جب قانون مذاق بن جائے!

”وکلاءگردی“ ایک ایسا لفظ ہے، جسے استعمال کرنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا کریں یہ ہو رہا ہے، کیوں ہو رہا ہے؟ یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں۔ویسے تو ہمارے معاشرے میں پرتشدد احتجاج سرائیت کر چکا ہے لیکن یہ احتجاج جب قانون دانوں کے ساتھ جڑجائے تو خاصا شور شرابہ ہوتا ہے۔ اب گزشتہ روز اسلام آبادہائیکورٹ پر حملے کا واقعہ کو لے لیں یا گزشتہ سال پی آئی سی پر ہونے والے وکلاءکے حملے کو ، معذرت کے ساتھ قانون کا درس دینے والے ہی ہمیشہ قانون شکنوں میں بھی سرفہرست رہے ہیں ۔ یہ میں نہیں بلکہ ریسرچ بتاتی ہے کہ وکلا پر صرف پنجاب میں گزشتہ دس سالوں کے دوران تشدد کرنے پر2880وکلا کے خلاف251 مقدمات درج ہوئے ۔ سب سے زیادہ پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے150 کیسز رپورٹ ہوئے ۔ اس کے علاوہ سول ایڈمنسٹریشن کے افسران پر تشدد کے 51 مقدمات میں 740 وکلا کو نامزد کیا گیا۔ جبکہ ججز اورعدالتی عملے پر تشدد اور بدتمیزی پروکلا کے خلاف50 مقدمات درج کیے گئے۔ان واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،لیکن یہ واقعات پیش ہی کیوں اور کیسے آتے ہیں؟ یہ سب کچھ معاشرے میں عدم برداشت کی وجہ سے ہوتا ہے یا ہمارے ہاں قانون ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے؟ یا پھر وکلاءکے ان اقدامات کو میڈیا اور سول سوسائٹی بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے ۔ ”کچھ تم نے بدنام کیا، کچھ آگ لگائی لوگوں نے“ کے مترادف وجہ کچھ بھی ہو، لیکن اوپر سے نیچے تک قانون ہمارے ہاں ایک فٹ بال بن چکا ہے، جسے جو چاہتا ہے وہ اپنے مطابق ہٹ لگا کر اپنے مرضی کے مقام پر پہنچا دیتا ہے۔ قارئین! میں اپنے اکثر کالموں میں کہتا ہوں کہ اس ملک میں دو قوانین رائج ہیں، ایک امیر کے لیے اور دوسرا غریب کے لیے۔ غریب قانون کے شکنجے میں سالہا سال پھنسا رہتا ہے جبکہ امیر اور طاقتور لوگ اس شکنجے کو ایک جھٹکے میں توڑ دیتے ہیں۔ جیسے اسلام آباد کے سری نگر ہائی وے پر وفاقی محتسب برائے ہراس کشمالہ طارق کے قافلے میں شامل تیز رفتار گاڑی کے حادثے میں چار نوجوان موقع پر ہی جاں بحق ہوئے۔ اب ساری رپورٹس یہی بتاتی ہیں کہ حادثے میں کون قصور وار ہے کون نہیں، مگر قانون پراسرا خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے،حالانکہ اسلام آباد ٹریفک پولیس کے سیف سٹی کیمرا کی رپورٹ کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کو تیز رفتار لینڈ کروز نے بند ٹریفک اشارے پر ٹکر ماری جس سے وہ الٹتی ہوئی دور جا گرتی ہے۔ ویڈیوز کے مشاہدے سے ظاہر ہوا ہے کہ غلطی لینڈ کروزر کی تھی کیونکہ اس کا ٹریفک سگنل بند تھا۔لیکن کیا کریں ملزمان تگڑے ہیں اور جو ظلم کا شکار ہوئے وہ بچارے اس معاشرے کے رینگتے ہوئے کیڑے مکوڑے ہیں جو بہتر مستقبل کے خواب سجائے اپنے ایک دوست کی نوکری کے انٹرویو کے لیے مانسہرہ سے اسلام آباد جا رہے تھے۔حد تو یہ ہے کہ پولیس نے زخمی ساتھی کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا تھا اور ایف آئی آر میں کشمالہ طارق کے بیٹے کو نامزد کیا گیا تھا۔ لیکن پولیس نے اس واقعے کی تفتیش شروع کی ہی تھی کہ کشمالہ طارق کے بیٹے کی عبوری ضمانت بھی منظور ہوگئی۔جبکہ ”ممکنہ ڈرائیور“ بھی باہر آگیا۔ اور اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ کشمالہ طارق اس حادثے کو میڈیا ٹرائل کے ساتھ جوڑ رہی ہیں۔ قانون کا یہ مذاق بھی دیکھ لیں کہ چند سال قبل کوئٹہ میں ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی نے دن دیہاڑے ٹریفک سارجنٹ کو اپنی قیمتی گاڑی سے کچل کر موت کے گھاٹ اتارا تو کئی روز تک میڈیا میں شور مچا، سول سوسائٹی نے بھی قاتل کو قرار واقعی سزا دلانے کے لئے چیخ و پکار کی مگر بالآخر طاقتورقاتل مقامی عدالت سے باعزت بری ہوا، موقع کے گواہ، سیف سٹی کے ٹی وی کیمرے اور دیگر شواہد سب جھوٹے قرار پائے، اندھے گونگے ، بہرے نظام عدل نے صرف عبدالمجید اچکزئی کی بات مانی اور مقتول پولیس سارجنٹ کا خون رائیگاں چلا گیا۔ میں تو حیرت میں ڈوب کر یہ سوچ رہا ہوں کہ اسلام آباد میں وفاقی خاتون محتسب کشمالہ طارق کا صاحبزادہ عبدالمجید اچکزئی سے زیادہ خوش قسمت کیوں ہے؟ گاڑی کی ٹکر سے چار نوجوان زندگی کی بازی ہار بیٹھے تو میڈیا پر قرار واقعی شور مچا نہ سول سوسائٹی نے احتجاج کیا اور نہ ریاست مدینہ کے علمبردار حکمرانوں نے ان چار خاندانوں سے ہمدردی ظاہر کی، جن کے لخت جگر نور نظر سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے وفاقی دارالحکومت پہنچے اور ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوان کے شوق تیز رفتاری پر قربان ہو گئے۔عبدالمجید اچکزئی تو گرفتار ہو گیا مگر چار نوجوانوں کے قتل کا سبب بننے والی گاڑی کے مالک کو حوالات تک کی ہوا نہ کھانی پڑی۔ دنیا بھر میں دارالحکومتوں کی پولیس اور انتظامیہ دوسرے شہروں کی نسبت زیادہ فعال و مستعد ہوتی ہے اور قانون کی عملداری بے مثل و بے نظیر‘ کسی زمانے میں اسلام آباد واقعی مثالی شہر تھا مگر کچھ عرصے سے یہ کراچی اور دیگر شہروں کی طرح طاقتوروں اور قانون شکنوں کی چراگاہ ہے اور امن و امان کی صورت حال خراب ،قانون شکنی روزمرہ کا معمول ہے‘مانسہرہ کے پانچ دوست آنکھوں میں اے این ایف کی باعزت و بارعب ملازمت کے سپنے سجائے ‘اپنی ماﺅں بہنوں کی دعاﺅں کا اثاثہ سمیٹے اسلام کے نام پر آباد ہونے والے شہر میں آئے تھے‘ٹیسٹ دینے کے بعد ان کا ارادہ شائد فیصل مسجد میں نماز ادا کرنے‘ حضرت بری امام کے مزار پر حاضری دینے اور پارلیمنٹ ہاﺅس‘ وزیر اعظم ہاﺅس اور سپریم کورٹ کی پرشکوہ عمارت دیکھنے کا بھی ہو لیکن ایک طاقتور اور بااختیار شخصیت کے صاحبزادے کی گاڑی نے ان سارے سپنوں‘ ارادوں اور آرزوﺅں پر پانی پھیر دیا۔چاروںکو یہ مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنے قاتل سے یہ پوچھ سکیں۔ خیر مذکورہ بالا مقدمہ تو درج ہوتے ساتھ ہی خراب ہوگیا، کیوں کہ ریاست خاموش ہے، اور یقینا اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملے کے معاملے پر بھی خاموش رہے گی، مگر سوال یہ ہے کہ جب پورے کا پورا سسٹم ہی سوئی کی نوک پر کھڑا ہو تو کیسے انصاف ممکن ہو سکتا ہے۔ آپ یقین مانیں کہ میرا ایک ذاتی کیس قصور سول کورٹ میں لگا ہوا ہے، اس کیس کو لگے ہوئے 10،12سال ہوگئے ہیں ، کبھی جج تبدیل ہوجاتے ہیں تو کبھی مخالفین کے وکلاءتبدیل۔ علم ہی نہیں ہے کہ کیس کہاں تک پہنچا ہے اور کب تک فیصلہ ہوگا، اس کیس کے حوالے سے اگلے کسی کالم میں خصوصی طور پر روشنی ڈالوں گا لیکن فی الوقت اتنا ہی بتاتا چلوں کہ میرا اپنا وکیل یہی کہتا ہے کہ میری زندگی میں یہ کیس مکمل نہیں ہو سکتا! بہرکیف مغرب تو اپنے شہریوں کے لیے ایک بہتر انصافی مشینری صدیوں پر پھیلی ناانصافی کے ملبے پر بنانے میں کامیاب ہو گیا۔مگر کیا یہی بات ترقی پذیر ممالک کے عدالتی نظام کے بارے میں بھی تیقن سے کی جا سکتی ہے کہ فیصلے ناقص ہو سکتے ہیں جج غلط نہیں ہو سکتے۔اس کا تعلق براہ راست قانون سازی کے معیار سے ہے۔اگر قانون انسان دوست ہے تو جج کا فیصلہ بھی انسان دوست ہوگا۔اگر قانون ہی انسان دشمن ہے تو پھر عدالت بھی اسی نظام کی پیداوار ہو گی اور وہی فیصلے دے گی جس سے ظلم کا نظام مضبوط ہو۔ اور اس معاشرے میں جیسے جیسے لا قانونیت کی مثالیں بڑھتی جائیں گی ہم پیچھے کی طرف جاتے جائیں گے، جیسے ہم کرپشن میں 7درجے نیچے آئے اسی طرح ہم عدالتی انصاف کے حوالے سے مزید 10درجے نیچے چلے گئے ہیں اور ڈیڑھ سو ممالک میں ہمارا نمبر 130واں ہے۔ اور رہی بات حالیہ کیسز کی تو جس طرح کراچی میں شاہ رخ جتوئی کیس کا کچھ نہیں ہوسکا، کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کے عزیز اور ان کی جماعت کے ایم پی اے عبدالمجید اچکزئی کا کچھ نہیں ہو سکا ، اسی طرح دارالحکومت میں وفاقی خاتون محتسب کشمالہ طارق کے صاحبزادے کے کیس میں بھی کسی کا کچھ نہیں ہوگا۔ کیوں کہ تینوں کیسز میں مماثلث ہے۔ تینوں معاملات میں طاقتور اور کمزور ‘ امیر اور غریب‘ قاتل اور مقتول ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور ریاست‘ ریاستی ادارے اور حکمران فریق ثالث کے طور پر مدعی اور منصف‘ تینوں بار طاقتور ‘ امیر اور قاتل سرخرو ہوئے اور فریق ثالث نے خاموش تماشائی بن کر ایمانداری سے طاقت‘ امارات اور قانون شکنی کا ساتھ دیا ‘کبھی اپنے روائتی سنگدلانہ طرز عمل پر شرمندگی محسوس نہیں کی‘حتیٰ کہ ریاست مدینہ کے علمبردار حکمران نے بھی اشرافیہ کی تابعدار و نمک خوار پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی یکطرفہ رپورٹ پر یقین کیا، زخمی عینی شہادت سے کچھ معلوم کرنے کی زحمت گوارا کی نہ سیف سٹی کے کیمروں کی فوٹیج طلب کر کے یہ دیکھنا پسند فرمایا کہ وقوعہ کے وقت ڈرائیونگ سیٹ پر کون بیٹھا تھا اور جب چار بے گناہ گاڑی سے کچلے گئے تو کشمالہ طارق کے صاحبزادے کا ردعمل کیا تھا؟ پولیس‘ انتظامیہ اور حکمران تو عرصہ ہوا سنگدل اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے‘ نظام عدل بھی ان کے گھر کا نوکرچاکر ہے۔ بہرحال مجھ سمیت بہت سے لوگ مایوس ہیں، کہ اس معاشرے میں کالے کوٹ سے لے کر طاقتور مافیا تک سبھی طبقات میں بے حسی بڑھ چکی ہے ، سانحہ ماڈل ٹاﺅن ہو، سانحہ ساہیوال ہو، سانحہ بلدیہ ٹاﺅن ہو، سانحہ پی آئی سی ہو یا موجودہ سانحہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہوقانون ایک مکڑی کا جالا بن چکا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا ہے اور طاقتور اسے توڑ کر نکل جاتا ہے۔ بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ کسی غریب کی موت پر بھی ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ذمہ دار کتنا طاقتور و بارسوخ ہے،حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ہمارے بچوں کے لیے پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو چکا ہے ، کیوں کہ جس معاشرے قانون نے سب کو جوڑ رکھا ہو، وہی سب کے لیے مذاق بن جائے تو خاکم بدہن ریاستوں کو بکھرتے ہوئے دیر نہیں لگتی( اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین)