پتر سمجھ تینوں نئیں آندی ،وکیل میں کرلواں!

ایک دیہاتی کسی میلے میں گیا وہاں اس کا رومال جو اکثر لوگ کندھے پرڈال کررکھتے ہیں، گم ہوگیا۔جب وہ واپس اپنے گاﺅں پہنچا تو لوگوں نے اس سے میلہ کے بارے میں دریافت کیا تواس نے کہا چھوڑیں جی میلہ کچھ بھی نہیں تھا یہ سب تماشہ میرے رومال کے لئے رچایا گیاتھا.... مسلم لیگ ن سے پوچھو پانامہ پیپرز کیا تھے، وہ بھی یہی کہیں گے کہ پانامہ ڈرامہ صرف ن لیگیوں کو پھنسانے کے لیے رچایا گیا تھا، کیوں کہ پانامہ پیپرز میں موجود باقی 400سو افراد کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا! بات تو اُن کی بھی ٹھیک ہے کہ بادی النظر میں اگر ان تمام افراد کے بارے میں تحقیقات واحتساب ہوجاتا تو اور کچھ نہیں کم ازکم ٹیکس ریکوریز میں تونمایاں بہتری آسکتی تھی۔ اب چار سال بعد ”پنڈورا پیپرز“ آگئے ہیں، جن میں پانامہ کے مقابلے میں زیادہ پاکستانیوں کے نام ہیں۔ان میں تقریباً700پاکستانیوں کے نام ہیں، یعنی پاکستان یہاں بھی بازی لے گیا اور دنیا میں آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں پانچویں نمبر پر آیاہے۔ لیکن سوال یہاں بھی یہی ہے کہ یہ ”میلہ“ کس کے لیے رچایا گیا ہے؟ خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر میں کئی بار سوچتا ہوں کہ ہم پاکستانی بہت ذہین لوگ ہیں،ہمارا آئی کیو لیول بھی دنیا کے بہترین ملکوں سے کم نہیں ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں سسٹم خراب ملا ہے، تبھی ہمارا ذہن بھی اُلٹی سائیڈ پر زیادہ چلتا ہے، مثلاََ کمپیوٹر آیاتو دنیا کا سب سے پہلا کمپیوٹر وائرس ہم نے ایجاد کر لیا۔ آن لائن بینکنگ کا آغاز ہوا، تو ہم نے سکیورٹی کوڈ چرا کر اپنے اپنے اے ٹی ایم کارڈ ، کریڈٹ کارڈ بنوا لیے، اوربنکوں سے پیسہ چرانا شروع کر دیا ۔ سمارٹ موبائل سسٹم آیا تو ہم نے نت نئی ایپس کے ذریعے لوگوں کو لوٹنا شروع کر دیا۔پھر ہمیں علم ہوا کہ ہم آف شور کمپنیاں بنا کر زیادہ پیسے کما سکتے ہیں، اور حکومت کو بھی ہماری سیاہ سفید رقوم کے بارے میں علم نہیں ہو سکے گا، تو ہم نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیا۔ یعنی اگر ہمارا سسٹم بہتر ہوتا، تو یہی ”ذہین“ لوگ اگر ملک و قوم کے لیے کام کرتے تو نام بھی کماتے اور خدمت بھی کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ سسٹم کیسے ٹھیک ہو؟ ظاہر ہے ہمارے تبدیلی والے حکمران سسٹم ہی ٹھیک کرنے آئے تھے مگر وہ اس قدر اُلجھ گئے کہ اب اگر وہ ڈھنگ سے حکومت ہی چلا لیں تو یہ معجزہ ہوگا۔ لہٰذاسسٹم کی تعریف کے لیے ایک چھوٹا سا سماجی لطیفہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا جو کل ہی میری نظر سے گزرا تھا،کہ ایک بوڑھی عورت ڈی سی او صاحب کے پاس آئی اور اپنا مدعا بیان کیا اب ڈی سی او صاحب بیرون ملک سے تعلیم یافتہ تھے، اور سی ایس ایس ٹاپ کر کے سیٹ پر تعینات تھے، اُنہیں سمجھ نہیں آئی اور اُنہوں نے کہا کہ ماں جی وکیل کے ذریعے پیش ہوں، مجھے آپ کی سمجھ نہیں آئی.... اس پر اُس ان پڑھ بوڑھی عورت کے جواب نے ہمارے پورے سسٹم کو جو تھپڑ رسید کیا وہ آپ بھی سنیں۔ وہ بولی ” پتر سمجھ تینوں نئیں آندی، وکیل میں کر لواں“۔ اگر دیکھا جائے توہمارا پورا سسٹم اسی جملے کے گرد گھومتا ہے، بات کرپشن کی ہو، تعلیم کی ہو، صحت کی ہو ،عدلیہ کی ہو، میڈیا کی ہو یا بیوروکریسی کی بدعنوانیوں کی سب اپنا کام دوسروں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں، تبھی انتظامی امور کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا سکور 0.39ہے اور نمبر 117ہے۔ اور اب اگر پانامہ پیپرز کے بعد ”پنڈورا پیپرز“ آچکے ہیں تو اس کے بعدبھی اگر کئی قسم کے پیپرز آجائیں تو پاکستانی یونہی منہ چڑھاتے نظر آئیںگے، اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، مگر ایک بڑی وجہ میرے نزدیک یہ بھی ہے کہ عام پاکستان یا مالدار پاکستانی اس سسٹم پر اعتبار نہیں کرتا، وہ سوچتا ہے کہ شاید اُس کا پیسہ پاکستان میں محفوظ نہیں ہے، یا یہ سسٹم ہی اُسے پیسہ ملک سے باہر بھیجنے پر زور دیتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں! بدعنوانی کا بھیڑیا عشروں سے سائے کی طرح ہمارے ساتھ چل رہا ہے، مگر مجال ہے کہ کرپشن کہیں سے بھی کم ہوئی ہو۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ’پروڈا‘ نامی ایک قانون بنایا جس کی مدد سے بدعنوان سیاست دانوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایوب خان نے ایبڈو نامی ایک قانون بنایا اور سیاست دانوں کی ایک بدعنوان نسل کو سیاست سے بے دخل کر دیا۔ یحییٰ خان نے 303 بدعنوان اہلکار نکال باہر کیے۔ بھٹو صاحب کی حکومت انقلابی تھی، انہوں نے 1300 بدعنوان پکڑ ے، پھر ضیاءالحق نے احتساب کے خلاف 11سال کام کیا۔ پھر نیب آگیا ، اور نیب بھی گزشتہ 22سالوں سے حرکت میں ہے مگر کرپشن نے سسٹم کو اُدھیڑ کر رکھ دیا۔ اور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ اس سسٹم میں پلنے بڑھنے والے ہم جیسے پاکستانی جب بیرون ملک ائیرپورٹس یا کسی مال وغیرہ میں جاتے ہیں تو سب کچھ قاعدو قوانین کے مطابق کرتے ہیں، مگر جیسے ہی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو یہاں کا سسٹم اُنہیں لائن توڑنے پر مجبور کر دیتا ہے، پھر مغرب میں یہی لوگ ٹیکس دیتے ہیں، لیکن جیسے ہی پاکستان آتے ہیں تو ٹیکس چوری کے نت نئے طریقے تلاش کر تے ہیں، ہم حج ادا کرتے ہیں نیز ہر برس اربوں روپے کے جانور قربان کرتے ہیں لیکن ہم حکومت کو ایک دھیلا ٹیکس دینے پر تیار نہیں۔ ان کے ہاں دودھ کی بوتلیں اور انڈے دروازے کے باہر رکھے رہتے ہیں اور کوئی چوری نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں پانی کی سبیل پر رکھے گلاس کو زنجیر باندھی جاتی ہے اور مسجد سے جوتے چوری ہوتے ہیں۔ مغرب میں امیر زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور غریب سے کم ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں امیر کم ٹیکس دیتا ہے اور غریب سے زیادہ ٹیکس لیا جاتا ہے۔ ان کی معیشت کی بنیاد صنعت ہے اور ہماری معیشت کی بنیاد زراعت۔ چنانچہ وہ دن بھر کام کرنے کے بعد تفریح پر نکلتے ہیں جبکہ ہمارے اخبارات میں نمازِ استسقا کی اپیل شائع ہوتی ہے۔ وہ وقت پر دفتر آتے ہیں اور پورا وقت دیانتداری سے کام کرتے ہیں۔ ہم دیر سے دفتر پہنچتے ہیں، چائے پیتے ہیں اور پھر وقفہ نماز کے دوران ایسے غائب ہوتے ہیں کہ واپس دفتر نہیں آتے۔کیا سسٹم کا Failureنہیں ہے؟ مغرب کی برآمدات زیادہ ہیں اور درآمدات کم چنانچہ ان کا معیار زندگی مسلسل بلند ہوتا ہے۔ ہمیں ہر برس اربوں ڈالرز کا خسارہ ہوتا ہے کیونکہ ہماری درآمدات زیادہ ہیں اور برآمدات کم۔ وہ اپنے انسانی سرمائے کا معیار بلند کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور ہماری آخری امید زیر زمین معدنیات ہیں۔ ان کے ہاں قانون کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جاتا ہے ، ہمیں سخت سزاﺅں پر اصرار ہے۔ عدلیہ کا نظام دیکھ لیں، یہاں مہنگا وکیل کرنا مقدمے میں مرضی کے فیصلے پر پہلی مہر ثابت ہوتا ہے، تبھی کم طاقتور لوگ ، طاقت رکھنے والوں کے سامنے یا تو سرنڈر کردیتے ہیں یا اُن کے غلام بن جاتے ہیں، اور پھر وہ خود بھی ”ظالم“ بن جاتے ہیں۔ آپ وطن عزیز کے 90فیصد مجرموں کی داستانیں سُن لیں، وہ اس نظام انصاف سے تنگ آکر قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، آپ اُن سے سن لیں وہ یہی کہیں گے کہ وہ دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، مگر اُنہیں انصاف نہ ملا۔ اور جب انصاف نہ ملا تو انہوں نے خود ©”انصاف“ کر دیا۔ حد تو یہ ہے کہ آج بھی 60لاکھ چھوٹے بڑے مقدمات زیرالتوا ہیں۔ پھر آپ ہمارے تعلیمی اداروں کے سسٹم کو دیکھ لیں، ایسی تباہی کہ ہم دنیا میں کہیں گنے ہی نہیں جاتے، ہم آج تک اپنے نصاب کا تعین ہی نہیں کر سکے۔ مغرب کے تعلیمی اداروں میں وہ تعلیم دی جاتی ہے جسے پا کر طالب علموں میں مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ مشین بناتے ہیں، بیماریوں کا علاج ڈھونڈتے ہیں۔ فکر اور فلسفہ میں نئی راہیں تراشتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں وہ تعلیم دی جاتی ہے جسے پا کر ہماری سوچ کی تنگ دامانی کا موازنہ شاہ دولے کے چوہوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا ہنر کپڑا بننے، اینٹیں بنانے اور چمڑا سکھانے تک محدود ہے۔ یا معذرت کے ساتھ ہمارے دینی تعلیم دینے والے حضرات فرقہ بازیوں میں ایسے لپٹے ہیں کہ وہ ہماری آنے والی نسل کو بھی اسی میں ہی غرق کر رہے ہیں۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر حکومت نے کہہ دیا کہ عوام کو 50لاکھ گھر ملیں گے اور ایک کروڑ نوکریاں دی جائیںگی تو ہم نے محنت کرنا ہی چھوڑ دی، مطلب ہم بھی اسی سسٹم کا حصہ بن گئے ہیں جو یہ آج بھی نعروں، دعوو¿ں اور بیانات کو آسمانی صحیفہ سمجھ رہے ہیں، ہم آج بھی سمجھتے ہیں، روٹی، کپڑا اور مکان حکومتی ذمے داری ہیں، ہم سمجھتے ہیں کسان گندم مہنگی بوئے گا لیکن ہمیں سستی بیچے گا، بجلی 22 روپے یونٹ بنے گی لیکن ہمیں پانچ روپے یونٹ ملے گی، ہم خواہ پٹڑیاں اکھاڑ کر بیچ دیں لیکن ریلوے چلنی چاہیے، پی آئی اے کے جہاز 25 ہوں، ملازم 19 ہزار 4 سو 18 ہوں اور یہ ملازم خواہ تیل بیچ دیں اور پرزے نکال کر کباڑ مارکیٹ میں فروخت کر دیں لیکن پی آئی اے کو دنیا کی شاندار ترین ائیر لائین ہونا چاہیے۔ بہرکیف تحریک انصاف کے پاس اس وقت کم و بیش دو سال رہ گئے ہیں، وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سسٹم بنانے میں توجہ دیں، سب کے لیے عام معافی کا اعلان کریں، ایسا کرنے سے اپوزیشن اُن کے لیے ہمدردی رکھے گی، اور سسٹم بنانے میں اُن کی معاونت کرے گی، مثلاََ کرپشن کے خلاف سسٹم بنائیں۔ ایسا سسٹم بنائیں کہ فنڈز نچلی سطح تک منتقل ہوں، ایم این اے، یا ایم پی ایز کو ٹھیکوں کے لین دین سے دور رکھیں، اُنہیں صرف قانون سازی کے لیے منتخب کریں، پھر بلدیاتی سسٹم کو فعال کریں اور چھوٹے موٹے کام اُن سے کروائیں۔ اسی طرح عدلیہ کے سسٹم میں بہتری لائیں، لوگوں کو انصاف ملے، فوری انصاف ملے۔ تبھی وہ Surviveکر سکتے ہیں وگرنہ ہم نے دوبارہ اُنہی چوروں کی حکومت کا ویسے بھی ذہن بنا لیا ہوا ہے! #System #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Pakistan