اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق :بہت دیر کی مہرباں آتے آتے !

17نومبربروز بدھ تحریک انصاف کی حکومت کا ایک ایسا ”خوش قسمت ترین دن تھاکہ اس دن حکومت نے پارلیمنٹ سے ریکارڈ 33بل منظور کروائے۔ یہ بالکل ایسے تھا جیسے کورونا کے دنوں میں سکول و کالج کے بچوں کو دھڑا دھڑ پاس کیا گیا! اس دن اپوزیشن نے روایتی نورا کشتی جاری رکھی، جس سے عام پاکستانی ”سہم“ گیا کہ نہ جانے اب اپوزیشن کونسا پہاڑ توڑ دے گی۔مگر شکر ہے کہ نہ توپہاڑ ٹوٹا نہ کوئی کرسی نہ گلاس ٹوٹا اور نہ ہی کوئی گتھم گتھا ہوا۔ بلکہ چند پیپر کو پھاڑ کر سپیکر قومی اسمبلی کی طرف ایسے پھینکے گئے جیسے اُن پر خوشی کے عالم میں کسی نے ”پھولوں“ کی بارش کر دی ہو۔ اور پھر اپوزیشن نے نورا کشتی میں ٹوئسٹ اُس وقت پیدا کیا جب اُنہوں نے احتجاجاََ اسمبلی سے واک آﺅٹ کرکے حکومت کو پورا موقع فراہم کیا۔ خیر جیسے بھی ہوئے مگر بل پاس ہو گئے ان بلز میں سے کئی بل بہت بہتر بھی تھے، جیسے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیزپاکستانیوں سے متعلق بل جس میں اُنہیں ووٹ کاسٹ کرنے کا حق دے دیا گیا ہے۔ اس حق کو ملنے کے بعد ویسے تو 90فیصد عوام خوش نظر آرہے ہیں مگر چند سیاستدان اس بل کو سپریم کورٹ تک لے جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اُن کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ نیویارک میں بیٹھے شخص کو کیسے علم کے ملتان کے حالات کیسے ہیں؟ حالانکہ یہ بہت ہی بے ہودہ قسم کا عذر ہے ۔ کیوں کہ بادی النظر میں ایک عام ووٹر سے زیادہ شعور اوورسیز پاکستانیوں کو ہوتا ہے۔ اور پھر اگر متعلقہ حلقے کے لوگ اتنے ہی باشعور ہوتے تو وہ سابقہ چور اور کرپٹ حکمرانوں کو ووٹ دیتے؟جنہوں نے 73سالوں میں ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ جبکہ ان کی نسبت اوور سیز پاکستانیوں کا وژن بہتر ہوتا ہے، سب سے بڑھ اُن کا ایکسپوژر عام پاکستانی سے زیادہ ہوتاہے، ایک عام پاکستانی کی سوچ تو شاید کنویں کے مینڈک کی طرح ہوتی ہے، کہ وہ کنویں کو اپنا سمندر سمجھ بیٹھتا ہے۔ لیکن اوور سیز پاکستانی جس ملک میں رہتا ہے، وہ یہ سوچتا ہے کہ ایسا سسٹم پاکستان میں کیوں نہیں ہے؟ وہ اپنے وطن کے لیے درد رکھتا ہے، کہ کاش پاکستان میں بھی سسٹم بہتر ہوجائے۔ لیکن وہ یہ سب چیزیں دیکھتے ہوئے بھی خود کو بے بس صرف اس لیے محسوس کرتا ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتا۔ یقین مانیں میں بذات خود ہر سال ایک دو مرتبہ بیرون ملک سفر کرتا ہوں تومجھے بطور عام پاکستانی اُن چیزوںکا علم نہیں ہوتاجن کے بارے میں وہ علم رکھتے ہیں، حتیٰ کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں ایک ضمنی الیکشن کے بارے میں بھی وہ عام پاکستانیوں سے زیادہ آگہی رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ وہ اپنے وطن سے دور اُنہیں جب وطن کی یاد آتی ہے تو وہ پاکستان کے بارے میںزیادہ چیزیں جاننے کے لیے نیٹ ”سرفنگ“ زیادہ کرتے ہیں۔ پھر اوور سیز پاکستانیوں میں سے زیادہ تعداد پڑھے لکھے اور باشعور افراد کی ہے جو ریسرچ پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ جس سے اُن کا ذہن کشادہ ہوتا ہے، اور وہ غلامی سے نکل کر چیزوں کو مختلف انداز میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ اندازہ لگالیں بلکہ خود تحقیق کر لیں کہ ہمارے عام شہریوں کی بڑی تعداد کو یہ تک علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے صدر کا کیا نام ہے، یا کون کون سی وزارت کس کے پاس ہے؟ حتیٰ کہ ماس کمیونیکیشن کے طلباءتک کو یہ باتیں پتہ نہیں ہوتیں۔ جبکہ اوور سیز پاکستانیوں کو ان وزیروں مشیروں کے بارے میں زیادہ علم ہوتا ہے۔ اور پھر افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف تو ہمارے معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اوورسیز پاکستانی نہ ہوتے اور وہ پیسہ اپنے آبائی وطن میں نہ بھیجتے تو نہ جانے پاکستان کا کیا حال ہوتا۔ شایدملک دیوالیہ ہو چکا ہوتا ۔ جبکہ دوسری طرف جب ووٹ کاسٹ کرنے کی باری آتی ہے تو ہمارا مشہور ڈائیلاگ ہوتا ہے کہ ”اُنہیں کیا پتہ؟“میرے خیال میں یہ ظلم ہے! کیا ہماری سیاسی پارٹیاں ان بیرون ملک پاکستانیوں سے پارٹی کے نام پر چندہ اکٹھا نہیں کرتیں؟ بتایا جائے کہ کونسی جماعت اُن سے پیسے نہیں لیتی ؟ کیا ہر جماعت کے سیاسی ونگز نہیں بنے ہوئے؟ وہ کیوں ہیں؟ کیا وہ اس لیے ہیں کہ یہ لیڈرز جب باہر جائیں تو انہیں پروٹوکول دیا جا سکے۔ ان کے آگے پیچھے دو چار لوگ ہوں جو ان کے لیے ضیافتوں کا اہتمام کر سکیں.... خیر شعور کی بات کی جا رہی تھی تو میرے خیال میں اوور سیز پاکستانیوں کو بے وقوف بنانا نسبتاََ مشکل بھی ہوتا ہے، یعنی یہاں تو لوگوں کو آپ بے وقوف بنا سکتے ہیں کہ لندن کے فلیٹس آپ نے کیسے خریدے؟ یا سرے محل خریدنے کا پیسہ کہاں سے آیا؟ مگر اوور سیز پاکستانی دلائل، ڈاکیومنٹس اور لوجیکل بات کرنے کے عادی ہوتے ہیں، اُنہیں سب سمجھ آرہا ہوتا ہے کہ کونسا سیاستدان کہاں سے بات کر رہا ہے۔ وہ اتنے باشعور ضرور ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے فیصلے کرتے ہیں، وہ ذات پات سے باہر نکل چکے ہوتے ہیں، اس لیے اُنہیں بے وقوف بنانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اُنہیں علم ہوتا ہے کہ کرپشن کیسے ہوتی ہے، منی لانڈرنگ کیسے ہوتی ہے؟ وہ ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہمارا ووٹر نسبتاََ غلامی کا شکار ہے، وہ شیر اور تیر سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، آپ الیکشن کے دنوں میں یہ محاورہ اکثر سنتے ہیں کہ فلاں سیاستدان خواہ کرپٹ ہے، لیکن ووٹ بھی اُسی کو ہی دوں گا۔ کیوں کہ وہ اُس کی آبائی پارٹی ہے۔ یعنی اُس کا خاندان شیر یا تیر کو ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو وہ بھی شیر، تیر یا بلے کو ووٹ دے گا۔ لہٰذاہمیں ان سب چیزوں سے نکلنا ہوگا، ہمیں دنیا کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اس بارے میں کیا کر رہی ہے، آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو کسی نہ کسی حوالے سے ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شرط رکھی ہے اور اگر کوئی اوورسیز شہری اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر پورا اترنا ضروری ہے۔اور پھر ہمارے رول ماڈل ملک جنہیں ہم ہر چیز میں فالو کرتے ہیں، وہ بھی اوورسیز شہریوں کو ووٹ کا حق دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ 15سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔ امریکہ میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوہری شہریت نہ ہو۔ مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک شہریوں کے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔کینیڈا میں 2019 سے پہلے تک کچھ شرائط تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے بیرون ملک رہنے والے شہری اب انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح کا حال اٹلی کا بھی ہے، لیکن اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمائندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔اور پھر ہم نے بھی تو یہ طریقہ کشمیر الیکشن میں اپنے ملک کے اندر ہی رائج کر رکھا ہے جیسے ہمارے ہاں جب آزاد کشمیر کے الیکشن ہوتے ہیں تو کشمیر سے باہر یعنی پاکستان کے دوسرے صوبے میں بھی حلقے بنائے جاتے ہیں، کہ وہ کشمیر کے حالات کو مدنظر رکھ کر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔ یعنی کشمیر الیکشن میں 45نشستوں پر الیکشن ہوتے ہیں، جس میں سے 33براہ راست آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں واقع ہیں جہاں 28 لاکھ 17 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔جبکہ 12 پاکستان کے دیگر حصوں کی ہیں جس کے 4 لاکھ 30 ہزار 456 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں۔ ان 12نشستوں میں سے 9پنجاب میں ہیں۔2سندھ/بلوچستان اور 1کے پی کے میں ہے۔ جن کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ صوبوں کے بڑے اضلاع ووٹ کا باقاعدہ اہتمام کرتا ہے اور پاکستان میں موجود کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذااگر اسی طریقہ کار کو فالو کرتے ہوئے بیرون ملک پاکستانیوں کو بھی ووٹ کی اجازت دے دی جائے اور کوئی بہتر طریقہ اپنایا جائے تو یہ 73سال پرانا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اگر یہاں بھی یہ کہہ دیا جائے کہ کوئٹہ میں رہنے والے پاکستانی کو کیا علم کہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟ جیسے ہم اوور سیز پاکستانیوں کے لیے کہتے ہیں تو میرے خیال میں کسی کام کے نہ کرنے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہوتا ہے، کہ اُس میں بدنیتی کا عنصر شامل کر لیا جائے۔ قصہ مختصر کہ جب پاکستان میں موجودہ مخصوص شہریوں کو دو ووٹ ڈالنے کا حق ہے تو اوور سیز پاکستان کیا اتنے ہی چبھتے ہیں کہ اُنہیں اس حق سے محروم رکھا جائے۔ لہٰذااگر پاکستان بھی بیرون ملک موجود 90لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیتا ہے تو اس سے پاکستان کا مثبت امیج ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔ اگر ہمارے سسٹم میں اوورسیز پاکستانیوں کو لے کر ووٹ ڈالنے میں تکنیکی مسائل ہیں تو بھائی! اُنہیں حل کروانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ناکہ اس کام کو ہی رد کر دیا جائے جس پر کسی ایک آدھ گروپ کی طرف سے اعتراض لگے۔ اسی لیے اس وقت جو سب سے بڑا کام کرنے والا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کیسے ہو گا؟ سمندر پار پاکستانیوں کے لیے انتخابی عمل کے انعقاد کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اور اسے کون ڈیزائن کرے گا، ای سی پی یا پارلیمان؟کون ووٹ ڈال سکے گا اور کون نہیں۔ کیا صرف وہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے جو دوسرے ممالک میں کام کرنے گئے ہیں اور کچھ سال بعد واپس آ جائیں گے، یا وہ بھی جو دوہری شہریت کے حامل ہیں۔کیا وہ دو مختلف ممالک میں مختلف حکومتیں بنانے کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ کیا بیرون ملک رہنے کی کوئی کم از کم مدت مقرر کی جائے گی؟ کیا ایسا کرنے کے لیے کوئی آئینی تبدیلیاں کرنا ہوں گی یا حکومت ان کے بغیر ہی ایسا کروا لے گی۔اگر کروالے گی تو اس کام کوبلاتاخیر آگے بڑھایا جائے تاکہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کو مزید اعتماد میں لیں اور صحیح قیادت چننے میں وہ ہماری مدد کر سکیں! #Overseas Pakistan #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan