سانحہ مشرقی پاکستان: کیا ہم بھی کبھی غلط تھے؟ (1)

یوم سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن اور رستا ہوا زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر پائے گا۔ بلاشبہ اس دن کا سورج ہمیں شرمندگی اور پچھتاوے کا احساس دلاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے اور تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کرتا نظر آتا ہے۔لیکن 1971ءسے لیکر آج تک49سالوں میں ہم نے اس سانحہ سے کچھ نہیں سیکھا، بلکہ آج بھی حالات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ گزشتہ دور کی نسبت اس دور میں ”جمہوریت “ کا تڑکہ زیادہ لگایا جاتا ہے ۔خیر یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ اس سانحے کے پیچھے دشمن ملک کا ”بڑا ہاتھ“ تھا، لیکن وہ دشمن تو آج بھی ویسا ہی ہے، اور دشمن کا تو کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟ آپ کس طرح سے اپنے آپ کو بچائیں گے؟، اور ویسے بھی متحدہ پاکستان کی تقسیم کے لئے سازگار حالات تو ہمارے حکمرانوں نے خود پیدا کئے۔ہم کسی اور پر یہ الزام کیوں عائد کریں۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے حکمراں دشمن کی دشمنی کے آگے بند باندھنے کے بجائے دشمن کو ایندھن فراہم کرتے رہے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اقلیت ملک توڑنے کا سبب بنتی ہے اور علیحدہ وطن کے لئے کوشاں رہتی ہے کیونکہ وہ اکثریت سے متنفر ہوتی ہے لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کی جدوجہد کی۔ دنیا میں کیا کوئی اس قسم کی مثال ملتی ہے؟ جدید دنیا تو دور کی بات قدیم دنیا میں بھی ایسی ”جدوجہد“ کی مثال نہیں ملتی۔ اور چونکہ مشرقی پاکستان کی آبادی جو ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی، میں اس احساس محرومی نے جنم لیا کہ وسائل کی تقسیم میں اُن سے ناانصافی اور معاشی استحصال کیا جارہا ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ مشرقی پاکستان میں سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والوں میں سے اکثریت کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا جو بنگالی زبان سے بھی ناآشنا تھے۔ حد تو یہ تھی کہ ایک جانب یہ اندوہناک سانحہ ہو چکا تھا کہ لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کی جانے والی مملکتِ خداد داد دو ٹکڑے ہو چکی تھی اور دوسری جانب اس سانحے کے اگلے روز ہی اقتدار کی بندر بانٹ شروع ہو چکی تھی۔ اُس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر ذوالفقار علی بھٹو بڑی عجلت میں نیویارک سے واپس پاکستان پہنچے اور یوں 20دسمبر1971ءکوصدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو منتقل کرکے ایک طرف ہوگئے۔ بچے کھچے پاکستان کی حکمرانی سنبھالتے ہی قوم کو بیوقوف بنانے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو نے نیا نعرہ لگادیا کہ ”شکر ہے پاکستان بچ گیا“۔یہ نعرہ بڑا حیران کن اور افسوسناک تھا۔ایک اور حیران کن امر یہ تھا کہ اس سانحے کے بعد صرف اقتدار کی بندر بانٹ ہی نہ ہوئی تھی بلکہ سترہ دسمبر کی صبح سقوط مشرقی پاکستان پر آنسو بہانے کے بجائے سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں ہر کوئی بنگالی افسروں کے نکل جانے پر سینارٹی لسٹ میں اپنا نمبر چیک کرتا پھر رہا تھا۔ یہ تھا وہ سبق جو اقتدار اور طاقت کے ایوان چلانے والوں نے پلٹن گراو¿نڈ میں شرمناک ہزیمت اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سیکھا تھا! قارئین !قوم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے بجائے اپنی غلطیاں درست کرکے آگے بڑھے اور ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو آئندہ سدھارنے کی کوشش کرے، ہم کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتے، کہ سانحہ مشرقی پاکستان کس کی وجہ سے ہوا ہے لیکن جو ہماری اجتماعی غلطیاں ہیں، جس کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی، کو کم از کم تسلیم ہی کر لیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بنگالی سیاستدان دودھ کے دھلے تھے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ انہوں نے متحدہ پاکستان میں رہنے کی سر توڑ کوششیں کیں ، مگر یہ سوال ضرور ذہن میں اُبھرتا ہے کہ آخر ہم سے غلطی کہاں ہوئی؟ اور پھر ہم نے بنگالی سیاستدانوں کا جو حشر کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے، ہم نے سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین جن کا تعلق بنگال سے تھا کو نہ صرف برطرف کیا بلکہ انہیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر بھی مجبور کیا، پھر ہم نے حسین شہید سہر وردی جو قائد اعظم کے قریبی ساتھ تھے اور بنگالی بھی تھے، کو ہم نے وزیر اعظم بنایا اور ”غدار“ کے خطاب سے نواز کر 1962میں قتل بھی کروا دیا۔ پھر ہم نے انتظامی طور پر بھی جو زیادتیاں کیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں لے لیتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں ”قیام پاکستان کے بعد مجھے انڈر سیکرٹری کے طور پر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ سیکشن کا انچارج بنایا گیا مسٹر آئی آئی چندریگر وزیر اور غلام محمد وزیر خزانہ تھے کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کے لیے نئی عمارتیں زیر تعمیر تھی اُن کے لیے سینٹری کا سامان درآمد کرنا تھا اس کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی میٹنگ میں چار وزیر اور کچھ افسر تھے وزیروں میں مولوی فضل الرحمان بھی تھے، اُن کے پاس داخلہ کا چارج بھی تھا کچھ بحث و تحمیص کے بعد جب سینٹری کے سامان کا کوٹہ طے ہو گیا تو ایک وزیر نے دبے الفاظ میں تجویز پیش کی کہ اگر امپورٹ کا کچھ حصہ ڈھاکہ کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ اس تجویز پر بڑی ہنسی اُڑی کسی نے کہا ڈھاکہ میں کوئی خاص تعمیری کام شروع نہیں ہوا اس لیے وہاں یہ سامان بھیجنے کی کوئی تُک نہیں کسی نے کہا جو سامان ڈھاکہ جائے گا وہ لازمی طور اسمگل ہو کر کولکتہ جائے گا ایک صاحب نے مذاق ہی مذاق میں یہ پھبتی اُڑائی کہ کہ بنگالی لوگ کیلے کی گاچھ کی اوٹ میں بیٹھ کر رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں وہ ابھی سے کموڈ اور واش بیسن لے کر کیا کریں گے۔ مولوی فضل الرحمان مسکرائے نہ بگڑے بلکہ زور دے کر کہا کہ علامتی طور پر کچھ حصہ ضرور بھیج دیں، کچھ بحث و مباحثہ کے بعد مولوی فضل الرحمان کی بات مان لی گئی لیکن ایسی بدمزگی کے ساتھ جس طرح دودھ میں مینگنیاں ڈال کر پیش کیا جاتا ہے میرے خیال میں لاشعوری طور پر بنگلہ دیش کی بنیادوں کی کھدائی کا کام اُسی روز سے شروع ہو گیا تھا۔ پھر آپ ریکارڈ چیک کر لیں، کہ بنگالی سیاستدانوں کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہم اُن کے بجٹ میںبھی کٹوتی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے، یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے آج کل سندھ اور بلوچستان شور مچا رہے ہیں کہ اُن کے وفاق اُن کے بجٹ میں کٹوتی کر رہا ہے، ہمیں آج تاریخ سے سیکھنا چاہیے ۔ مثلاََ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستا ن میں کیے گئے اخراجات کاپنج سالہ موازنہ جس میں 1950-55، کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مغربی پاکستان پر 1125 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو کل اخراجا ت کا 65فیصد تھے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل اخراجات کا35یعنی 500 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔اسی طرح 1955-60کے دوران مغربی پاکستان پر 1655 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخرجات کا 76فیصد تھے جب کہ اسی دوران مشرقی پاکستان پر 524 کروڑخرچ ہوئے جو ان پانچ پرس کی مدت کی بنیاد پر 24.05 فیصد تھے۔ 1960-65کے دوران مغربی پاکستان پر 3355 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا 70.5 % تھے اورمشرقی پاکستان پر 1404 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا 29.5 فیصد تھے اور 1965-70میں مغربی پاکستان پر 5195 کروڑ روپے خرچ ہوئے جوکل اخراجات کا 70.82 % تھے اور اسی دوران مشرقی پاکستان پر 2141 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو کل اخراجات کا 29.18 % تھے اور ان بیس برسوں میں مجموعی طور پر مغربی پاکستان پر 11334 کروڑ روپے خرچ کیے گئے جو بیس سالہ کل اخراجات کا 71.16 % تھے اور اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل 3593 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 28.84 % ہوتا ہے ۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں، ان میں سے واقعتا کتنے پیسے مشرقی پاکستان کو پہنچائے گئے اس کی رسیدیں فی الوقت موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ اُس وقت مشرقی پاکستان ”کماﺅ پوت“تھا کیوں کہ 1960ءکی دہائی اور اُس کے بعد بھی وہ متحدہ پاکستان کی کل برآمدات کا 70فیصد برآمد کرتا جبکہ مغربی پاکستان کا ملکی معاشی ترقی میں 30فیصد حصہ تھا۔ اور یہ سب کچھ ایوب دور (1969-1958) میں بھی جاری رہا بلکہ اسے یوں بھی کہا جائے کہ ایوب دور میں بنگالیوں میں سب سے زیادہ احساس محرومی پیدا ہوا تو غلط نہ ہوگا،صدرایوب خان کی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا، یوں اُن کی حکومت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بیج کو مزید پانی دیا اور کھاد فراہم کی۔ اورپھر اگلے چند برسوں میں سقوطِ ڈھاکا کا واقع پیش آگیا۔اُنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے مذہبی بنیاد پرستوں کو مضبوط کیا۔کئی لوگ اقتصادی ترقی کو اُن کی غیر معمولی کامیابی گردانتے ہیں مگراُس دوران آمدنی میں عدم مساوات کو فروغ ملنے سے ملک میں صرف22 گھرانوں کو عروج نصیب ہوا جنہوں نے قومی وسائل پر اپنا اختیار جما لیا اور اپنے پاس کالا دھن جمع کیا، اِس طرح باقی لوگوں میں غربت، بھوک اور مایوسی پھیلی رہی۔ وہ اقتصادی ترقی نہیں تھی بلکہ چند افراد کے ہاتھوں میں بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت کی بہتات تھی جس نے محرومیوں کو جنم دیا اور یوں مشرقی پاکستان میں اشتعال انگیزی کو فروغ ملا۔منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک تنقیدی رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ صرف 22 گھرانے دو تہائی صنعت اور تین چوتھائی بینک کاری پر قابض تھیں، اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی یہ خاندان بڑی وجہ تھے،کیوں کہ ہم نے انہی کو بویا ہوا کاٹا۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حیرت انگیز طور پر ان 22گھرانوں کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔پاکستان کے انقلابی شاعر حبیب جالب اِس ناانصافی کو نظر انداز نہ کرسکے۔ اجتماعات میں جب وہ اُن 22 نو دولتیوں پر ملامت کرتے ہوئے اپنی شاعری سناتے، جو کروڑوں کو غربت میں چھوڑتے ہوئے خود اور بھی امیر بن گئے تھے، تو سننے والوں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا،جالب نے لکھا: بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑں ہیں ناشاد صدر ایوب زندہ آباد