افغانستان: کاہے کی خوشیاں!

برصغیر کے لوگوں میں خواہ وہ مسلمان ہوں، سکھ ہوں یا عیسائی سبھی کے ڈی این اے کوڈ کا ایک حصہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت ضرور رکھتا ہے، اور پھر جب ڈی این مطابقت رکھتا ہے تو پھر بہت سی چیزیں ہیں جو میل کھاتی ہیں، مثلاََ چہروں کی بناوٹ، رنگت ایک جیسی، قد کاٹھ و جسمانی ہیت تقریباََ ایک جیسے،کھانا پکانا بھی ایک جیسا، ہنسی خوشی سب کی ایک جیسی، رسم و رواج کم و بیش ملتے جلتے اور تو اور عادات میں بھی ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔ جیسے میں کل ایک امریکی ریسٹورنٹ میں گیا وہاں کچھ انڈین بھی بیٹھے تھے اور پاکستانی بھی۔ ہر کوئی ایک ہی بات ڈسکس کر رہا تھا کہ افغانستان میں کیا ہوا؟ انڈین کہہ رہے تھے یہ سب کچھ کیا کرایا پاکستان کا ہے، اور ساتھ دھیمے لہجے میں پاکستان کو داد بھی دے رہے تھے کہ اچھا ہاتھ مارا ہے، دوسری طرف پاکستانی بھی شیخیاں بگھارنے میں مصروف تھے کہ اچھا ہوا انڈیا کے ساتھ ہاتھ ہوگیا! ورنہ ہماری کنڈ (کمر)نیچے لگ جانی تھی۔ حالانکہ ان میں سے بہت سے پاکستانی و ہندوستانی وہ افراد تھے جو گزشتہ 30، 30سال سے امریکا میں رہ رہے تھے، اور وہاں کے یہ نیشنلٹی ہولڈر بھی تھے۔ لیکن دل اُن کا وہیں برصغیر میں اٹکا ہوا تھا، عادتیں وہی تھیں کہ ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ “ کے مترادف یعنی دونوں ممالک کو افغانستان کی شکل میں ایک” شغل“ مل گیا ہے، آپ خود دیکھ لیں دونوں ملک کے عوام اور میڈیاسارے کام چھوڑ کر اسی فکر میں لگا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ حالانکہ سپر پاور کو اس جنگ میں مبینہ شکست کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی ان دونوں ملکوں کے عوام کو ہے۔ لیکن کیا کریں وہی عادت سے مجبور بس ایک شغل ہاتھ آ گیا ہے، اور اسی پر زور دیے جا رہے ہیں۔ اور پھر عادت سے مجبور اتنے ہیں کہ گزشتہ روز اسرائیل کی ایک سخت سیکیورٹی والی جیل سے 6فلسطینی قیدی سرنگ نکال کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ....بھارتی میڈیا اس کو شدت پسندی سے جوڑ رہا ہے جبکہ ہمارا میڈیا اسے ”اسلام کی فتح“ سے جوڑ رہا ہے۔ حالانکہ یہ معاملات کسی بھی ملک کی اندرونی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ہاں ہلکی پھلکی خوشی اسی حوالے سے ضرور ہوتی ہے کہ ہم نے امریکا، اسرائیل یا بھارت کے کسی بھی سطح پر شکست تو دی،،، مگر اس خوشی کو ہم اپنے لیے کیوں نہیں استعمال کرتے جیسے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال کر ، یا اپنے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر کے؟ اور پھر اگر ہم افغانستان کی صورتحال ہی کو دیکھیں تو قارئین کو یاد ہوگا کہ جب نائن الیون ہوا تو ہماری عوام نے گلی محلوں میں مٹھائیاں تقسیم کیں، بھنگڑے ڈالے، کہ امریکا کو ”شکست“ ہوگئی۔ لیکن کیا کسی کو یاد بھی ہے کہ وہ بھنگڑے اور مٹھائیاں پاکستان کو کس ریٹ پر ملیں؟اُن کی قیمت تھی 70ہزار لاشیں اور 100ارب ڈالر۔ لہٰذافی الوقت افغان صورتحال سے بھی ہمیں محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے، پاکستان کو طالبان کی فتح کا کریڈٹ لینے کی بالکل کوشش نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ کریڈٹ آنے والے دِنوں میں پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور پھر پاکستان مخالف عناصر عالمی برادری میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ہاں یہ کام وزارت خارجہ کا ضرور ہے کہ اُنہوں نے طالبان حکومت کو کس حد تک تسلیم کرنا ہے، کس حد تک اُن کی معاونت کرنی ہے، اور اگر دنیا طالبان کے خلاف ایک بار پھر محاذ کھڑا کرتی ہے تو پاکستان کو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے! لیکن باقی ملک تو اپنا اپنا کام کرے! اور پھر یہ کیا کہ ہم بغیر سوچے سمجھے خوشیاں منانا شروع کر دیتے ہیں، اپنی حالت تو ہم دیکھیں کہ خوش ہو رہے ہیں امریکہ کی افغانستان میں شکست پر۔ امریکہ نے ویتنام میں بھی شکست کھائی تھی۔ وہ عراق میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔ لیکن اُس کی طاقت میں کہیں کوئی فرق پیدا ہوا؟ پھر ذرا سوچیں کہ اگر امریکا ناکام بھی ہوا ہے تو امریکی ناکامی کے بعد ہم وہی فقیر کے فقیر۔ وہی ہمارا کشکول اور اُس کے استعمال میں وہی ہماری ہنرمندی۔ ترقی مغربی دنیا کر رہی ہے یا چین اور جاپان۔ اِس وقت نیا مقابلہ بن رہا ہے امریکہ اور چین کے درمیان۔ اِن مقابلوں میں ہمارا کوئی ذکر ہے؟اگر ذکر نہیں ہے تو خوشی کس بات کی ہے؟ ہم سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین تو بن نہیں رہی اور باتیں امریکی شکست یا مغرب کی شکست کی کرتے ہیں، ہماری معیشت آج بھی دنیا کے 131ملکوں سے نیچے ہے، ہماری کرپشن میں رینکنگ بھی 128ویں نمبر پر ہے، ہمارا عدالتی نظام 154ویں نمبر ہے، ہم گڈگورننس کے لحاظ سے بھی 110ویں نمبر پر کھڑے ہیں، ہمارا شمار دنیا کی کرپٹ ترین اور ناپسندیدہ ترین قوموں میں ہوتا ہے، ہمارا پاسپورٹ عزت و آبرو کے لحاظ سے دنیا کے آخری چار نمبروں میں آتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس امریکہ اب بھی دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے۔برطانیہ آج بھی طاقتور ملک ہے، جرمنی کی معیشت آج بھی دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتی ہے، چین و جاپان آج بھی اکیلے دنیا کی معیشتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں....اور پھر ہم کیا ہیں؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ باتیں شاید کڑوی بھی ہوں لیکن زمینی حقائق ہمیشہ کڑوے ہی ہوتے ہیں، اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان کبھی جنگ کا میدان ہی نہیں تھا، جیسا کہ ویتنام اُن کا میدان نہیں تھا۔لیکن ہم نے سٹریٹجک ڈیتھ کی آرزو میں پہلے پندرہ بیس ہزار جہادی مروائے پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار سے زاید شہید کروائے۔اس جنگ میں بیس سال کے دوران ڈھائی ہزار امریکی مرے، ان میں سے بھی زیادہ اتحادی افواج کے تھے،لیکن اس کے برعکس 110ارب ڈالر کا نقصان پاکستانی انفراسٹرکچر کو اٹھانا پڑا،افغانستان پر 83کھرب ڈالر لگے ، اُن میں سے بھی زیادہ پیسے اتحادی ملکوں کے تھے، لیکن کابل شہر کے سوا کوئی علاقہ امن نہ دیکھ سکا۔کابل کا بھی وہ حصہ جو چھاﺅنی بنا ہوا تھا، بلکہ امریکا و دیگر اتحادیوں نے تو ان ملکوں کو اپنے اسلحے کے لیے ٹیسٹ کیا ہے، جدید اسلحہ یہاں لا کر ٹیسٹ کیا جاتا رہا، جس میں کلسٹر بم سر فہرست ہے،امریکا معدنیات عراق و افغانستان سے نکال کر لے گیا ہے، عراق سے تیل لے گیا ہے، اُس کو کس چیز کا نقصان ہوا ہے؟ لہٰذازیادہ نقصان کس کا ہوا ہے؟ اور اب جب 22سو کلو میٹر کی سرحد کے پار ہمارے دوست حکمران بنے ہیں جن کے دل ہمارے لئے کشادہ اور آنکھوں میں مروت کے چراغ جلتے ہیں۔ہم نے جو خواہش کی وہ پوری ہو گئی۔اب کیا کرنا ہے ؟یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جب افغان طالبان نے اچھے طریقے سے حکومت سنبھال لی تو پھر اُس کے بعد کیا؟ لہٰذاسب سے پہلے ہمیں مسائل کی نشاندہی کی ضرورت ہے، پھر اُن کے حل کی طرف آنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر مسائل کی نشاندہی نہ ہو تو آپ کبھی مسائل حل کرنے کی طرف نہیں آسکتے! اس لیے ہمیں سب سے پہلے اپنا مورال بلند کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں یہ ذہن سے نکالنے کی ضرورت ہے کہ جس حال میںہم ہیں وہ ہمارا مقدر بن چکی ہے، پاکستان کا بڑا مسئلہ کرپشن نہیں ہے۔ کون سا معاشرہ ہے جس میں کرپشن نہیں؟لیکن ہمارا بڑا گناہ یہ ہے کہ ہمارا مورال ڈاﺅن ہے، اور شاید ہم بزدل بھی ہو گئے ہیں اوراس لیے جھوٹ اور منافقت ہم میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے۔ گھٹن سے معاشرے کو بیمار کیا ہوا ہے۔ غور سے اپنے آپ کو ہم دیکھیں، کوئی رمق زندگی یا شرارت کی ہم میں نظر آتی ہے؟ پوچھا جاتا ہے اولمپِک کھیلوں میں ہم میڈل کیوں نہیں جیت سکتے؟ زندہ لوگ میڈل جیتتے ہیں۔ ہمارا تو مورال ہی مرا ہوا ہے۔ اور رہی سہی کسر حکومتوں میں بیٹھے لوگ نکال دیتے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ عوام ٹھیک نہیں ہو سکتی اس لیے ان کو ان کے حال پر ہی چھوڑ دو۔ معذرت کے ساتھ نہ سکولوں کا نصاب یہاں پہ ٹھیک سے مرتب ہو پاتا ہے نہ کالجوں اور جامعات میں وہ ذہنی آزادی ہے جس سے کوئی نئی سوچ پیدا ہو۔ پھر قوم کی پسماندگی کا ہم رونا روتے ہیں۔ہمیں ان ظاہری خوشیوں سے باہر نکل کر سوچنا ہوگا، اس کے لیے صحیح قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا، اور پھر ہم سب کو مل کر اس ملک کو بچانا ہوگا، نئی ایجادات کرنا ہوںگی، ہر محاذ پر مقابلہ کرنا ہوگا، اور پھر اگر ایسا نہ ہوا تو ہم واقعی دوسروں کی خوشیوں میں واہ واہ کرنے والے یا دوسری کی غمی میں آہ آہ کرنے والے بن جائیں گے، اس سے زیادہ کچھ نہیں! #afghanistan or ham #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan