افغان پناہ گزین: پاکستان اپنے قرضے معاف کروائے!

اپنی دی ہوئی ڈیڈ لائن کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاءمکمل ہوگیا، یا یوں کہیں کہ امریکا نے 20سال کی جنگ کے بعد پسپائی اختیار کرلی۔کیوں کہ گزشتہ رات آخری امریکی فوجی بھی افغانستان سے روانہ ہوگیا، اسے شکست کہیں یا جیت ، مگر ایک بات تو طے ہے کہ جن طالبان کے خاتمے کے لیے امریکا یہاں پہنچا تھا، آج وہ پہلے سے زیادہ طاقت اور اختیارات کے ساتھ دوبارہ افغانستان کا اقتدار سنبھال چکے ہیں۔ اس لیے اس جنگ کو اگر امریکی شکست کہا جائے تو اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ افغان عوام 20سال پہلے بھی تن تنہا تھی اور آج بھی بے یارو مدد گار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کہ عوام افغانستان سے کسی بھی صورت میں نکلنا چاہتے ہیں، چاہے وہ پاکستان آئیں، ترکمانستان جائیں، ایران جائیں ، ازبکستان جائیں یا جہاز کے پروں کے نیچے یا لینڈنگ گئیر پر بیٹھ کر جائیں، مگر اُن کی اکثریت افغانستان کی سرزمین پر نہیں رکنا چاہتی۔ اسے بہتر مستقبل کی تلاش کہہ لیں یا طالبان حکومت کا خوف، مگر حقیقت یہی ہے۔ حالانکہ طالبان متعدد پریس کانفرنس میں یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وہ ”بدل“ گئے ہیں، اُنہیں ایک بار دوبارہ آزما کر دیکھ لیں! مگر بقول شاعر غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا تمام رات قیامت کا انتظار کیا بہرحال اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ جو پیش آنے والا ہے وہ ہے افغان پناہ گزینوں کا۔اور جب بات افغان پناہ گزینوں کی بات ہوتو دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر آکر رُک جاتی ہیں، رُکیں بھی کیوں نا،افغانستان کی 26سو سے زائد کلومیٹر کی سرحد پاکستان سے متصل جوہے۔اور پھر جیسے پاکستان نے 1980ءمیں بھی افغان سوویت یونین جنگ میں بھی 40لاکھ افغان پناہ گزینوں کو برداشت کیا،اس بار بھی پاکستان پر دباﺅ ہے کہ وہ مزید مہاجرین کو برداشت کرے۔ لیکن اگر ہم پاکستان میں موجود افغانوں کی بات کریں تو آج 15لاکھ افغانی پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں، یعنی حالیہ شورش سے پہلے پاکستان میں 15لاکھ رجسٹرڈ افغان موجود تھے جبکہ غیر رجسٹرڈ افغانوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔ مطلب پاکستان اس وقت 30لاکھ سے زائد افغانوں کو آج بھی اپنی سرزمین پر برداشت کیے ہوئے ہے۔ جبکہ حالیہ متوقع افغان پناہ گزینوں کی آمد بھی لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے، اس کے لیے ایک خبر ہی کافی ہے کہ صرف لاہور کی تین بڑی سرکاری یونیورسٹیوں یو ای ٹی، جی سی یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں افغان پناہ گزین کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جہاں20 ہزار افغان مہاجرین قیام پذیرہوں گے۔جبکہ ان کیمپسز کو خالی کرانے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے، مزید یہ کہ تینوں یونیورسٹیوں کے ہاسٹلز میں رہائش پذیر طلبہ وطالبات، ملازمین اور اساتذہ سے کمرے خالی کرائے جائیں گے۔ ابھی یہ صرف ایک ضلعے کا حال ہے باقی اضلاع کی کیا صورتحال ہوگی (واللہ علم)۔ اور رہی بات باقی ممالک کی تو پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں لاکھوں افغان خاندان پہلے سے مہاجرین کی شکل میں موجود ہیں، اور اب کی بار بھی ایران نے اپنے تین صوبوں میں مہاجرین کے لیے ہنگامی خیمے لگائے ہیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔پھر تاجکستان کے حوالے سے فی الوقت تو تعداد درست معلوم نہیں لیکن اطلاعات ہیں کہ حالیہ دنوں میں افغان نیشنل آرمی کے فوجیوں سمیت کم از کم کئی سو افغان تاجکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ جولائی میں تاجکستان نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کے ایک لاکھ پناہ گزینوں کو رکھنے کی تیاری کر رہا ہے۔پھر ازبکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تقریباً 15 سو افغان سرحد پار کر کے تاجکستان میں خیمے لگا چکے ہیں۔ برطانیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایک منصوبے کے تحت طویل مدت کے لیے 20 ہزار افغان مہاجرین کو قبول کرے گا۔ امریکا نے افغانیوں کو پناہ دینے کی حامی تو نہیں بھری مگر ضروریات پوری کرنے کے لیے 500 کروڑ ڈالر ضرور مختص کیے ہیں،جبکہ کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ 20 ہزار افغان باشندوں کو پناہ دے گا، جن میں اس کی توجہ ان افراد پر ہو گی جن کو طالبان سے خطرہ ہے، اور اس میں سرکاری کارکن اور خواتین رہنما بھی شامل ہوں گی۔اس کے علاوہ آسٹریلیاکا کہنا ہے کہ وہ افغانستان سے پناہ کے لیے بھاگنے والے باشندوں کے لیے اپنے ویزا پروگرام میں تین ہزار جگہیں مختص کرے گا۔ لیکن یہ جگہیں اس وقت جاری انسانی بنیادوں پر دیے جانے والے ویزوں کے پروگرام سے ہی لی جائیں گی اور مجموعی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔پھر یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ 2015 کے تارکین وطن کے بحران کو دہرانے سے بچنے کے خواہاں ہیں، جب یورپی یونین میں بڑی تعداد میں مہاجرین کو داخلے کی اجازت دینے کی وجہ سے انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ الغرض تمام ممالک افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے حوالے سے وقت گزاری حامیاں بھر رہے ہیں، لیکن سب کو علم ہے کہ یہ پناہ گزین پاکستان یا ایران کے حصے میںہی آئیں گے۔ اس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ کیا ہم سے اقوام متحدہ کے اداروں نے پناہ گزینوں کو لینے کے حوالے سے کوئی رابطہ کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو ہم کس قیمت پر ایک بار پھر”قربانی“ دینے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ کیوں کہ بقول ہیلری کلنٹن پاکستان ان مہاجرین کے عوض کروڑوں ڈالر وصول کرتا ہے تو ایسی صورتحال میں ہمیں علم ہونا چاہیے کہ اس بار بھی اچھے خاصے ڈالرز آنے کی توقع ہے۔ خیر یہاں تو فی الوقت یہ صورتحال ہے کہ کئی بڑے شہروں کے ہوٹل گزشتہ ہفتے سے ملک کے شہریوں کے لیے بند ہیں۔ آئندہ تین ہفتوں تک کسی بکنگ کی اجازت نہیں۔ پہلے سے موجود لوگوں کو بھی ہوٹلوں سے چلے جانے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ نے ہوٹلز خالی کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ جو غیر ملکی آئیں گے، وہ پاکستان میں مختصر قیام کے بعد اپنے اپنے ملک کو روانہ ہوں گے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسا فرانس یا امریکہ یا کسی آزاد جمہوری ملک میں ہو سکتا ہے؟وہاں آپ مقامی آبادی کو نظر انداز کر کے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اور پھر اگر یہ ملک ٹرانزٹ کے لیے استعمال ہونا بھی ہے تو یہ افراد یہاں، مبینہ طور پر، تین ہفتے کیوں ٹھہریں گے؟ کیا اگلی فلائٹ سے یہ اپنے ملک کو نہیں جا سکتے؟ کیا گارنٹی ہے کہ ان میں ہمیں نقصان پہنچانے والے لوگ شامل نہیں ہوں گے؟ آخر تین ہفتے یہاں رہنے کا کیا مقصد ہے؟ پھر اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ ہمیں نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ہمارا بہت بڑا رول ہے! ہم توجہ کا مرکز بننے جا رہے ہیں۔ ایک نئی ”ونڈو “ کھل رہی ہے۔ ہر ایسے موقع پر ہم نے یہی کہا اور پرائی آگ میں ک±ود گئے۔ افغانستان میں روسی آئے تو جنگ کی ذمہ داری ہم نے سنبھال لی۔ سرحد کی لکیر مٹا دی۔ دنیا بھر کے جنگجوﺅں کو اپنے ملک کی سر زمین پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔ ملک کے طول و عرض میں اسلحہ اور منشیات کی منڈیاں کھل گئیں۔ راکٹ تک بکنے لگے۔ سرکاری ملازموں کی اولادیں صنعت کار بن گئیں۔ شخصی ایمپائرز کھڑی کر لی گئیں‘ مگر ملک اتنا ہی غریب رہا۔ یہ جو آج پھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ رہی ہے اور نئے مواقع مل رہے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ گزشتہ مواقع میں آپ کے نفع و زیاں کا حساب کیا رہا! ضیاالحق اور پرویز مشرف کے زمانوں میں خوب خوب مواقع ملے، دنیا کو ہماری ضرورت پڑی۔ ہم اپنے شہریوں کو ایک ایک ہزار ڈالر میں فروخت تک کرتے رہے تو کیا ہم امیر ہو گئے؟ اُس وقت بھی ذاتی فائدے لیے گئے اور ملک کے لیے کچھ نہ کیا گیا اور آج بھی ہم لوگ ذاتی فوائد لے کر یا اچھا بننے کے لیے ایک فون کال پر لیٹ جانے والے لوگ ہیں۔ بہرکیف ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کل تک آئی ایم ایف جس نے صرف 6ارب ڈالر کا قرضے دینے کے لیے حکومت وقت سے ناک کی لکیریں رگڑوائیں، اُس نے آج پاکستان کو پونے تین ارب ڈالر کی یکمشت ادائیگی بھی کر دی۔ اور ہم نے اسی پر اکتفاءکر لیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مصر نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ساتھ دینے کے لیے اپنے تمام قرضے معاف کروائے تھے، جب کہ پاکستان بھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ مین کے طور پر لڑتا رہا ہے مگر ہم صرف ”جی حضوری“ پر اکتفا کرتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان کے بارڈرز تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ بھی تو لگتے ہیں کیا وہاں ہوٹل نہیں ہیں؟ کیا ان ہزاروں افراد کا انخلا ان ملکو ں کے ذریعے نہیں عمل میں لایا جا سکتا؟ صرف پاکستان ہی ہر بار کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس لیے کہ پاکستان اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے۔ پھر جب استعمال کرنے والے، استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں تو ہم آہ و زاری اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیا گیا! کبھی ہم سسکیاں بھرتے ہیں کہ ہمیں ٹیلی فون نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم پھر ک±ود پڑتے ہیں۔ ہم عجیب مومن ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔یہ درست ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی خوشی اور غم میں شریک ہیں۔ ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔اور تمام پناہ گزین واپس اپنے ملک میں چلے جائیں مگر اس سے پہلے چلیں مان لیا کہ اندر کھاتے پاکستان پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس صورتحال کو سنبھالے اورہم بغیر کسی وجہ کے مامے چاچے بننے کے لیے تیار ہیں تو کم از کم ہمیں اس ملک کی خاطر بڑے مطالبات کرنے چاہیئں ، جیسے قرضے معاف کروانے کے لیے دباﺅ ڈالنا چاہیے تاکہ پاکستان مضبوط ہو۔ اور ہم خسارے سے باہر نکل آئیں! #afghan mahajreen #pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan