ماضی بھول جائیں!اورکرپشن کے خلاف مربوط سسٹم بنائیں!

ملکی سیاسی اُفق پر گزشتہ دو تین دن سے اوپر نیچے حکومتی اور اپوزیشن کے عہدیداروں کی دسیوں پریس کانفرنس ہو چکی ہیں، ان پریس کانفرنسوں کا عنوان ایک ہی ہے، اور وہ ہے ”لندن فیصلہ“! لندن فیصلہ کیا اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر دونوں اطراف کو ایک بات کی داد تو دینا پڑے گی کہ بھیا! دونوں کے دلائل بڑے ”مضبوط “ ہیں۔ اتنے ”مضبوط “کہ جھوٹ بھی پناہ مانگ رہا ہوگا، وہ اس لیے کہ نہ تو اپوزیشن اتنی پارسا ہے اور نہ ہی حکومت اُنہیں پکڑنے میں کامیاب ہو رہی ہے، اس لیے سب لوگ Face Saving گیم کھیل رہے ہیں، جو کہ ملکی مفاد کے لیے نا تو کسی کام کی ہے اور نہ ہی اس سے عوام کی صحت پرجو ہر گزرتے دن خراب ہو رہی ہے پر کوئی فرق پڑنے والا ہے۔اب اگر ہم لندن کیس کے حوالے سے بات کریں تو قارئین! شہباز شریف اور ان کے خاندان کے چھ افراد پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت نیب ریفرنس پر کیس نیب عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے۔ سلمان شہبازاور ان کی بہنیں اس کیس میں تفتیش کا حصہ نہیں بنیں جبکہ نصرت شہباز اپنے وکیل کے ذریعے ٹرائل کا حصہ بن رہی ہیں اس سے پہلے انہیں بھی اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔اور اہم بات یہ ہے کہ لاہور میں چلنے والے اس ٹرائل کا لندن میں ہونے والی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں۔ اور دوسری اہم بات کہ لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنے طور پر سلمان شہباز کے دو اکاﺅنٹس میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی بنیاد پر از خود تحقیقات کا آغاز کیا اور ازخود ہی کلئیر کیا۔ یہ تحقیقات اور کلئیرنس صرف سلمان شہباز کے لیے کی گئی ہیں اس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا یہ موقف اپنانا کہ لندن کی عدالت اور نیشنل کرائم ایجنسی کے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری کر دیا ہے ، درست معلوم نہیں ہوتا کیوںکہ اس فیصلے میں شہباز شریف کا کوئی ذکر تک نہیں نہ ہی یہ شہباز شریف سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ آپ مستقبل قریب میں بھی دیکھ لیجئے گا کہ شہباز شریف کیس کا پاکستان میں بھی کچھ نہیں بنے گا کیوں کہ یا تو موجودہ حکومت اس قابل نہیں کہ وہ کچھ ثابت کر سکے یا پورے کا پورا سسٹم ہی بیٹھا ہوا ہے۔ اور میں ایک سے زیادہ مرتبہ اس بات کا ذکر اپنے کالموں میں کر چکا ہوں کہ خان صاحب ان سب کو چھوڑ دیں، ان پر فضول پیسہ اور وقت برباد کرنے کے بجائے ایسا سسٹم بنا ڈالیں کہ دوبارہ کوئی کرپشن نہ کر سکے کیوں کہ میاں نوازشریف کے کیسز سے لے کر احسن اقبال کے کیسز تک ، رانا ثناءاللہ ، حمزہ شہباز، مریم نواز ، آصف علی زرداری، شرجیل میمن، خورشید شاہ اور دیگر رہنماﺅں سمیت ہر ایک پر مقدمات بنے مگر مجال ہے کسی کو سزا ہوئی ہو۔ بعض رہنما ءتو ایک ایک سال تک بھی جیل میں رہے یا نیب کے پاس رہے مگر مجال ہے کسی ایک نے بھی کرپشن کا پیسہ واپس کیا ہو۔ اور رہی بات موجودہ حکومت کی تو موجودہ حکومت کے پاس اب 2سال سے بھی کم عرصہ رہ چکا ہے۔ اور عمران خان کرپشن ختم کرنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر پاکستانی قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن حکومت بدعنوانی میں کمی تو درکنار کسی ایسے شخص کے خلاف بھی کوئی فیصلہ کن عدالتی حکم سامنے نہیں آ سکا جنہیں حکومت تواتر سے ’چور اور لٹیرے‘ قرار دیتی رہی ہے۔ اس لیے خان صاحب اور ان کی کابینہ کو چاہیے کہ وہ لمبی چوڑی بحثیں یا تقریریں کرنے کے بجائے ایسی قانون سازی پر توجہ دیں کہ دوبارہ کرپشن کرنے کے بارے میں کوئی بھی سو مرتبہ سوچے۔ یا اس حوالے سے سوچے کہ بدعنوانی کے خلاف پاکستانی معاشرہ کیوں تسلسل سے ناکام ہو رہا ہے۔ کیوں کہ جب بھی کسی مرض کا علاج شروع کیا جاتا ہے تو اس کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لے کر مرض کی شدت اور گہرائی جانچی جاتی ہے اور پھر اس کا ایسا علاج تجویز کیا جاتا ہے جس سے مرض بھی ختم ہو جائے اور مریض کی تکلیف میں بھی کمی واقع ہو۔ بدعنوانی کو اگر سماجی علت مان لیا جائے تو اس کے بارے میں بھی ایسا ہی طریقہ علاج اختیار کرنا اہم ہوگا۔جب کوئی مرض کسی ایک علاج سے درست نہیں ہوتا تو معالج دوا یا طریقہ علاج تبدیل کرتا ہے۔ اس طرح حتمی مقصد یعنی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے کام جاری رکھا جاتا ہے۔ کسی نے کبھی کوئی ایسا حکیم یا ڈاکٹر نہیں دیکھا ہوگا جو مرض بڑھنے کے باوجود پرانی دوا جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہو۔ پاکستان میں کرپشن کا علاج کرنے کے لئے البتہ یہی عجیب و غریب طریقہ علاج اختیار کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی کرپشن کے خلاف نعروں اور اقدامات کا آغاز ہو گیا تھا۔ مرض تو دور نہیں ہوسکا البتہ مریض جاں بلب ہے۔ اور موجودہ حکومت کو یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ اُن کے دور میں کرپشن کم ہونے کے بجائے 124درجے سے 128درجے پر آن پہنچی ہے۔ یعنی اگر ہم تاریخ کو کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 1995ءمیں 39ویں نمبر پر موجود تھا، اور آج 124ویں نمبر پر ہے، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 1993ءمیں کام کا آغاز کیا اس لیے اُس کے پاس تمام ملکوں کا ڈیٹا 1995ءکے بعد کا موجود ہے، جبکہ اس سے پہلے ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ہی ہلکے پھلکے انداز میں کسی بھی ملک کی کرپشن رینکنگ کیا کرتے تھے، اور ایک اندازے کے مطابق 80ءکی دہائی میں پاکستان کی کرپشن رینکنگ 25ویں سے 30ویں نمبر پر تھی، اور جب بابرکت سیاستدانوں نے ہر ادارے میں کرپشن کے طریقے متعارف کروائے تو 1995 ءمیں 39ویں نمبر پر 2000ءمیں 87ویں نمبر ، اگلے پانچ سالوں میں یعنی 2005ءمیں 144ویں نمبر ، پھر 2010ءمیں ہم 143ویں نمبر پر تھے،پیپلزپارٹی کا یہ وہ دور تھا جب ٹرانسپیرنسی نے کہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 7 ارب روپے اور مجموعی طور پر سال میں 25 کھرب 20 ارب روپے ٹیکس چوری ،خراب گورننس کی نذر ہوئے۔ پھر جب ن لیگ 2013ءمیں تیسری بار اقتدار میں آئی تو اُس وقت ہم 127ویں نمبر پر تھے۔ اور جب ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو ہمارا درجہ 124واں تھااور آج ہم 128ویں پر ہیں۔ اب اگر گزشتہ سالوں کا ریکارڈ دیکھیں تو ہم نے اپنے ملک کے 35سالوں میں 100”درجات“ بلند کیے ہیں۔آپ ان 100درجات کا اپوزیشن سے حساب مانگ کر دیکھ لیںآپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم کس قدر کرپٹ ہیں کہ اپنے کیے پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذاہمیں ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے اور الزامات لگانے کے بجائے ایسی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی جن کی وجہ سے کرپشن کا ناسور اس ملک کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ اور رہی بات لندن یا سوئٹزر لینڈ یا کسی دوسرے ملک میں موجود پاکستانی سیاستدانوں کی رقم کو ملک میں لانے کے لیے اقدامات کرنے کی تو میرے بھائی کون پاگل ملک ہے جو اربوں ڈالر نکال کر آپ کی جھولی میں ڈال دے گا۔ کون پاگل ملک ہے جو آپ کو ان کے کروڑوں پاﺅنڈز کے اکاﺅنٹس تک رسائی دے گا۔ باالفرض اگر برطانیہ مہربانی کر دیتا ہے کہ آپ کو لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کا وعدہ کردیتا ہے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ برطانیہ کی اپنی معیشت کو کس قدر نقصان ہوگا؟ تو اس وجہ سے یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ کوئی آپ لوٹی ہوئی رقوم واپس کر دے گا۔ اگر آپ اس حوالے سے مزید جاننا چاہتے ہیں تو منی لانڈرنگ قوانین کے برطانوی ماہر رچرڈ مارلے کا تین ستمبر کو لکھا گیا ایک مضمون پڑھ لیں جس میں وہ لکھتا ہے کہ برطانیہ میں منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والے ادارے یا تو بے بس ہیں یا ان کے پاس رقوم کی غیر قانونی ترسیل کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں یا پھر منی لانڈرنگ کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے مصلحتاََ گریزاں ہیں۔اس کے علاوہ بھی کچھ اداروں کی تحقیقات سے بہت حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث99 فصد لوگ کسی نہ کسی مرحلے پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔ اپنے ابتدائیے میں رچرڈ مارلے کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے منی لانڈرنگ کے قوانین بنائے اور سخت کیے گئے ہیں ویسے ویسے مجرموںنے اس نظام کو بے اثر کرنے کے لیے راستے تلاش کیے ہیں۔ اپنے اس آرٹیکل میںمصنف نے جو حقائق پیش کرتے ہیں وہ حیران کن ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر سال گلوبل جی ڈی پی کا 2 سے 5 فیصد سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے جو کہ 800 ارب سے 2 کھرب امریکہ ڈالر بنتے ہیںاور حیران کن بات یہ ہے کہ عالمی منی لانڈرنگ کا 90 فیصد ہر سال undetected رہ جاتا ہے۔ مصنف کے مطابق منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والی 41 فیصد آرگنائزیشنز False پازیٹو رزلٹس پیدا کرتے ہیں جبکہ 48 فیصد بینکوں کے پاس اینٹی منی لانڈرنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی بوسیدہ اور پرانی ہے اور یہ کہ ہر پانچ میں سے ایک ادارہ اینٹی منی لانڈرنگ کے ریگولیشنز پر پورا ہی نہیں اترتا۔ مصنف رچررڈ مارلے نے یونیورسٹی آف میلبورن کی ایک ریسرچ کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ تحقیقات کے نتیجے میں صرف 0.1 فیصد رقم ریکور کی گئی ہے۔ یہ نتائج نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ منی لانڈرنگ جرائم کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہیں۔ آپ کے لیے شاید کچھ اور حقائق بھی حیرت کا باعث ہوں۔ برطانیہ میں ہر سال پانچ لاکھ مشکوک فنانشل سرگرمیاں رپورٹ ہوتی ہیںجبکہ thetimes.co.uk کی ایک رپورٹ کے مطابق دس سال میں صرف پانچ افرادکو منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت کر کے سزادی جا سکی۔ اور یہ الزامات ایسے تھے جن میں منی لانڈرنگ کے ذریعے دہشت گردوں کو رقوم فراہم کی گئی، باقی 4لاکھ 99ہزار 95افراد جو ملک میں پیسہ لے کر آئے اُنہیں ”معاف“ کر دیا گیا۔ الغرض جب حالات ایسے ہوں تو پھر سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک کو ٹھیک کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک میں جاکر پیسے نکلوانے کی باتیں کرنا۔ اس لیے خان صاحب وطن عزیز میں ایسا سسٹم بنائیں اور کرپشن کے خلاف ایسی سزائیں متعارف کروائیں کہ کوئی کرپشن کرنے کی جرا¿ت نہ کر سکے ! #Pakistan and corruption #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan