دنیا سے مٹ جانے کا خطرہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا میں بے ریاست لوگوں کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ 1982ءکے خود ساختہ اور نام نہاد قانونِ شہریت کے تحت روہنگیا قومی زمرے سے خارج کر دیا گیا۔ کیونکہ روہنگیا کو ملک کے 135 نسلی گروہوں میں سے ایک کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ حالانکہ تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ روہنگیا (مسلمان) آبادی اچانک برما میں نمودار نہیں ہوئی بلکہ اراکان میں صدیوں سے آباد ہیں اور یہ عرب، ترک، مغل، ایرانی، پٹھان اور بنگالیوں کی نسل سے ہیں۔ شمالی اراکان جو کہ روہنگیا کا آبائی علاقہ ہے، ایک منصوبے کے تحت راکھائن بدھمتوں (مگوں) کو یہاں لا بسایا گیا لیکن برمی مورخین اور سرکاری ذرائع کا اصرار ہے کہ روہنگیا، راکھائن ریاست کے مسلمان بنگالی مہاجروں کی اولاد ہیں (اور یہ حکومت کا وہ مقبول نعرہ ہے جس کی جگالی اکثر و بیشتر حکومتی اہلکار کرتے رہتے ہیں)۔ روہنگیا اصطلاح کا باضابطہ اعتراف 10 مارچ 1050ءکو وزیراعظم ”یونو“ نے کیا لیکن اس کے بعد کبھی بھی سرکاری سطح پر اس اصطلاح کا استعمال نہ کیا گیا۔ میانمار (برما) میں مسلمان ملک کی مجموعی آبادی کا 20 فیصد ہیں اور ان میں سے نصف آبادی کبھی اراکان (راکھائن) میں تھی۔ اراکان پر سینکڑوں سال تک مسلم حکمرانی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان علاقوں میں اقلیت کی بجائے جزو لاینفک تسلیم کیے جاتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کی آزادی کے لیے انہوں نے بے مثال بہادری کا مظاہرہ کیا۔ چونکہ روہنگیا لوگوں کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا گیا۔ اس لیے ان واقعات کو سرکاری طور پر کبھی ریکارڈ پر نہیں لایا گیا۔ حالانکہ ہاروے کے مطابق ان کی بہادری اور کارناموں کا ذکر برما رزاوِن میں ضرور ریکارڈ ہونا چاہیے تھا۔ روہنگیا مسلمان امن پسند ہیں اور معاشرہ میں باہمی آہنگی کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں کے نام رکھتے ہوئے دو نام لکھواتے ہیں۔ نام کا پہلا حصہ اسلامی جبکہ دوسرا برمی مگھ ہوتا ہے۔ جیسے صالح تون سین (Saleh Tun Sein) احمد موآنک موآنک (Ahmed Maung Maung) وغیرہ۔ روہنگین تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب اسلامی تہذیب کے بل بوتے پر پروان چڑھے۔ قدیم دور سے مسلمان مصنّفین اور شعراءروہنگیا زبان میں فارسی و عربی حروفِ تہجی کا استعمال کیا کرتے تھے۔ اراکانی دربار میں پنپنے والے مشہور روہنگیا شعراءعبد و من یو، شاہ برید خان، عبدالکریم خند کر، قریشی ماگن، دولت قاضی، مردان اور شاہ الاول وغیرہ ہیں۔ ان کا قابل ذکر ادبی ذخیرہ دریافت ہو چکا ہے۔ روہنگیا ادب محبت کے گیتوں، لوک کہانیوں، بارہ ماسہ، صوفیانہ گیتوں، محاورات، غزلوں، پہیلیوں اور لوریوں (Lullabies) سے بھرپور ہے۔ روہنگیا فنونِ لطیفہ کے رسیا ہیں۔ ان کے مقامی گیت ہیں جس میں خاص طرز کی موسیقی اور گیت شامل ہیں۔ بٹیالی گیت (Bitayali) جاری گیت(Jari) اور غاضر گیت (Gazir) اپنی مدھر اور رس بھری موسیقی کی بنا پر بہت مقبول ہیں۔ کبھی برما براڈ کاسٹنگ (BBC) سروس سے روہنگیا موسیقی اور روہنگیا آرٹ سے متعلق شروع ہوا کرتے تھے جو کہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ جب زندگی اپنے پورے جوبن پر تھی اور جہانِ امن کے کینوس پر اپنے رنگ بکھیر رہی تھی۔ جہاں بدھا کے دیس میں نفرتوں کی آبیاری کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جب محبت کے گیت گائے جاتے تھے۔ ہاں اسی دیس میں اب صرف فوجی بوٹوں کی چاپ ہے۔ معصوم روہنگیا کی جلا لاشوں کی راکھ ہے اور بس! بقول ناصر کاظمی: وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے جب روہنگیا میں زندگی پوری رعنائیوں سمیت مسکراہٹیں بکھیرتی تھی تو وہاں کھیلوں (گھری خیلا، بولی خیلا، قوانڈا خیلہ وغیرہ) کے مقابلے منعقد ہوا کرتے تھے جن کا تعلق مختلف موسموں (سرما، گرما، برسات) سے وابستہ ہے۔ اسی طرح کبھی اراکن میں خوشحالی اور فارغ البالی شہرہ آفاق تھی کہ اطرافِ عالم سے غریب لوگ اپنی غربت اور افلاس کو دور کرنے کے لیے یہاں آتے تھے تاکہ محنت مزدوری کر کے اپنی قسمت آزمائی کر سکیں۔ کیونکہ 1950ءتک اکیاب (موجودہ اسٹیوے) پچاس رائس ملوں کا شہر رہا ہے۔ ایک ایک مل سے لاکھوں من چاول تیار ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی اور غیر ملکی تجار اورجہازوں کی کثرت آمد و رفت سے یہ شہر ایک بارونق بین الاقوامی بندرگاہ بن گیا تھا اور اراکان کا سکہ ریال اور ڈالر سے کم نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے اہل خانہ فرقت کو بھی برداشت کر لیتے تھے۔ اس لمبے سفر اور فرقت کی تکلیف کا اندازہ اس لوری سے ہوتا ہے جو خواتین اپنے بچوں کو سلاتے وقت سنایا کرتی تھیں، اس لوری کا متن ان کی مادری زبان میں حسب ذیل ہے: بوانگ بوانگ روحانگرٹیاں برو نافان ترماں رے خویسدے نخاندے فان