گورنمنٹ کالج لاہور :عظیم درسگاہ مگر!

آزما لیں،کیوں کہ آزمانہ شرط ہے! کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، آپ کو ”اولڈ راوینز“(گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التحصیل طلبائ) ضرور ملیں گے۔یعنی ایک بار ”اولڈ راوینز“ کو علم ہو جائے کہ اُن کے ”کالج فیلو“ اجنبی ملک میں اُن کے قریب ہی کہیں ”بھٹک“ رہے ہیں تو وہ آپ سے ضرور رابطہ کریں گے، اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیں گے اور سب دوست ایک جگہ اکٹھے ہو کر پرانی یادوں کو تازہ ضرور کریں گے۔ یہی میرے ساتھ بھی ہر بار ہوتا ہے، اس بار بھی امریکا میں موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے چند یار دوست (اولڈ راوینز) اکٹھے ہوگئے۔ اور خوب گپیں ہانکنے لگے، ہمارے قہقہوں کی آوازیں گونجنا شروع ہوئیں تو احساس ہوا کہ اب ہم لڑکپن میں نہیں بلکہ”بڑے“ہو گئے ہیں، لیکن کیا کریں گورنمنٹ کالج میں گزرے زندگی کے چار سال اگر آپ اگلے چار سو سال بھی زندہ رہیں تو آپ کو نہیں بھولیں گے! خیر باتیں ہوتی رہیں، کالج میں گزرے ہر لمحے کو یاد کر کے ذہن کو ترو تازہ کرتے رہے، لیکن ایک نسبتاََ” سنجیدہ دوست“ نے گورنمنٹ کالج لاہور کے معیار کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ موصوف نے فرمایا کہ اس وقت گورنمنٹ کالج کا معیار گر گیا ہے، اوردیگر غیر معروف ادارے آگے بڑھ گئے ہیں۔ میں نے اس پر دوستوں سے استفسار کیا کہ جناب ایسی بات نہیں ہے، گورنمنٹ کالج کا معیار اور نام آج بھی اُسی طرح قائم و دائم ہے۔ لیکن جو دوست وطن سے دور ہوتے ہیں وہ یقینا وطن کی زیادہ ”خبر“ رکھتے ہیں ، کیوں کہ اُنہیں وطن سے جڑی ہر چیز کی زیادہ یاد ستا تی ہے۔ بہرحال کالج کے معیار کو لے کر ہم دوستوں میں کافی لمبی بحث چھڑ گئی، بات گپ شپ سے ”مدلل گفتگو“ کی طرف بڑھ گئی، اب دوست پختہ دلیلیں دے رہے تھے، کہ آج کی انتظامیہ پہلے کے مقابلے میں کتنی کمزور ہے،آج کے وی سی پہلے وی سی کی طرح میرٹ پر نہیں ہیں، مزید یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا کہ اب اس عظیم ادارے میں سیاسی وابستگیاں بڑھ گئی ہیں، ہر بدلنے والی حکومت اپنا بندہ وائس چانسلر کے لیے منتخب کرتی اور اپنے پسند کے کام کرواتی ہے ۔ اسی وجہ سے وی سی کا دھیان کالج کے تعلیمی معیار کو پروان چڑھانا یا جدید خطوط پر استوار کرنا یا نئے کورسز متعارف کروانے پر نہیں بلکہ میرٹ کی دھجیاں اُڑانے پر ٹکا رہتا ہے۔ خیر بات ”دلیلوں“ پر آجائے تو ہر کوئی سامنے رکھے ہوئے موبائل کو ہاتھ میں پکڑتا ہے تو انٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے اُسی ”سنجیدہ دوست“ نے تعلیمی اداروں کی عالمی رینکنگ نکالی تو علم ہوا کہ آج کا گورنمنٹ کالج ایف سی کالج سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے جب لسٹ مجھے بھی دکھائی تو میں نے بھی ”دلائل “ کا بغور جائزہ لیا اور دیکھا کہ اس وقت ایف سی کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ (لمز) سمیت کئی یونیورسٹیوں کی رینکنگ گورنمنٹ کالج لاہور سے بہتر ہے، تو یقین مانیں میرے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ حالانکہ مجھے یاد ہے کہ ساری زندگی ایف سی کالج گورنمنٹ کالج سے پیچھے رہا ہے، کسی بھی طالب علم کی پہلی ترجیح گورنمنٹ کالج ہوا کرتی تھی، پھر ایف سی کالج اور پھر دوسرے کالجز ۔ مگر آج یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہی ہے کہ عالمی درجہ بندی کے مطابق گورنمنٹ کالج لاہورجو 2002ءکے بعد یونیورسٹی کے سٹیٹس میں بدل چکا ہے کی عالمی رینکنگ 796پر، جبکہ ایف سی کالج کی 751نمبر پر ہے، جبکہ دیگر بہترین اداروں کی بات کریں جو گورنمنٹ کالج لاہور سے اوپر چلے گئے ہیں اُن میں سرفہرست کامسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی آتا ہے جس کی عالمی رینکنگ 600ہے، جبکہ قائداعظم یونیورسٹی 634، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز634، عبدالولی خان یونیورسٹی 692، نسٹ694، آغاخان یونیورسٹی728، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد 731، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد736، لمز 746اور یونیورسٹی آف پشاور 748ویں نمبر پر ہیں ۔ یعنی گورنمنٹ کالج لاہور اس وقت ملک میں بھی پہلے نمبر سے 35ویں نمبر پر چلا گیا ہے۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں کہ اس عظیم درسگاہ سے 34درسگاہیں اوپر چلی گئیں، مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ادارے کو یہاں تک پہنچانے والے اپنی غلطی کا اعتراف بھی نہیں کریں گے۔ ہم اولڈ راوینز ہیں، یہ ہمارا مادر علمی رہا ہے اور آج اس کے معیار کو دیکھ کر یقین مانیں دل ڈوب سا گیا کہ آخر کیوں اس ملک میں ہر چیز کے معیار کا گراف اوپر سے نیچے آرہا ہے، خیر دوستوں کی گپ شپ ختم ہوئی تو میں بھی گھر آگیا۔ گھر آتے ہی ٹائم دیکھا تو رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا، یعنی مقامی وقت کے 4بج چکے تھے، سوچا کہ اس وقت پاکستان میں دوپہر کا وقت ہو گا، تو راقم نے ایک پرانے وی سی صاحب جن سے اچھی سلام دعا تھی ، اُن کو کال ملا لی۔ حال احوال جاننے کے فوری بعد میں نے اُن سے ہی دریافت کیا کہ یہ سب معاملہ کیسے ہوا؟ آخر کیا وجہ بنی کہ ہمارا مادر علمی جو معیار تعلیم میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتا تھا، کیسے نیچے آگیا؟ تو انہوں نے اپنے سے پرانی انتظامیہ کے پرخچے اُڑانے شروع کر دیے، میں نے اُنہیں ایک واقعہ سنایا کہ جناب! مشرف کے زمانے میں جنرل توقیر ضیاءپی سی بی کے چیئرمین بن گئے( اُن سے پہلے چیئرمین کرکٹ بورڈ سیف الرحمن تھے)، جنرل توقیر ضیاء”خبریں“ کے فورم میں آئے، تو مسلسل سیف الرحمن کے خلاف بولتے رہے، تو میں نے اُن سے سوال کیا کہ جنرل صاحب باتیں تو آپ کی سوفیصد ٹھیک ہیں، چلیں یہ بھی مان لیا کہ پہلے والی انتظامیہ کرپٹ تھی، مگر اب آپ کی صورت میں ایک صالح قیادت ہمیں میسر ہے، لیکن رینکنگ ہماری پیچھے چلی گئی ہے، حالانکہ سیف الرحمن کے زمانے میں ہم نے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا تھا، جبکہ آپ کے دور میں ہم سیمی فائنل کے لیے ہی کوالیفائی نہ کر سکے؟میری اس بات کی وی سی صاحب کو سمجھ آگئی کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں، البتہ انہوں نے بات کو گول کیا اور ”اللہ حافظ“ کہہ کر ایک ”میٹنگ“ میں چلے گئے۔ لیکن چین مجھے ابھی بھی نہیں آرہا تھا، میں نے موجودہ انتظامیہ کے لوگوں کا نمبر تلاش کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ صاحب! انتظامیہ کا کوئی بھی بندہ اولڈ راوینز نہیں ہے! مرتا کیا نہ کرتا ،چپ سادھ لی اور باقی معاملات کی طرح اس پر ہم نے مٹی ڈالنے پر ہی اکتفا کیا۔ کیوں کہ ہم نے اپنے سسٹم میں چیزیں بہتری کی جانب جاتی کم ہی دیکھی ہیں، حالانکہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ جی سی یو کی موجودہ انتظامیہ اچھی ہے یا نہیں ، ہمارا اُن سے کوئی ذاتی اختلاف بھی نہیں ہے، لیکن بات تو یہ ہے کہ معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ”ٹارگٹ“ کس نے سیٹ کرنا ہے؟ کیا ان لوگوں نے جو سیاست کے کھلاڑیوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں؟یقین مانیں کہ میں اس لیے نہیں کڑھ رہا کہ یہ میرا مادر علمی رہا ہے بلکہ اس درسگاہ کی تاریخ تو دیکھیں کہ کیسے کیسے شاہکار اس نے پیدا کیے ہیں۔ یہاں سے 1864 ءجب یہ کالج تعمیر ہوا اُس وقت سے اعلیٰ ترین شخصیات جن میں سر گنگا رام اور کنہیا لال جیسے نامور انجینئرز سمیت سینکڑوں عظیم لوگوں نے تعلیم حاصل کی۔ پھر علم و ادب، فن، سائنس، سیاست، کھیل غرض زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کا تعلق اسی تاریخی تعلیمی ادارے سے ہے جن میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، پطرس بخاری، ناصر کاظمی، ساحر لدھیانوی، ڈاکٹر سمر مبارک مند، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ائرچیف مارشل مصحف علی میر، نواز شریف، میر ظفر اللہ جمالی، یوسف رضا گیلانی، سابق بھارتی وزیراعظم اندر کمار گجرال، چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ، ٹینس سٹار اعصام الحق سمیت دیگر بے شمار نامور شخصیات شامل ہیں۔ جی سی یونیورسٹی لاہور دو نوبل انعام یافتہ شخصیات ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ اور ڈاکٹر عبدالسلام کی مادر علمی ہے۔ معروف بھارتی اداکار بلراج ساہنی اور دیوآنند بھی اسی تعلیمی ادارے سے منسلک رہے تھے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے پانچ وزاءعظم کا تعلق بھی اسی ادارے سے ہے۔پھرہماری بیوروکریسی کا ایک بڑا حصہ راوینز پر ہی مشتمل ہوتا تھا، جیسے سابقہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک بھی اولڈ راوینز تھے، میجر اعظم سلطان ، خضر حیات گوندل ، میجر نوید اکرم، کامران لاشاری وغیرہ بھی اولڈ راوینز ہی ہیں۔ پھر یہ ادارہ کبھی سپورٹس میں پیچھے نہیں رہا تھا مجھے آج بھی یاد ہے کہ سپورٹس کی بڑی ٹرافی گورنمنٹ کالج کی ہوا کرتی تھی، جبکہ باقی کالج کسی ایک آدھ کھیل میں آگے نکلتے تھے لیکن سپورٹس میں بھی گورنمنٹ کالج ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے، یعنی اس کی مثال ایسی ہے جیسے اولمپکس میں امریکا و چین سے زیادہ میڈل لے کر اوور آل ٹورنامنٹ جیت جاتے ہیں، تو گورنمنٹ کالج کا بھی یہی حال ہوتا تھا۔ اب وہ سپورٹس رہیں، نہ تعلیم رہی اور نہ ہی وہ انتظامیہ جو سفارش کرنے والے کو گیٹ سے باہر پھینک دیا کرتی تھی۔ بہرکیف جب یہ ادارہ اس قدر بڑا ہے اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے بھی عام شخصیات نہیں ہیں تو ہم کیسے آنکھیں بند کر کے اس کی تباہی کا تصور کر سکتے ہیں؟ میرا بیٹا امریکا کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، میں وہاں اکثر چلا جاتا ہوں، وہاں جس چیز پر اکثر اوقات توجہ دی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پڑھا کیا رہے ہیں؟یعنی Learning Out Comesکیا ہیں؟ پاکستان میں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، میرے خیال میں ڈنر کی ٹیبل پر جو سب سے اہم چیز ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کھانا کیا کھا رہے ہیں؟کرسی کیسی ہے، ٹیبل کیسی ہے، چمچ کیسے ہیں؟ یا برتن کیسے ہیں؟ یہ سب بعد کی باتیں ہیں، اگر کھانا اچھا نہیں ہے تو ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس لیے ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا تعلیمی معیار کیوں گر رہا ہے؟ کیوں آج بھی ہم بیوروکریٹس پیدا نہیں کر رہے؟ کیوں آج بھی اب کنگ ایڈورڈ کالج میں گورنمنٹ کالج سے اتنے زیادہ بچے کیوں نہیں جا رہے ؟ کیوں ہم نے فی زمانہ اپنے آپ کو جدید تقاضوں کے مطابق نہیں بدلا؟ معذرت کے ساتھ یہاں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی کام کے خراب ہونے کی ذمہ داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس جانب توجہ دیں اور دیکھیں کہ ہمارا ایک عظیم مادر علمی کیوں سیاست کا شکار ہو کر رہ گیا ہے؟ ورنہ ہمارے لیے یہ درسگاہ بھی پچھتاوے کا باعث رہ جائے گی اور ہم ہمیشہ کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں گے! #GCU #GC University Lahore #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan