پاکستان پولیس کا معیار کون بلند کرے گا؟

پاکستان میں پولیس کا ڈیڑھ صدی پرانا برطانوی نظام چل رہا ہے، جس میں 2002ءمیں چند ایک اصلاحات کی گئیں لیکن اُس سے بھی پولیس کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکااور عوام اور پولیس کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا۔اسی فاصلے کی وجہ سے نہ تو ملک بھر میں امن و امان قائم ہو سکا اور نہ ہی پولیس کی رٹ کہیں قائم ہوسکی۔حالانکہ برطانیہ میں بھی پولیس کا نظام پونے دو سو سال پرانا ہے لیکن وہاں کا پولیس نظام دنیا کا بہتر ین نظام ہے۔ یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ برطانیہ کی پولیس دنیا میں آج بھی پہلے نمبر پر ہے، پاکستان اس فہرست میں کہیں شمار نہیں کیا جاتا۔ جبکہ بہترین پولیس میں دوسرے نمبر پر کینیڈین پولیس، تیسرے نمبر پر ہالینڈ کی پولیس، چوتھے نمبر پر فرانس کی پولیس، پانچویں پر جاپانی پولیس، چھٹے پر امریکی، ساتویں پر آسٹریلین ، آٹھویں پر جرمن ، نویں پر چائینز پولیس اور دسویں نمبر پر اٹالین پولیس آتی ہے۔ جبکہ کرپٹ ترین پولیس فورسز کی فہرست میں پاکستان کا آٹھواں نمبر آتا ہے، اگر ہم پہلے نمبروں کی بات کریں اس فہرست میں پہلے نمبر پر کینیاپولیس، دوسرے نمبر پر برمی پولیس، تیسرے پر عراقی پولیس، چوتھے نمبر پر صومالین پولیس، پانچویں پر افغانی پولیس، چھٹے پر سوڈانی پولیس، ساتویں پر روسی پولیس، نویں پر ہیٹی اور دسویں نمبر پر میکسیکو پولیس آتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پولیس نظام برطانیہ نے اپنے لیے بنایا وہاں کامیاب رہا اور جو نظام اُس نے متحدہ ہندوستان کے لیے بنایا وہ ناکام ترین کیوں ہے؟ قارئین یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ برطانیہ نے اپنے پولیس نظام کے لئے جو اصول طے کیے تھے وہ ہندوستانی پولیس کے لیے پیش نظر نہ رکھے گئے کیونکہ برطانیہ ایک آزاد ملک تھا جب کہ ہندستان ایک غلام ملک تھا ۔ لہذا دونوں ملکوں کے پولیس نظاموں میں واضح فرق تھا،برطانیہ کی پولیس عوام دوست تھی جبکہ ہندوستان کی پولیس عوام کو غلام اور محکوم رکھنے کے لئے تھی۔ سر رابرٹ پیل نے 1829میں لندن میٹرو پولیٹن پولیس کی تشکیل کے لئے جو بنیادی اصول طے کئے وہ آج بھی وہاں قابل عمل ہیں۔ سررابرٹ پیل کہا کرتے تھے کہ پولیس کا بنیادی مشن جرائم کو روکنا اور امن قائم کرنا ہوتا ہے تاکہ ریاست کا نظم و نسق خوش اسلوبی کے ساتھ چلتا رہے، پولیس کی کامیابی اور اہلیت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ عوام اس کے اقدامات کی تعریف کریں، پولیس جب آئین اور قانون پر بلاتفریق بلاامتیاز عمل کرتی ہے تو اسے عوام کا اعتماد حاصل ہوتا ہے اور یہ عوامی اعتماد ہی پولیس کی کامیابی کا ضامن بنتا ہے۔ لیکن پولیس جب عوام پر ڈنڈے کی طاقت استعمال کرتی ہے تو اس کے اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں لہٰذا لازم ہے کہ پولیس تشدد کرنے سے گریز کرے اور عوام کو قائل کرنے پر زور دے۔ اور مشہور کہاوت ہے کہ مار سے زیادہ ڈر خوف زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ قصہ مختصر کہ پولیس کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ کرائم ریٹ کنٹرول میں رہے اور امن وامان قائم رہے، یہ تھے وہ بنیادی اصول جن کی بنیاد پر لندن میٹروپولیٹن پولیس تشکیل دی گئی جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی دنیا کی مثالی اور معیاری پولیس فورس ہے۔ لیکن جب کوئی بھی ریاست ان بنیادی اصولوں کو فراموش یا نظرانداز کر دیتی ہے تو پولیس کا نظام ناکام بن کر رہ جاتا ہے اور عوام کا اعتماد ہی پولیس فورس سے اٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پولیس کو امن و امان قائم رکھنے کے لیے اور جرائم پر قابو پانے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے حالیہ واقعات کی مثال لے لیں، کالعدم تنظیم کے کارکنوں کو روکنے کے لیے جب پولیس کا فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنا پڑا تو 300اہلکار زخمی اور 6شہید ہوگئے۔ پچھلی بار جب اسی قسم کا احتجاج ہوا تھا تب بھی یہی حالات تھے۔ اور اب جبکہ حکومت پاکستان اورکالعدم تحریک لبیک پاکستان میں خفیہ معائدہ طے پانے کے بعد محکمہ پولیس پنجاب کے اندر شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے، پنجاب پولیس کے چھ شہیدوں کے حوالے سے حصول انصاف کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں ، لاہور کے چھ پولیس اہلکاروں کے اہلخانہ انصاف کے منتظر، ریاست کی رٹ قائم کرنے کی تگ و دو میں جان دینے والے پولیس اہلکاروں کی جانوں کا سوداکرنے سے پولیس کا مورال کم ہورہا ہے اور آئندہ کسی بھی احتجاجی مہم میں پولیس کو استعمال کرنے کے حوالے سے جوانوں کے حوصلے پست دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ ان پولیس والوں نے یعنی پنجاب کی 72فیصد پولیس نے کسی نہ کسی انداز میں اس شورش کو روکنے کی کوشش کی اور ریاست کی رٹ قائم کرنے، مظاہرین کو منتشر کرنے اور امن و امان کے قیام کی ذمہ داری نبھائی، اس کیلئے پولیس اہلکاروں نے دن رات ڈیوٹیاں بھی دیں اور وزارت داخلہ کے ماتحت تمام تراحکامات پر عمل درآمد کرکے بھی دکھایا ہے۔لیکن اب وزیر اعظم نے اس حوالے سے بڑی انکوائری کا حکم دیا ہے کہ پنجاب پولیس مظاہرین کو روکنے میں ناکام کیوں ہوئی؟ لیکن حکومت کی یہ منطق سمجھ سے با ہر ہے کہ بھئی جب آپ نے مبینہ معاہدے میں موجود شقوں کو ابھی تک چھپا کر رکھا ہے اور اسی معاہدے کے مطابق کالعدم تنظیم کے مظاہرین کو چھوڑ بھی رہے ہیں، اور حکومت تمام مقدمات واپس بھی لے رہی ہے تو کیا اس سے پولیس کے اندر تشویش نہیں پائی جائے گی؟ اور اگر حکومت یہ اقدام کرتی کہ جن لوگوں نے پولیس پر تشدد کیا اُنہیں گرفتار کرکے مقدمات چلاتی تو اس سے شاید پولیس کا ناصرف مورال بلند ہوتا بلکہ خدانخواستہ اگلے کسی احتجاج کو روکنے سے پہلے پولیس کا مورال بھی بلند ہوتا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال اسی قسم کے حالات کا فرانس کو بھی سامنا رہا، فرانسیسی پولیس مہنگائی اور دیگر نئے قوانین کے خلاف احتجاج کرتے مظاہرین سے لڑتے لڑتے تھک چکی تھی، اُنہیں مسلسل چھ ماہ سے احتجاج کا سامنا تھا، جبکہ پولیس کو مورال گزشتہ چھ ماہ سے ہی بلند تھا، مگر ایک وقت آیا کہ پولیس کے خلاف نفرتیں بڑھنے لگیں اور عوام اور پولیس کے درمیان فاصلے بھی بڑھنے لگے اور مظاہرین چن چن کر پولیس اہلکاروں کے گھروں پر حملے کرنے لگے، ایسے میں وہاں کی حکومت نے پولیس کا بھرپور ساتھ دیا، اُنہیں سپیشل الاﺅنس کے ساتھ ساتھ پولیس فورس کے لیے ایسے قوانین بنائے کہ پولیس کے اختیار میں مزید اضافہ ہوگیا اور کسی بھی پولیس اہلکار کی قومی اخبار، چینل یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر تصاویر شائع کرنے سے روک دیا۔ ان قوانین کے بعد احتجاج میں شدت آگئی اور عام عوام نے اسے آزادی اظہار رائے میں رکاوٹ قرار دیا لیکن ایسا کرنے سے پولیس کا مورال بلند ہوگیا اور انہوں نے ان مظاہرین کو بھرپور قوت سے روکا اور احتجاج اگلے چند روز میں لپیٹ دیا۔ یعنی عوام پیچھے ہٹ گئے اور فرانسیسی صدر ”جیت“ گئے۔ لیکن یہاں” احتجاجی جتھہ“ تو پولیس پر ظلم ڈھاتا ہی ہے، ساتھ وی آئی پیز بھی پولیس پر غصہ اُتارنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے، جیسے چند سال قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری اور ان کے بیٹے نے تلاشی لینے کے دوران پولیس اہلکاروں پر تھپڑ جڑ دیے۔ پھر لاہور میں ایک مبینہ طور پر نشے میں دھت خاتون نے شور شرابا کیا۔ نزدیک ہی موجود پولیس پارٹی موقعے پر پہنچی اور خاتون سے کہا کہ وہ بوتل ہٹائیں لیکن خاتون نے پولیس اہلکار کی بات سننے کے بجائے اس کو مارنا شروع کر دیا۔تھپڑ مارنے کے بعد خاتون آرام سے اپنی دوست کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ کر چل پڑیں۔ سی سی پی او نے پولیس اہلکار کی تعریف کی کہ عورت کی بدتمیزی کے باوجود ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ پھر کانسٹیبل فائزہ فیروز والا کچہری میں سکیورٹی پر مامور تھیں۔ ایڈووکیٹ احمد مختار اور کانسٹیبل کے ساتھی پولیس اہلکار کے درمیان مین گیٹ پر گاڑی کی غلط پارکنگ پر بحث ہوئی۔ احمد مختار سے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کرنے کا کہا گیا کیونکہ سکیورٹی چیک میں دقت ہو رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی ایڈووکیٹ احمد مختار اشتعال میں آگئے اور کانسٹیبل فائزہ کو مبینہ طور پر لاتیں اور تھپڑ مارنا شروع کر دیے۔پھر کراچی میں ایک خاتون نے پولیس اہلکار کو تھانے کا گیٹ کھولنے کے لیے کہا تاکہ وہ اپنی گاڑی اندر لا سکے۔ اہلکار کے انکار پر خاتون پہلے ہارن بجاتی رہی اور جب گیٹ نہیں کھلا تو وہ گاڑی سے اتری اور پہلے بدتمیزی کی اور پھر اہلکار کو تھپڑ مارا۔ یہ چند واقعات پولیس کی ”عزت افزائی“ کا واضع اور دو ٹوک ثبوت ہیں، لہٰذایہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر واقعہ کے محرکات تلاش کرنے اور اس طرح کے واقعات کے مستقبل میں روک تھام کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا ہے۔ دنیاکا سب سے بڑا واقعہ نائن الیون کا ہوا۔ سینکڑوں لوگ مارے گئے دنیا کی طاقتور ایٹمی طاقت پٹ کر رہ گئی۔ لیکن اس میں ایک سپاہی بھی معطل نہیں ہوا۔ طیارے امریکہ کے تمام سیکورٹی حصار توڑتے ہوئے ٹارگٹ تک پہنچ گئے لیکن انتظامیہ پر کریک ڈاون کی بجائے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر کام ہوا۔ یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا۔؟ مثبت اور منفی پہلووں کو کھنگالا گیا اور اس کے لئے نئے ایس او پیز بنائے گئے۔ اور مستقبل میں اس جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے تھینک ٹینک نے کام کیا اور سسٹم میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا گیا۔ لیکن قابل غور امر یہ کہ کیا ہمارے ملک میں بھی کبھی ایسا ہوا؟؟؟جوڈیشل کمیشن، فیکٹ فائیڈنگ رپورٹ، انکوائری کمیٹی بننے سے کیا عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی پنجاب پولیس جرائم سے لڑنے کی بجائے میدان سے بھاگ رہی ہے۔ اس وقت پنجاب پولیس کا مورال گزشتہ کئی برسوں سے بدستور زبوں حالی کا شکار ہے۔ جب بھی کوئی سکیورٹی کابڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے یا کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو ہر برائی کا ذمہ دار پولیس کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔لہٰذاپولیس کا مضبوط کرنے سے ریاست مضبوط ہوگی، پولیس میں کرپشن ختم کرکے عام پولیس اہلکار کے مسائل حل کرنے سے پولیس مضبوط ہوگی، انہیں سی ایم ایچ قسم کی میڈیکل سہولیات دینے سے اُن کے حوصلے بلند ہوں گے۔ کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر پولیس کا مورال بلند ہوگا جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے! #Pakistan #Punjab Police #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan