نیویارک بمقابلہ پاکستان، فرق سسٹم کا؟

انسانی تاریخ کم و بیش 28لاکھ سال پرانی ہے، لیکن اُس وقت کے انسان کو ”وحشی“ انسان کہا جا تا تھا،جبکہ آج سے تین لاکھ سال پہلے کا انسان (جن میں بہت سی انسانی انواع شامل تھیں) چھوٹے چھوٹے سماجی گروہ بنا کر رہنے لگا جو شکار کر کے اور اشیاءخوردونوش اکٹھی کر کے گزر بسر کرتا تھا۔ ان کے پاس جلانے کے لیے آگ تھی، پتھر کے اوزار تھے ، رہنے کے لیے خیمے اور وہ مردوں کو دفنانے بھی لگے تھے لیکن سب سے زیادہ اہم یہ کہ وہ بولنے کے لیے زبان ایجاد کر چکے تھے، لیکن رہنے کےلئے کوئی قانون وضع نہ کر سکے تھے۔ لگ بھگ پچاس ہزار سال پہلے انسانی ایجادات میں بھاری مقدار میں اضافہ ہوا۔ اوزار اور ہتھیار زیادہ نفیس ہو گئے اور تمدن مزید پیچیدہ ہو گیا ، پھر 10ہزار سال قبل انسان نے باقاعدہ قواعد و ضوابط کے ساتھ رہنا سیکھ لیا تھا، کیوں کہ بغیر کسی ضابطے کے رہنے سے بہت سی خرابیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ پھر قوانین بننے شروع ہوئے اور انسان کو رہنے کا ڈھنگ بھی آگیا اور پھر 4ہزار سال قبل کا باقاعدہ لکھا ہوا قانون جو ابھی تک سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے جسے حمورابی کا قانون کہا جاتا ہے، یہ قوانین آٹھ فٹ لمبے پتھر کی بارہ سلوں پر کندہ کروائے گئے تھے۔پتھر کی ان سلوں کو 1901 میں فرانسیسی ماہرین نے دوبارہ دریافت کیا ۔ ان قوانین کو اب تک دنیا کا سب سے قدیم قوانین کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد آئین کے حوالے سے Celebration کرنا نہیں ہے،بلکہ بتانا ہے کہ قوانین یا ضابطہ اخلاق نے ہی انسان کو ”وحشی“ سے پرامن انسان بنایا ہے،اسی لیے آج ہر ملک کا اپنا آئین ہے، جو ملک آئین کا جتنا پابند ہے وہ اُتنا ہی سکون میں ہے، اور جس ملک میں آئین نہیں ہے، یا آئین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے وہ ملک جنگل کے قوانین سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔میں آج کل امریکا(نیویارک) میں ہوں، یہاں جس ریاست کا بھی سفر کرتا ہوں تو قانون کی پاسداری کے حوالے سے ہر ریاست کو قانون کے سامنے جھکا ہوا پاتا ہوں۔ دل کڑھتا بھی ہے، اور افسردہ بھی ہوتا ہے کہ اے کاش ایسا منظم سسٹم کہیں پاکستان میں بھی رائج ہوجائے! لیکن کیا کروں وطن عزیز قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے 180ممالک کی فہرست میں153ویں نمبر پر آتا ہے۔ اس پہلے 50ممالک میں آتے ہوئے بھی شاید صدیاں درکار ہوں گی۔ اور اگر یہاں قانون کی پاسداری کے حوالے سے 153واں نمبر ہے تبھی تو پھر مینار پاکستان جیسے واقعات ہوتے ہیں، یقین مانیں کہ مہینہ ہونے کو ہے، ذہن سے مینار پاکستان کا واقعہ ہی نہیں نکل رہا۔ یہاں رش والی جگہوں پر بھی جاتا ہوں تو کہیں خوف نہیں آتا، فیملی کے ہمراہ گھوم رہا ہوں لیکن کہیں کوئی خدانخواستہ کوئی برا واقعہ نہیں ہوا۔ بلکہ گزشتہ روز یہاں کی ایک معروف جگہ ”ٹائم اسکوائر“ گیا، امریکی شہر نیویارک میں یہ وہ جگہ ہے کہ جو ہر قسم کے جشن اور تقریبات کا مرکزہے، جن میں نیوائرنائٹ سرفہرست ہے۔ یہاںکئی بلندوبالا عمارات اور خوبصورت خریدوفروخت کے مراکز اور کھانے پینے کیلئے بے تحاشا ہوٹل ریسٹورانٹ اور دوکانیںہیں، خصوصاً یہاں کی42ویں گلی جس سے لاکھوں لوگ گزرتے ہیںآتے ہیں جاتے ہیں خوش ہوتے ہیں، یہاں لوگ کسی بھی ڈر خوف سے بے پرواہ خوش و خرم گھوم پھر رہے ہوتے ہیں،میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہاں آپ آدھا گھنٹہ گزار لیں، دنیا کے ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو آپ یہاں پائیں گے! حتیٰ کہ کثیر تعداد میں پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی بھی وہاں موجود ہوں گے اور پھر خواتین کی بھی کثیر تعداد رات کے پچھلے پہر تک آپ کو گھومتی نظر آئیںگی، موسم سخت سرد نہ ہوتو آپ کو 60فیصد خواتین منی اسکرٹ میں نظر آئیںگی، کچھ تو انتہائی کم لباس میں بھی آپ کو نظر آئیں گی، مگر کیا مجال کہ آپ اُن پر لپک سکیں، یا اگر وہ آپ کو ”فلائنگ کس “کر دیں تو آپ جھرمٹ سمیت اُس پر حملہ کر کے اُس کے کپڑوں کو تار تار کردیں۔ کسی کی جرا¿ت نہیں کہ وہ کسی پر آوازیں کسے، یا کسی کو ہراساں کر ے، حالانکہ امریکی ہم سے زیادہ صحت مند ہیں، اور جو امریکی کالے ہیں وہ تو ہم سے بہت زیادہ ہی صحت مند ہیں، اس لیے کسی کو ہراساں کرنے میں اُنہیں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اُن میں بھی جرا¿ت نہیں ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ بھی لگا دیں، یا کسی کو چھیڑنے کے بارے میں بھی سوچ سکیں ۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایسا صرف وہاں اور یہاں کے سسٹم میں فرق کی وجہ سے ہے۔ وہاں لوگ قوانین کی پوجا کرتے ہیں جبکہ یہاں قوانین کو پاﺅں تلے روند دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو امریکی پاکستانیوں سے زیادہ آﺅٹ آف کنٹرول ہیں،بدتمیز ہیں،ان میں نسل پرستی کا عنصر زیادہ ہے، ان میں اکڑ بھی دوسری قوموں سے زیادہ ہے، ویسے ہو بھی کیوں ناں؟ امریکا آج بھی سپر پاور ہے، دنیا میں سب سے زیادہ تعلیمی ادارے امریکہ میں ہیں،دنیا کی ٹاپ ٹین یونیورسٹیاں بھی امریکہ میں ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی افراد امریکہ میں رہتے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ چیرٹی کے ادارے اور افراد امریکہ میں ہیں، بل گیٹس اور وارن بفٹ جیسے ”سخی“ لوگ بھی امریکی ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدان امریکہ میں ہیں، دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ڈیلر امریکہ ہے، دنیا میں سب سے زیادہ ایجادات امریکہ میں ہو رہی ہیں،دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم امریکہ کے پاس ہیں، امریکہ کا دفاعی بجٹ سب سے زیادہ ہے، امریکہ جب چاہے اور جہاں چاہے اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے، امریکہ کا انٹیلی جنس سسٹم سب سے مضبوط ہے، امریکہ کے جمہوری سسٹم کی مثالیں دی جاتی ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کے دفاتر امریکہ میں ہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی قونصل کا اجلاس بھی امریکہ میں ہوتا ہے اور دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرنے اور دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کے اجلاس اور خفیہ میٹنگز بھی امریکہ میں ہوتی ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں امریکہ میں ہیں اور دنیا کا 90فیصد میڈیا امریکہ سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں وجوہات ایسی ہیں، کہ امریکی اُن پر فخر بھی کر سکتے ہیں اور بغیر کسی وجہ کے اکڑ بھی سکتے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی بھی سسٹم سے باہر قدم رکھ سکے۔ آپ لاکھ پھنے خان ہیں، مگر قانون سے بالا تر نہیں ہیں۔ کیوں کہ یہاں ہر چیز ایک سسٹم کے تحت چل رہی ہے، اگر یہاں انسانوں کو آپ جانوروں کے پنجرے میں رکھ دیں گے تو آپ کو ریچھ، بھیڑیا، یا کوئی دوسرا جانور کچھ نہیں کہہ سکتا ہے، کیوں کہ حملہ کرنے کی اُنہیں سسٹم اجازت نہیں دیتا ۔ یہاں پر لاءاینڈ آرڈر کی اس قدر Implementationہے، کہ آپ کرائم کرنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے؟ کسی کی جرا¿ت نہیں ہے کہ وہ غلط پارکنگ کردے،کسی کی جرا¿ت نہیں ہے کہ وہ جرمانہ ادا نہ کرے، یہاں تو لوگوں کی آدھی زندگی پارکنگ تلاش کرنے میں گزر جاتی ہے، لیکن غلط پارکنگ کے بارے میں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے! نیویارک کی سڑک پر بس کی لین ہے، کوئی جنگلہ نہیں ہے، کوئی اُس لائن پر آکر دکھائے، اگر کوئی اُس لائن پر آبھی جاتا ہے، تو اُس کی گاڑی کیمروں کی آنکھ سے نہیں بچ سکتی۔ اور جرمانے بھی کم نہیں ہیں، بلکہ پہلی دفعہ جرمانہ اگر ڈیڑھ سو ڈالر کا ہو گا تو اگلی بار ڈھائی سو ڈالر اور پھر اگلی بار 5سو ڈالر تک جرمانہ ہوگا،اور اگر مجرم پھر بھی کوئی غلطی کرتا ہے اُسے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں امریکا میں روز مرہ کی اشیاءمیں آپ کو 60فیصد تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، لیکن کسی کی جرا¿ت نہیں کہ وہ ٹیکس چوری کرے۔ اور پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے حوالے سے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں، سب کچھ سامنے پڑا ہے۔ یہاں کی عدالتیں انصاف دیتی ہیں، جبکہ پاکستان میں آج بھی 30لاکھ سے زائد کیسز زیر التواءہیں۔ یہاں کسی بنک کی جرا¿ت نہیں ہے، کہ وہ اپنے کلائنٹ سے بدتمیزی کرے، یا اُسے ہراساں کرے ۔ جبکہ پاکستانی بنک دنیا کے سب سے زیادہ پیسہ کمانے والے بنک بن چکے ہیں، پاکستان میں جس کو بنک بنانے کا لائسنس مل جاتا ہے وہ ارب پتی بن جاتا ہے، مارک اپ کے حوالے سے پاکستانی بنکوں کا دنیا بھر میں کوئی نعم البدل نہیں ہے، پاکستان میں جو کسان قرضے پر ٹریکٹر حاصل کرتا ہے اُسے اپنی جگہ بیچ کر ٹریکٹر کا قرض اُتارنا پڑتا ہے، جبکہ امریکی بنک وہاں کے عوام کم سے کم مارک اپ پر قرضے دیتے ہیں، جس سے وہاں کے 90فیصد لوگ اپنا گھر بناتے یا کوئی بھی کاروبار شروع کر سکتے ہیں ۔ آسان قسطیں ہوتی ہے، دینے میں بھی کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کمزور سسٹم کی وجہ سے پاکستان میں کرپٹ لوگ آسانی سے بچ نکلتے ہیں ، جبکہ امریکا میں کرپٹ افراد کا بچ کر نکلنا ممکن ہی نہیں ہے، پھر اگر نوازشریف یا زرداری امریکا میں ہوتے تو کیا وہ بچ سکتے تھے؟ پھر کوئی پراپرٹی ڈیلر امریکا کو بلیک میل کر سکتا ہے؟ جبکہ اس کے برعکس ہمارے سیاستدانوں کو خوف نہیں ہے، جس کا دل چاہتا ہے، وہ کرپشن کرتا ہے اور عوام کو خوار کرتا ہے، ، ایڈن وغیرہ جیسی سوسائیٹیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ پھر یہاں پر ریپ کا مجرم جیل بچ کر ہی نہیں آتا، اگر بچ کر آجائے تو پورے امریکا کو بتایا جاتا ہے کہ یہ بندہ Rapistہے، یہ فلاں جگہ پر رہائش پذیر ہے، اس سے سب نے احتیاط برتنی ہے۔ اُس کا جینا مشکل ہوجاتا ہے، آپ کمپیوٹر میں چیک کرلیں، آپ کو علم ہو جائے گا کہ کس کس جگہ پر Rapistموجود ہیں، اور کتنی تعداد میں موجود ۔ جبکہ یہاں معذرت کے ساتھ جلد ہی آپ سنیں گے کہ مینار پاکستان کیس کے ذمہ داران کو باعزت بری کر دیا گیا ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے سسٹم کو بہتر بنایا جائے، کسی بھی جرم میں ملوث افراد کو سزا دی جائے، یعنی جزا اور سزا کے عمل کو بہترین بنایا جائے، تب ہی ہم مصائب سے نکل سکتے ہیں ورنہ اگر سسٹم نہیں تو دنیا ہمیں وحشی بھی کہہ دے تو کیا حرج ہے، کیوں کہ ہمارے بعض اعمال کسی وحشی جانور سے کم تو نہیں! #US System vs Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhyan