ہماری پولیس کہاں کھڑی ہے!

لاہور میں ایک” ہائی پروفائل“ شادی کی تقریب میں صوبے کا سب سے بڑا عہدہ رکھنے والا شخص یعنی وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بھی وہاں مدعو ہے، دیگر 15سو مہمان بھی تشریف فرما ہیں، خوب گہما گہمی کا عالم ہے، میزبان کوئی اور نہیں صوبائی وزیر اسد کھوکھر ہیں،جن کی خاندانی دشمنیوں کی طویل داستانیں رقم ہیں، اتنے میں ناظم نامی ایک ریکارڈ یافتہ مجرم شادی کی تقریب میں بن بلائے مہمان کے طور پر آتا ہے، راستے میں دوست کے ہمراہ نئے کپڑے خریدتا ہے، اُس کے پاس 40ہزار روپے کا لائسنسی پسٹل ہے، وہ تقریب میں عام مہمانوں کے ہمراہ داخل ہوتا ہے،کہیں کوئی واک تھرو گیٹ نہیں، کہیں کوئی چیکنگ نہیں ، وہ آسانی سے اپنے ”ہدف“ کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے۔اُس کے قریب سے دو تین دفعہ عثمان بزدار ہمراہ اسد کھوکھر اور اُن کے بھائی مبشر کھوکھر گزرتے ہیں، لیکن اُس کا ہدف مبشر کھوکھر ہے، کچھ دیر بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار وہاں سے روانہ ہونے لگتے ہیں تو تینوں بھائی اُنہیں رخصت کرنے کے لیے باہر تک آتے ہیں، ملزم ناظم بھی اُن کے پیچھے پیچھے باہر تک آتا ہے، وزیر اعلیٰ گاڑی میں بیٹھے کر روانہ ہوتے ہی ہیں کہ ریکارڈ یافتہ ملزم ناظم مبشر کھوکھر پر فائر کھول دیتا ہے، اور مبشر کھوکھر چہرے پر گولیاں لگنے کے بعد جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں، بعد میں انکشاف ہوتا ہے کہ ملزم کی کھرکھر برادران کے ساتھ دیرینہ دشمنی تھی، اس لیے اُس نے مبشر کھوکھر کو قتل کیا۔ اب آتے ہیں ہمارے سکیورٹی اداروں کی طرف تو مذکورہ بالا واقعہ کو ہی لے لیں، پولیس، اسپیشل برانچ اور وزیر اعلیٰ آفس ایک دوسرے پر ملبہ ڈالتے نظر آرہے ہیں، کبھی کہا جا رہا ہے کہ واک تھرو گیٹ لگانے کا وقت ہی نہیں ملا، کبھی کہا جا رہا ہے کہ تقریب میں 15 سو سے زائد مہمان مدعو تھے، جلدی میں سب کو چیک کرنا بھی نا ممکن تھا، حالانکہ اُس وقت تقریب میں آن ڈیوٹی ایک ڈی ایس پی، 2 ایس ایچ اوز اور 40 اہل کار موجود تھے، لیکن ہائی پروفائل شخصیات کی تقریب میں آمد کے باوجود اسپیشل برانچ کے اہل کاروں نے سراغ رساں کتوں سے پنڈال کو چیک بھی نہیں کیا ۔یہ بھی چھوڑیںوہاں ایس پی سیکیورٹی تقریب کی جگہ پر موجود ہی نہیں تھے۔جب کہ کہا جا رہا ہے کہ بزدار صاحب کے ”نجی دورے“ کی وجہ سے اُن کا پورا سٹاف بھی موجود نہیں تھا۔ میں یہاں یہ نہیں کہتا کہ اس میں قصور پولیس یا دیگر سیکیورٹی اداروں کا ہے، بلکہ یہ ضرور کہوں گا کہ اگر صوبے کی ہائی پروفائل شخصیت کو خدانخواستہ نقصان پہنچتا تو دنیا میں ہمارے بارے میں ایک بار پھر کیا پیغام پہنچتا؟ کیوں کہ اس سے پہلے بھی ہم خان لیاقت علی خان، مرتضیٰ بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو ، حیات محمد شیرپاﺅ، علامہ احسان الٰہی ظہیر، ہارون بلور جیسی شخصیات کو مجمع میں قتل کر دیا گیا جن کا معمہ آج تک حل نہیں ہوسکا۔ بات یہ نہیں ہے کہ کس شخصیت کی کتنی اہمیت ہے، بلکہ بات یہ ہے کہ ہمارے ادارے وہاں سے نہیں سوچتے جہاں سے واردات کرنے والے سوچتے ہیں۔ امریکا میں 1865ءکو امریکا کے سولہویں صدر ابراہام لنکن کو قتل کیا گیا، اور پھر اُس کے 98سال بعد 1963ءمیں صدرجان ایف کینیڈی کو قتل کیا گیا۔امریکا میں بہترین انتظامات کیے گئے اس کے بعد امریکا میں 6دہائیاں گزرنے کے بعد آج تک کسی ہائی پروفائل شخصیت پر حملہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ بقول امریکن انٹیلی جنس اگر آپ کی ہائی پروفائل شخصیات محفوظ نہیں تو عام شہری کے تو خودکشی کر لینی چاہیے! لہٰذااگر پنجاب جیسے بڑے صوبے میں چیف منسٹر محفوظ نہیں ہیں تو ہم باقی عوام کے تحفظ کی کیا اُمید کر سکتے ہیں؟ کیوں کہ یہاں حالات اللہ توکل چلائے جا رہے ہیں، اور ویسے بھی ہر جگہ سپیشل برانچ یا دیگر سیکیورٹی اداروں ہی کا کام نہیں ہے کہ وہ سیکیورٹی کلیئرنس دے بلکہ ہماری پولیس کو چاہیے کہ وہ عوام و قائدین کے تحفظ کے لیے خود کو قابل بنائے۔ کیوں کہ معذرت کے ساتھ ہماری پوری کی پوری پولیس فورس لاک ڈاﺅن کے دوران کھلنے والی دکانوں سے یا تو ہزار ہزار روپے اکٹھا کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے، یا موٹرسائیکل سواروں کو روک روک کر 100،200روپے اکٹھے کرنے میں مصروف ہے، حالانکہ ہمارے ہاں 80فیصد سے زائد کرائم گاڑیوں میں ہوتا ہے، جبکہ گاڑی چلانے والوں میں سے 70فیصد کے پاس لائسنس ہی نہیں ہوتا، نہ تو اُن کی گاڑیاں بند کی جاتی ہیں، نا اُنہیں بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اُن کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ اور پولیس ناکوں کا تو یہ عالم ہے کہ حالیہ جوہر ٹاﺅن بم دھماکہ جو حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب کیا گیا، کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ملزم ناکے پر پانچ ہزار روپے رشوت دے کر اپنے ٹارگٹ تک پہنچا تھا۔ یعنی یہ ہے ہماری پولیس کی کارکردگی، جبکہ اس کے برعکس باتیں سن لیں، آپ کو ایسی ایسی باتیں پولیس کے بارے میں سننے کو ملیں گی کہ آپ کا سینہ چوڑا ہو جائے گا مگر حقیقت اس کے بالکل اُلٹ ہوتی ہے۔ لہٰذااگر کوئی پوچھے کہ ہماری پولیس کیا کرتی ہے تو یہ ضرور بتا دیں کہ جو طاقتور ملزم گرفتار ہوتا ہے تواُسے سیکیورٹی دینے، اُسے ”باعزت“ طور پر عدالت میں پیش کرنے ، طاقتور کی مرضی کے تابع اُسے پروٹوکول دینے اور کمزور سے دیہاڑیاں لگانے کا کام دلجمعی سے کرتی ہے بقول شاعر عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں خیر یہ تو عام روٹین کی باتیں ہیں، اگر گزشتہ 74سالوں میں پولیس کو خراب کیا گیا ہے تو باقی ادارے کو ن سا مثالی کارکردگی پیش کر رہے ہیں جو صرف پولیس کو ہی برا بھلا کہا جائے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ راﺅ انوار جیسا انکاﺅنٹر سپیشلسٹ میڈیا سے خوب سینہ پھلا کر باتیں کرتا ہے، وہ ہر روز انکاﺅنٹر کرتا اور پھر جب اس کے کیے ہوئے ایک انکاﺅنٹر پر معاملہ تھوڑا زیادہ ہی سنجیدہ ہوا تو سلمانی ٹوپی پہن کر کسی بل میں چھپ جاتا ہے اور اس کے نا اہل اور بدعنوان پیٹی بھائی اس کو کہیں ڈھونڈ نہ پائے۔اور پھر جب وہ خود ہی اپنے منہ پر ”مکی ماﺅس“ کا ماسک لگا کر عدالت میں پیش ہو جاتا ہے اور عدالت اُسے ”ریلیف“ بھی دے دیتی ہے تو پھر ہمارے نظام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ پھر عذیر جان بلوچ کے بارے میں کون نہیں جانتا، اُسے بھی سزا نہیں دی جاسکی کیوں کہ سنا ہے وہ بھی پولیس اور سیاستدانوں کے لیے کام کرتا تھا، پھر زینب کے بھیانک واقعے کے بعد جب سارا ہی میڈیا اس کے پیچھے ہی پڑ گیا تو سر توڑ کوشش کر کے یہ قبیح عمل کرنے والے کو پولیس نے پکڑ لیا مگر ایک مجرم کو پکڑنے کے لئے سارے ہی علاقے کے ہر فرد سے تفتیش کرنی پڑی۔ یہ ہے پولیس کی انٹیلی جنس کی حالت۔ اور ایک اور بھید یہ بھی اس واقعے سے کھلا کہ زینب کے قاتل عمران علی کے ہاتھوں بے حرمتی کا شکار اور ہلاک ہونے والی ایک اور بچی کے قاتل کے طور پر پنجاب پولیس ایک مظلوم کا انکاﺅنٹر کر چکی تھی۔ الغرض حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جرائم پولیس کی سرپرستی میں ہوتے ہیں مثلاً علاقے کے جسم فروشی کے اڈے پولیس کو ان کا حصہ دیتے ہیں، اسی طرح فقیر، اچکے، چور، ڈکیت یہ سب پولیس کو حصہ دیتے ہیں مگر یہ تو دراصل کاروباری مجرم ہیں جن کی روزی روٹی ہی جرم سے ہے اور یہ اپنے جرم کا کاروبار شروع کرنے سے پہلے خود ہی پولیس سے آشیر باد لینے آ جاتے ہیں مگر اگر کوئی حقیقی مجرم جو صرف پولیس کی نا اہلی سے چوہے بلی کا کھیل کھیلنا چاہے تو ہماری پولیس تاقیامت نہ اسے روک سکتی ہے نہ ہی پکڑ سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال لاہور کا سیریل کلر جاوید اقبال ہے جس نے جب سو سے زائد بچوں سے زیادتی کر کے ان کا قتل کر دیا، پھر خود ہی ایک معروف اخبار کو خط لکھ کر اپنے سیاہ کارنامے بیان کیے اور خود ہی چند دن بعد اس اخبار کے دفتر پہنچ گیا۔ یعنی اگر وہ اس کے بعد 100 بچے مزید بھی قتل کر ڈالتا اور خود ہی اس کا ارادہ پولیس کے پاس جانے کا نہ ہوتا تو اسے کبھی پولیس نہ پکڑ پاتی اور اگر کوئی صحافی پنجاب پولیس کے آئی جی سے دریافت کر لیتا کہ یہ سڑک پر زندگی گزارنے والے بچے اچانک سارے شہر سے غائب کہاں ہو گئے ہیں تو پنجاب کے تب کے آئی جی صاحب یقیناً فرماتے کہ ”ایسا کب پیش آیا؟ یہ تو Hearsay (افواہ) ہے۔“ بڑی حد تک سارے ہی ملک کی پولیس بڑے لوگوں کے سیکیورٹی گارڈ کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ایک جانب جب جرائم کی ریل پیل کی بات کی جاتی ہے تو نفری کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے اور دوسری جانب صرف ہر صوبہ میں ہزاروں کی تعداد میں پولیس اہلکار صرف بڑے لوگوں کی سیکیورٹی ڈیوٹیز پر تعینات ہیں۔ ہر وقت صرف ایک ”شاہی“ گھر کی حفاظت کے لئے ہی ڈیڑھ سو پولیس کمانڈوز تعینات رہتے ہیں جب کہ اُس شاہی گھر کے ذاتی دوستوں کے ساتھ بھی دس دس پولیس موبائلز کے کانوائے چلتے ہیں۔ چند سال قبل ایک وڈیو سوشل میڈیا پر کافی پھیلی تھی اور ٹی وی پر کافی زیر بحث رہی تھی جس میں ایک شخص سڑک روک کر کھڑے ایک کانوائے کی وڈیو بنانے لگتا ہے تو ’ایس ایس یو‘ کا ایک مستعد جوان تیزی سے آتا ہے اور گالی بک کے مووی بنانے سے روکتا ہے، مکا مارتا ہے اور بتاتا ہے کہ ”تیرا باپ جا رہا ہے۔“ یہ ہے وہ پولیس جو ہمارے دیے ہوئے ٹیکس سے تنخواہ پاتی ہے تاکہ ہمارے ’انتظار‘ ، ’نقیب‘ ساہیوال میں شہید ہونے والے خاندان جیسوں کو بے گناہی کی پاداش میں گولی مار سکے۔ یا کسی شادی بیاہ کی تقریب میں گھس کر کسی کو بھی قتل کر سکے یا ہماری ہائی پروفائل شخصیات کو نشانہ بنا کر پوری دنیا میں ہمارا نشانہ بنا سکے، لہٰذاایک مشہور کہاوت ہے کہ جس گھر کا چوکیدار لالچی ہو، اُس گھر کے مکین اپنی حفاظت خود کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔اس لیے پولیس کی تنخواہوں کے بڑھنے کے باوجود کرپشن ، بے حسی اور لا پرواہی ختم نہ ہونے پر محکمہ پولیس کے لیے صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے، کہ وہ کہاں کھڑی ہے!!! #police and mubashar khokhar #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan