صرف ایک جیت کافی نہیں!

بلآخر پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ میں اپنے روایتی حریف بھارت سے جیتنے میں کامیاب ہوگیا، پوری قوم نے اس جیت کا جشن روایتی انداز میں منایا۔ ملک بھر میں یوں لگ رہا تھا جیسے پاکستان ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت گیا ہو۔ یقینا یہ ایک ہائی وولٹیج میچ تھا، جسے بابر اعظم اور محمد رضوان کی بیٹنگ اور شاہین شاہ آفریدی کی باﺅلنگ نے ون سائیڈڈ میچ بنا دیا۔ اللہ کرے اگلے لیگ میچز بھی پاکستان اسی سپرٹ کے ساتھ کھیلے اور ورلڈ کپ جیت کر قوم کو تحفہ دے۔اور ایشیا میں کھیلا جانے والا کرکٹ ورلڈ کپ ایشیا میں ہی رہ جائے،کیوں کہ اس خطے خاص طور پر جنوبی ایشیا کے لوگ کرکٹ کو عبادت سے کم نہیں سمجھتے۔ اور اس وقت بھی پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں تو کرکٹ کا جنون آسمان کو چھو رہا ہے ۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ حالیہ ورلڈ کپ جس کی میزبانی متحدہ عرب امارات اور عمان کر رہے ہیں 2سال کے بجائے ناگزیر وجوہات کی بنا پر 5سال بعد کھیلا جا رہا ہے۔ اور اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم نے بطور ہارٹ فیورٹ ٹیم کے شمولیت اختیار نہیں کی تھی بلکہ حالیہ جیت کے بعد پاکستان کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں فیورٹ قرار دی جا نے لگی ہے۔ اور لوگ ابھی سے اندازہ لگانا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید فائنل بھی پاک بھارت کا ہو! اور دوبارہ ہم اسی قسم کے جذبات دیکھیں! میرے خیال میں یہ ایک کھیل ہے، ایک ایکٹویٹی ہے،ایک شغل ہے، ایک سوشل ملاپ ہے اور ایک گراﺅنڈ میں دو حریفوں کا ٹاکرا ہے اس کے سوا اس ہار جیت کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر پاکستان برا کھیلتا اور ہار جاتا تو ہم بھی بھارت کی طرح سوگ میں ڈوبے ہوتے اور ایک بار پھر اپنی شکست پر ماتم منا رہے ہوتے۔ اور ویسے بھی پاک بھارت دنیا میں اکیلے روایتی حریف نہیں ہیں۔ آسٹریلیا -انگلینڈ ، آسٹریلیا -نیوزی لینڈ، کینیڈا- امریکا، جاپان-جنوبی کوریا، چین-تبت، ارجنٹائن -برازیل، روس-یوکرین، چین-جاپان، ایران-عراق، ترکی-شام، شمالی کوریا-جنوبی کوریاو غیرہ جیسے ممالک بھی ایک دوسرے کے سخت روایتی حریف کے طور پر گنے جاتے ہیں، اگر ان ملکوں کے درمیان کوئی میچ ہو تو یہاں کی سڑکیں بھی سنسان ہو جاتی ہیں۔ اور میچ کے اختتام پر سب کچھ دوبارہ نارمل ہو جاتا ہے۔ خیراگر ہم پاک بھارت کرکٹ میچ کی بات کریں تو اس قسم کے ”روایتی“ میچ کے حوالے سے دونوں ممالک میں اچھے خاصے انتظامات کیے جاتے ہیں، دوست احباب ایک دوسرے کو دعوتیں دیتے ہیں، راقم نے بھی یہ میچ دوستوں کے ہمراہ دیکھا ، میچ کے اختتام پر ایک دوست کومیں نے اُس کے گھر چھوڑنا تھا، وہ تمام راستہ میچ کی باتیں کرتا رہا، اُسے میچ جیتنے کی اس قدر خوشی تھی کہ اُس کی آنکھوں کی چمک سے لگ رہا تھا جیسے آج ہم نے بھارت کو ہی فتح کر لیا ہو۔ مجھے یہ سب دیکھ کر اچھا بھی لگا اور پریشان کن بھی ۔ پریشان کن اس لیے کہ ہم کیسی قوم ہیں کہ اس عارضی جیت پر جشن منا نے میں پاگل پن کر مظاہرہ کر رہے ہیں، سپورٹس اس لیول پر نہیں ہوتی کہ آپ ایسے ایشوز کو سیریس لیں، سیریس لینے والے ایشوز اور ہوتے ہیں ، جیسے پاکستان جو بھارت سے ہر فیلڈ میں پیچھے چلا گیا ہے اُس کے بارے میں کوئی بھی سوچ کر سنجیدہ نہیں ہے۔ کوئی اس طرف دھیان نہیں دے رہا کہ بھارت ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں، جب کہ ہم تیزی کے ساتھ پسماندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آپ سب سے پہلے تعلیم کا موازنہ کر لیں، وہاں کی شرح خواندگی 80فیصد سے زائد اور ہماری لے دے کر 60فیصد کو بھی نہیں پہنچ رہی۔ بھارت تعلیم پر اپنے بجٹ کا 4فیصد خر چ کر رہا ہے اور ہم 2.2پر اٹکے ہوئے ہیں۔ پھر بھارت ہر شے میں خود کفیل ہو رہا ہے اور ہم جو چیزیں خود پیدا کر سکتے ہیں وہ بھی امپورٹ کر رہے ہیں، جیسے بھارتی پنجاب جو رقبے میں پاکستانی پنجاب سے بہت چھوٹا ہے، اس کی زرعی پیداوار ہمارے پنجاب سے زیادہ ہے،پھر وہاں ریلوے روزانہ قومی خزانے میں20کروڑ روپے منافع جمع کراتی ہے جب کہ ہماری ریلوے روزانہ اتنا خسارہ دے رہی ہے۔ پھر بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مضبوط ہے، جبکہ ہماری کرنسی دن بدن کمزور ہو رہی ہے۔ تادم تحریر یہاں ایک ڈالر 174روپے کا اور بھارت میں ایک ڈالر 75روپے کا ہے۔ وہاں ایک روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو جائے پورے انڈیا میں طوفان آجاتا ہے جبکہ یہاں اسٹیٹ بنک کے صدر کہتے ہیں کہ ہمیں روپیہ کمزور ہونے کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ پاکستان سے باہر ہیں اُنہیں فائدہ ہو رہا ہے! خیر یہ ایک الگ بحث ہے جس پر پھر کبھی روشنی ڈالیں گے۔پھر اس وقت اگر بھارت کے مقابلے میں پاکستانی عدالتوں کی عالمی رینکنگ ہی دیکھ لیں تو پاکستان دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں انصاف ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جیسے عالمی رینکنگ کے مطابق دنیا کے 139ممالک میں انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 130واں ہے، جبکہ اسی فہرست میں بھارت کا نمبر60واں ہے۔ پھر آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 180ممالک میں 145ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت اس رینکنگ میں 132ویں نمبر پر ہے۔ پھر آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان بھارت سے کوسوں دور ہے، آج بھی دنیا کی بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں انڈین آئی ٹی ایکسپرٹ بیٹھے ہیں، حتیٰ کہ گوگل، مائیکرو سافٹ، فیس بک وغیرہ میں آئی ٹی ماہرین انڈیا ہی کے بیٹھے ہیں، مائیکروسافٹ کے تو 40فیصد ملازمین انڈین ہیں۔ اور اگر ہم گلوبل انڈکس کی عالمی رینکنگ دیکھیں تو پاکستان دنیا کے 66ممالک میں سے 61ویں نمبر پر جبکہ بھارت 32ویں نمبر پر براجمان ہے۔آپ کو یہ جان کر بھی حیرانگی ہوگی کہ اس رینکنگ میں پاکستان آئی بزنس انوائرمنٹ، آئی ٹی انفراسٹرکچر، آئی ٹی ہیومن کیپیٹل، آئی ٹی انڈسٹری دویلپمنٹ اور دیگر آئی ٹی کے شعبوں میں بھی بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ پھر آپ کو یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ 2000کے بعد جب آئی ٹی کا انقلاب آیا تو اُس وقت بھارت نے دنیا بھر کے لیے اپنی مارکیٹیں کھول دیں، مگر پاکستان کے اُس وقت کے حکمرانوں اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنی کو صرف اس لیے یہاں کاروبار کی اجازت نہیں دی کہ وہ ان بدنیت حکمرانوں کو چوری چھپے ”کمیشن“ دینے سے گریزاں تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی کے۔ قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ اور پھر وہاں آج تک کوئی مارشل لاءنہیں لگا جبکہ ہمارے ہاں تین مارشل لاءلگائے جا چکے ہیں، ہمارا آج تک کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، ایک وزیر اعظم کو ہم نے پھانسی دی، جبکہ دو تین وزرائے اعظم کو ہم نے ڈسکوالیفائی کیا۔ لیکن انڈیا میں آج تک ایک بھی نہیں ہوا۔ میں بھارت کا سپوکس پرسن نہیں ہوں، مگر حقیقت سے نظریں چرانا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ مجھے حقیقی خوشی اُس وقت ہوگی جب ہم بھی اپنے پڑوسیوں چین اور بھارت کی طرح ترقی کریں گے۔ دونوں بڑے ممالک نے اپنی ترقی کے اہداف مقرر کیے ہیں مگر ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم نے کرنا کیا ہے! جیسے بھارت نے معاشی ترقی کے اہداف 1950ءکے عشرے ہی میں طے کرلیے تھے، جن میں وقتاً فوقتاً ردوبدل کی جاتی رہی۔1947 سے 1980 تک نہرو ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے صرف اندرون ملک صنعتوں کو فروغ دینے پرتوجہ مرکوز رکھی۔جب کہ1980کے عشرے میں نرسیما راﺅ حکومت نے جس کے وزیر خزانہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ تھے، بھارت کی منڈیوں کو بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کھول کر معاشی ترقی کے لیے نئی راہیں ہموار کیں۔ جس کے نتیجے میں آج بھارت کا ایشیا کی تیزفتار معیشتوں میں شمار ہوتا ہے۔اس کے برعکس ہم شروع ہی سے معاشی ترقی کے لیے مربوط پالیسیاں ترتیب دینے میں ناکام ہیں۔ ہمارے یہاں 74 برسوں کے دوران کسی قسم کی طویل المدتی یا قلیل المدتی منصوبہ بندی نہیںکی گئی۔ 1950ءکے عشرے میںجب کولمبو پلان کے تحت صنعتی انفرا اسٹرکچر لگانے کے لیے امداد ملی اور مہاراشٹر اور گجرات کے بیوپاریوں نے سرمایہ کاری کی تو صنعتکاری کاعمل شروع ہوا، جو واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب سقوط ڈھاکہ کے بعد رک گیا۔ اسی طرح وراثت میں ملنے والے منفعت بخش ادارے سیاسی بھرتیوں اور کرپشن کے باعث تباہی کے دہانے تک جا پہنچے۔اور حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ وطن عزیز پر 40ہزار ارب روپے سے زائد کا قرضہ جبکہ بھارت پر ایک آنے کا قرضہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہمارے ملک کے صوبے کتنے ہونے چاہیے،اُنہوں نے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشرقی پنجاب کے تین حصے کر دیے اور ہم 12کروڑ آبادی کے صوبے کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کر پائے، ہم ہر الیکشن میں اس حوالے سے ووٹ بھی لیتے ہیں مگر کوئی حکومت اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہے۔ بہرکیف ہماری عارضی خوشی اُس دن حقیقی خوشی میں مبتلا ہوگی جب ہم بہتر انصاف فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے، یہاں کا ایجوکیشن ریٹ بہتر ہوگا، ہمارا جمہوری نظام بھارت سے بہتر ہوگا، ہمارا الیکشن کمیشن اُن سے بہتر ہوگا، ہماری سیاسی پارٹیاں اُن سے بہتر ہوں گی، ہمارا سیاسی نظام اُن سے بہتر ہوگا، ہمارا سپریم کورٹ اُن کے سپریم کورٹ سے بہتر ہوگا،ہمارا قومی کھیل اُن سے بہتر ہوگا، اُس دن میں بھی خوش ہوں گا، اُس دن میں بھی سب کے ساتھ سڑک پر نکل کر باجا بجاﺅں گا، سب کے ساتھ مل کر خوشیاں مناﺅں گا۔ مگر فی الوقت ہمارے لیے ایک جیت کافی نہیں مزید جیت کے لیے ہمیں اسی طرح کی محنت درکار ہے جس طرح پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں نے کی ورنہ ہم ہر میدان میں پیچھے رہ جائیں گے اور مستقبل خوشی ہم سے کوسوں دور ہو جائے گی! #Pak India Cricket #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan