تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات : خوش آئند فیصلہ !

خطے کے حالات یکسر بدل رہے ہیں، سیاسی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں، کئی اپ سیٹ بھی ہو چکے ہیں، اور کئی ہو رہے ہیں۔ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے باہمی معاہدے کے تحت 20سال طویل جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے، حملہ آور امریکی فوج کی واپسی ہو چکی ہے، دارالحکومت کابل سمیت پورے ملک پر طالبان کا مکمل کنڑول ہے، امارت اسلامی کی حکومت کا قیام بھی ہو چکا ہے اور ماضی کے برعکس پاکستان کے ساتھ اس کے خوشگوار تعلقات بھی قائم ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ خطے کے بڑے ملک بھارت کی افغانستان سے واپسی ہوچکی ہے۔ چین ، روس، ترکی ، ایران اور پاکستان کا مل کر کام کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ ممالک امریکا سے بھی ڈرے سہمے ہیں اور امریکا کی ناراضگی لینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ پاکستان بھی اپنے معاملات کو سمیٹ رہا ہے، جیسے افغان مسئلے کا پرامن حل نکالا، ملک سے دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ اور دیگر ملکوں کے ساتھ ملکر کئی ایک مسئلوں کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہٰذاپاکستان کو درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ”تحریک طالبان پاکستان“ کا ہے، جو گزشتہ 20سالوں سے پاکستان کو درپیش ہے، آج کل یہ مسئلہ اس لیے ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی ورلڈ کو ایک انٹرویو دیا ہے جس کی تفصیلات کی شکل میں ان کی زبان سے منظر عام پر آنے والی یہ اطلاع یقیناً اطمینان بخش ہے کہ مفاہمتی عمل کے تحت کالعدم ”تحریک طالبان پاکستان“ کے کچھ گروپوں سے ان کی خواہش کے مطابق ہتھیار ڈالنے کے لئے بات چیت جاری ہے۔ اس سوال پر کہ کیا افغان طالبان اس بات چیت میں مدد کررہے ہیں، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ”بات چیت افغانستان میں جاری ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ مدد کر رہے ہیں“۔آگے چلنے سے پہلے کالعدم ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان )کا مختصر ذکر کرتا چلوں کہ یہ تنظیم دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلح گروہوں کا اکٹھ ہے جنھوں نے افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مفتی نظام الدین شامزئی کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ تحریک طالبان پاکستان سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، خیبر ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن ، سوات اور درہ آدم خیل میں بھی یہ تنظیم زور شور سے موجودرہی ، جسے افغان طالبان اور بھارت کی سرپرستی حاصل رہی۔ اور وقتاََ فوقتاََ پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرتی رہی جس میں سانحہ اے پی ایس سر فہرست ہے۔ لہٰذا بعض حلقوں کی جانب سے اس وقت شور مچ رہا ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم جسے کالعدم قرار دیا گیا ہے اس سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ جب امریکا کھربوں ڈالر لگانے کے بعد 20سالوں میں طالبان کو ختم نہیں کر سکا تو ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ ویسے تو ہماری پاک فوج نے 2009ءکے آپریشن راہ نجات اور 2016کے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اُنہیں پاکستان سے بے دخل کر دیا ہے، مگر یہ تنظیم پاکستان میں پھر بھی کئی ایک دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ یہاں پر بھی کئی ایک افراد یا مقامی تنظیمیں ہیں جو ان کے لیے ہمدردی رکھتی ہیں۔ لہٰذااگر صورتحال یہ ہو تو ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 70ہزار پاکستانیوں کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ لڑائی سے تباہی آتی ہے۔ملک مقروض اور کمزور ہوتے ہیں۔بیرونی قوتوں کو مداخلت کا موقع ملتا ہے اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے۔اس لیے میرے خیال میں عمران خان اور اُن کی کابینہ و عسکری قیادت کا تشدد پسند گروپوں سے مذاکرات کا فیصلہ پاکستان کے لیے خوش آئند ہے۔ کیوں کہ یہ ملک مزید محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اور ویسے بھی اس وقت پاکستان کے دشمنوں کی تعداد اُس کے دوستوں سے زیادہ ہے اور کوئی پتہ نہیں کہ دشمن اربوں روپے لگا کر ٹی ٹی پی کو اپنے مقاصد کے لیے دوبارہ استعمال کریں اور ہم ایک نئی جنگ میں کود پڑیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ٹی ٹی پی کے رابطے ان بین الاقوامی قوتوں سے ہو گئے جو پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ان قوتوں اور ٹی ٹی پی کا مشترکہ مفاد پاکستان کو انتشار و بدامنی کا شکار کرنا تھا۔ٹی ٹی پی نے ہر شہر میں خودکش حملے اور بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔آرمی پبلک سکول پشاور کے معصوم بچوں اور اساتذہ کو شہید کیا۔طویل عرصہ تک قبائلی اضلاع کو اپنی سرگرمیوں کا ہدف بنائے رکھا۔حتیٰ کہ کئی اہم شخصیات کو قتل کرنے میں بھی ٹی ٹی پی کا نام آتا ہے۔اور اگر اب پھر خدانخواستہ دوبارہ یہ تنظیم پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں استعمال ہوئی تو اس کا نقصان پاکستان ہی کو ہوگا۔ اور ویسے بھی دنیا کی جتنی بھی بڑی جنگیں ہوئیں وہ مذاکرات کے ذریعے ہی ختم ہوئیں۔ جیسے فرانس اور امریکا کے درمیان جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ 1783ءمیں ہوا یہ معاہدہ آج بھی قائم ہے اور سوا دو سو سال گزرنے کے بعد بھی کوئی جنگ نہیں ہوسکی، ملائشیا سنگا پور کے درمیان1990ءمیں معاہدہ ہوا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے منڈلاتے خطرات ختم ہوگئے، پھر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تمام معاہدے اُٹھالیں کہ کس طرح یہ جنگیں ختم ہوئیں۔پھر جدید دور میں گزشتہ سال سوڈان اور جنگجوﺅں کے درمیان تاریخی معاہدہ طے پایا جو آج بھی قائم ہے۔ اور اس معاہدے سے 50سالہ لڑائی کا خاتمہ ہوا جس میں لاکھوں افراد قتل ہوچکے تھے۔ پھر کولمبیا میں بھی 2016میں شدت پسند وں اور حکومت کے درمیان 57سالہ لڑائی کے بعد تاریخی امن معاہدہ طے پایا جو آج بھی قائم ہے، اور ابھی حالیہ 20سالہ لڑائی کے بعد طالبان اور امریکا میں جنگ بندی ہوئی ۔ آپ پاکستان کو دیکھ لیں 65کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ تاشقند ہوا، 71کی جنگ کے بعد بھی معاہدہ شملہ ہوا، پھر پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان کے شورش پسندوں کو عام معافی دی گئی جو موثر ثابت ہوئی‘ 1971ءمیں مشرقی پاکستانی باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان بھارت کی مداخلت کے باعث علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے کالعدم نیپ کے لیڈروں کو معافی دی جس کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں استحکام آیا۔ چند سال پیشتر بلوچستان میں مشروط معافی کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر کئی فراریوں نے ہتھیار ڈالے اور علیحدگی پسند تنظیموںکی حوصلہ شکنی ہوئی۔ آپ اسلام میں دیکھ لیں صلح حدیبیہ میں بھی دشمن کو معاف کر دیا گیا، فتح مکہ کے موقع پر بھی سب کو معاف کر دیا گیا ۔ الغرض یہ حوصلہ ان لوگوںمیں ہوتا ہے جو جنگ اور امن میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی‘اعلیٰ ترین مقصد حیات اور عوام کے وسیع تر مفاد کو ذاتی خواہشات‘تعصبات اور مفاد پر ترجیح دیتے اور اپنے رنج و الم بھول جاتے ہیں۔ہتھیار ڈالنے والوں کو معاف کرنا عالمی روائت ہے اور بدترین دشمنوں سے عفوو درگزر رحمت للعالمین کی عظیم سنّت۔اس لیے معاف کرنے کی پالیسی اس وقت سب سے بہترین نسخہ ہے۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہو رہا کہ ہم جنگجوﺅں سے کوئی معاہدہ کر رہے ہیں اس سے پہلے اپریل 2004 میں شکئی امن معاہدہ کیا گیا۔ یہ پاکستان مخالف شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان اپنی طرز کا پہلا معاہدہ تھا۔پھر ”سراروغہ امن معاہدہ“ ہوا جو فروری 2005 میں جنوبی وزیرستان میں امن معاہدہ ہوا۔ چھ شقوں پر مشتمل یہ معاہدہ بیت اللہ محسود کے ساتھ کیا گیا جو دو سال بعد تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ بنے۔پھر تیسرا بڑا اور اہم امن معاہدہ ”سوات امن معاہدہ“ ہوا جو مئی 2008 میں کیا گیا۔ اس لیے پاکستان کے بہترین مفاد میں امن معاہدے وقت کی ضرورت ہیں، تاکہ ہم اپنی تمام تر توانائیاں ملک کومسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ ہاں! البتہ اس حوالے سے رپورٹ ضرور تیار کرنی چاہیے کہ ایسا ہوتا کیوںہے؟کہ شدت پسند تنظیمیں پہلے اپنے قدم جماتی ہیں، پھر کارروائیاں کرتی ہیں تو اُنہیں ختم کرنے کے لیے سینکڑوں جانوں کو قربان کرنا پڑتا ہے، جیسے سوات میں ہوا۔ اس پر نہ تو آج تک کوئی کمیٹی بنی، نہ کمیشن بنا اور نہ ہی کسی نے کوئی رپورٹ تیار کر کے دی۔ کمیشن بننے سے کم از کم ہمیں اپنی غلطیوں کا علم تو ہو جاتا اور قوم وہی ہوتی ہے، جو سب سے پہلے اپنی غلطیوں سے سیکھے، جب تک ہم غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے تب تک ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے! اور پھر جب ہم اُن لوگوں کو معاف کر سکتے ہیں، جنہوں نے اس ملک کا پیسہ کھایا، اور ابھی تک کھا رہے ہیں، تو ہم باقیوں کو معاف کیوں نہیں کر سکتے؟الغرض پاکستان کو اس وقت ایک ایک کرکے اپنے مسئلے حل کرکے پھر عوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے، مہنگائی کو کم کرنے کی ضرورت ہے، گڈگورننس قائم کرنے کی ضرورت ہے، حکومتی رٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے، اور سب سے بڑھ کر عوام کا مورال بلند رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں پوری دنیا میں مہنگائی بڑھی ہے، مگر ہمارے یہاں اس حوالے سے روکنے کے لیے کوئی توا قدامات اُٹھائے جائیں ۔ پھر وزیر اعظم عمران خان اپنے کیے ہوئے وعدوں پر بھی توجہ دیں، کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریں گے فی الوقت تو کرپشن بڑھتی جا رہی ہے، کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، پھرموصوف نے وعدہ کیا تھا کہ اداروں کو پہلی ترجیحات میں ہی ٹھیک کریں گے، ادارے تو ٹھیک نہ ہوئے مگر ہر طرف اختیارات کی جنگ ضرور شروع ہوگئی ، پھر وعدہ کیا تھا کہ پی ٹی وی جیسے ادارے کو بی بی سی بنا دیں گے، مگرآج بھی وہاں کھل کھیل کر وزیر اعظم سے لے کر سرکاری چپڑاسی تک ہر کوئی اس ادارے کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے، صبح شام سب اچھا کی خبریں دی جا رہی ہیں، یعنی پی ٹی وی کی حیثیت صرف حکومتی ترجمان کی سی رہ گئی ہے۔ حتی ٰ کہ عوام یہ سب کچھ سُن کر بیزار ہو چکے ہیں ، اور جو کچھ پی ٹی وی بول رہا ہوتا ہے، اُسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ یہ کسی حکمران کے باپ کے پیسوں سے نہیں بلکہ عوام کے پیسوں سے چل رہا ہے، لہٰذااس لیے ہم علی الاعلان کہہ سکتے ہیں کہ جو وعدے آپ نے نواز شریف اور زرداری کے دور میں کیے تھے وہ پورے نہیں کرسکے۔ عمران خان کے پاس ابھی بھی وقت ہے، کہ وہ سی پیک پر توجہ دیں، ریکوڈک پر توجہ دیں، ڈیموں پر توجہ دیں اور اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کو سنیں، پاسپورٹ کی بہتری کی طرف توجہ دیں، پھر آپ ایک نصاب بنا رہے ہیں، اُس میں ہزاروں خامیاں نظر آرہی ہیں، اُس پر توجہ دیں ،نصاب کے عالمی معیارات پر توجہ دیں، اس پر کسی دن پھر روشنی ڈالوں گا۔ لیکن فی الوقت یہی گزارش ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے، اس قسم کے معاہدے کرے تاکہ ملک کا سانس بحال ہوسکے! #TTP #Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan