بھارتی کسانوں کی جیت اور ہماری ”پی ڈی ایم“

یہ 1931ءکی بات ہے جب امریکہ کے شہر شکاگو میں بہت سے کسان سڑکوں پر تھے ، وہ حکومت سے نالاں تھے کہ اُن پر اضافی ٹیکس ڈال دیا گیا ہے، کسان اکٹھے ہوئے اورحکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، حکومت نے اسے اپنے خلاف دھمکی قرار دے کر کسانوں کو حوالات میں بند کرنا شروع کردیا۔ اپنے کسان بھائیوں کو گرفتار ہوتے دیکھ کر دیگر شہروں سے کسان شکاگو پہنچنا شروع ہوئے اور کم و بیش 30ہزار کسان اکٹھ ہوئے اور حکومتی پارلیمان کے سامنے عارضی خیمے لگا لیے۔ حکومت نے اکا دکا بار کسانوں پر تشدد بھی کیا جس سے چند افراد مارے گئے لیکن حکومت اپنے اقدامات سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھی۔ کسانوں کا احتجاج چونکہ جائز تھا لہٰذااُن کی تعداد بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور احتجاج بھی طویل ہوتا گیا۔ یہ لوگ مخصوص وقت کے لیے سڑکوں پر نکلتے اور دوبارہ خیموں میں جا بیٹھتے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ 3سال تک جاری رہا ، جس کے بعد بلآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور کسان کامیاب ہوگئے۔ اس احتجاج کے کم و بیش 80سال بعد 2020ءمیں بھارت نے بھی اسی قسم کی ٹیکس اصلاحات اپنے کسانوں پر بھی نافذ کیں یعنی 14 ستمبر 2020کو بھارتی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں زراعت کے تین بل پیش کیے گئے۔17 ستمبر 2020کو لوک سبھا میں بل پاس ہوا۔جسے 20 ستمبر 2020 کو بل راجیہ سبھا میںبھی منظورکیا گیا۔ اس قانون سازی پر بھارتی کسانوں کو سخت قسم کے تحفظات تھے جس پر انہوں نے 24ستمبر کو پنجاب میں تین روزہ ریل بند کرنے کا اعلان کیا۔احتجاج بڑھتا گیا ، جس نے پورے بھارتی پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجبکہ یہ احتجاج آج بھی جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد احتجاج تھا جس میں 800ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ اور اب لگ یہ رہا ہے کہ کسانوں کی یہ تحریک کسانوں پر سے زرعی قوانین کے خاتمے کے بعد ختم ہونے جا رہی ہے۔ کیوں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا واضح اعلان کردیا ہے۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم کسانوں کو قوانین پر اعتماد میں لینے میں ناکام رہے جس پر معافی مانگتا ہوں، ہم نے پوری کوشش کی؛ تاہم کسان راضی نہیں ہوئے،قوانین کی واپسی کیلئے آئینی عمل اسی ماہ شروع ہوجائے گا ،کسانوں سے درخواست ہے کہ گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ اس اعلان کا بھارت میں خیر مقدم کیا گیاکیونکہ یہ اعلان اگر اب بھی نہ ہوتا تو شمالی ہند کی ٹھنڈ میں پتا نہیں کتنے کسانوں کی جان چلی جاتی۔ اس احتجاج کے دوران لاکھوں لوگوں کو طرح طرح کی دیگر مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔بھارتی یومِ جمہوریہ پر لال قلعہ کے ترنگے کو بھی اتار پھینکا گیا۔جاڑے کے سخت دنوں میں ہزاروں کا مجمع پیدل، ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر دہلی کے لیے نکل پڑا۔ ایک طرف ہریانہ کی انتظامیہ اس جم غفیر کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی تو دوسری طرف انتظامیہ کا لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینین بھی جاری رہا، لیکن یہ سب اقدامات بھی انہیں قابو نہیں کرسکے اور انہوں نے بالآخر دہلی کی سرحد پر احتجاجی مقام رام لیلا گراونڈ سے 200 کلومیٹر د±ور سنگھو باڈر پر پڑاﺅ ڈال لیا۔ یہ بل کیا تھا کیانہیں اس پر اگر بات کریں تو بنیادی طور پر ان 3 بلوں میں زرعی منڈیوں کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور نجی کمپنیوں کو زرعی منڈیوں کے نظام میں شامل کیا گیا ۔ موجودہ منڈی کے نظام میں حکومتی شمولیت کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم ان کی فصل کا بہتر معاوضہ مل رہا تھا جبکہ حکومت کی رائے میں نئے قانون کے ذریعے آزاد منڈیوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بل کے مطابق:زرعی اجناس کی فروخت کے طریقہ کار، مقررہ قیمت اور زخیرہ کرنے کے نئے اصول بنائے گئے تھے۔ اس قانون کے تحت پرائیویٹ پارٹیوں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کی آزادی ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کسان کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صرف اس کی مقرر کردہ فصل اگائے۔لیکن کسان سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی خود قیمت لگائیں۔ خریدار سے اس بارے میں بات کریں اور اسے اپنی مقرر کردہ قیمت کی ادائیگی کے لیے راضی کریں۔ قصہ مختصر کہ بھارت میں نریندرا مودی نے کسانوں کے طویل احتجاج کے بعد ہتھیار ڈالتے ہوئے زرعی قوانین واپس لے لئے ہیں۔اس طویل احتجاج میں مودی سرکار نے کسانوں کو منتشر کرنے اور دبانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا۔ طاقت استعمال کی، تشدد کیا لیکن کسان اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے مطالبات کیلئے ڈٹے رہے۔ کسانوں کے طویل احتجاج سے تنگ آ کر نریندرا مودی کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ کسانوں نے اپنے احتجاج سے ثابت کیا ہے کہ اگر متحد ہو کر مشترکہ مفادات کے تحت کام کیا جائے تو کامیابی مل سکتی ہے۔ کسانوں کا مقصد واضح تھا، اُنہیں منزل کا علم تھا، اُنہیں علم تھا کہ مذکورہ قوانین واقعتا اُن کی آنے والی نسلوں کو مقروض بنا دیں گے اس لیے اُنہوں نے جانیں بھی قربان کیں اور پھر کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن اس کے برعکس جس تحریک کے پیچھے کوئی نظریہ نہ ہو، اور منظم سیاسی طاقت/جماعت نہ ہو، ایسی تحریک زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ نتائج پیدا نہیں کرسکتی۔ جذباتی عوام ایسی تحریک سے متاثر ہوتے ہیں، اور استعمال ہوجاتے ہیں۔جیسے ہماری حالیہ حکومت کے خلاف بننے والی ”پی ڈی ایم“ ہی کی مثال لے لیںوہ تین سال سے حکومت کے غلط فیصلوں اور عام آدمی پر بوجھ بننے والی پالیسیوں کیخلاف کسی قسم کی مزاحمت نہیں کر سکی، ایسا اس لیے ہے کہ پی ڈی ایم میں موجود تمام 9سیاسی جماعتوں کی نیت ہی صاف نہیں ہے، وہ عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے کا کہتی ہیں مگر اپنے اقتدار کی بات کر کے نہ جانے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پھر سب کو علم ہے کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس کی انتہائی ناقص حکمتِ عملی تھی، کسی بھی لڑائی سے پہلے اپنے مدِمقابل کی طاقت اور کمزوری کو جانے بغیر میدان میں اترنا ہی ناکامی کی علامت ہوتا ہے، پھر اپنی طاقت اور کمزوری کا اندازہ لگایا جاتا ہے، اس اتحاد میں ان دونوں چیزوں کی کمی نظر آئی۔ پھر جن بڑی سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں جان ڈالنا تھی وہ ایک پیج پر ہی نہیں ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں ن لیگ اور پیپلزپارٹی اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ پھر پی ڈی ایم کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کا بیرون ملک جانا اور پھر وہیں کا ہوکر رہ جانابھی ہے، بدقسمتی سے تین بار کے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے یہ پہلی بار نہیں کیا، ماضی میں ان کے سعودی عرب جانے سے پارٹی ٹوٹ گئی تھی اور ان کے اس عمل نے آمر کو طاقتور بنا دیا، بعد میں جاوید ہاشمی جیسے لوگوں کو طویل قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ اب میاں صاحب خمینی تو ہیں نہیں کہ باہر سے انقلاب لے آئیں، صرف نظریاتی ہونے سے بات نہیں بنتی ”قربانی“ بھی دینا پڑتی ہے۔یہ قربانی ایسی ہے جیسی بھارتی پنجاب کے کسانوں نے دی۔اس احتجاج میں بھارتی کسانوں کے 11مقامی لیڈر مارے گئے، جسے دیکھا دیکھی دوسرے کسانوں نے بھی ہمت پکڑی۔ جبکہ یہاں پی ڈی ایم کے بڑے جلسوں میں بھی سب نے دیکھا کہ اقتدار پسند سیاستدان چند گھنٹوں کے لیے اپنے حجروں سے نکل کر سٹیج پر آتے اور اپنی اپنی تقاریر کر کے چلے جاتے تھے۔ اور پھر ہماری سیاسی تحریکوں میں تو ویسے بھی ملاوٹ کا عنصر نمایاں ہوتا ہے، جسے ایک ناکامی مل جائے تو دوبارہ اُٹھنے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن تحریکیں تو بار بار کھڑے ہوکر گرنے سے اور گر کر سنبھلنے سے آتی ہیں۔ مشہور موجد تھامس ایلوا ایڈیسن کے لیے کہتے ہیں کہ اس پر بجلی کے بلب کو تجارتی پیماے پر بنانے کی دھن سوار تھی۔ اس نے کام کے لیے سیکڑوں نہیں، ہزاروں طریقے اپنائے۔ ہر بار ناکام ہونے پر وہ خود کو سمجھاتا تھا کہ ابھی میں وہ طریقہ تلاش نہیں کرپایا جو مجھے کامیابی کی جانب لے جائے۔ اس دھن میں وہ دس ہزار مرتبہ ناکام ہوا مگر ایک بار بھی مایوس یا دل شکستہ نہیں ہوا۔ بالآخر دس ہزار ناکامیوں کے بعد کامیابی اسی کے حصے میں آئی اور آج انسان ذات تاریکی سے نکل کر روشنی میں آچکی ہے۔ بجلی کے بلب نے صرف رات کا اندھیرا ہی دور نہیں کیا بلکہ اسی کے کے ساتھ لاکھوں قسم کی دیگر ایجادات چل رہی ہیں۔ ایڈیسن جیسے دھن کے پکے ہزاروں انسانوں کی کامیابیاں، دراصل ان کی اوّلین ناکامیوں کی مرہونِ منّت ہیں۔یوں تھامس ایڈیسن، بلب کو تجارتی بنیادوں پر تیار کرنے کی کوشش میں 10ہزار مرتبہ ناکام رہا مگر اس نے ہر ناکامی سے ایک نئی بات کا پتا لگایا کہ یہ والا تازہ تجربہ بھی بلب کو تجارتی بنیاد پر تیار کرنے کے لیے کارگر نہیں۔یوں اسے آخرکار جو کامیابی نصیب ہوئی، وہ 10 ہزار ناکام تجربوں کے علم کا نتیجہ تھی۔پھر باسکٹ بال کے معروف کھلاڑی مائیکل جورڈن کہتے ہیں:”میںنے اپنے کیریئر میں 9ہزار شاٹس مس کیے ہیں۔میں3سو بار کھیل ہارا ہوں۔مجھے26 مرتبہ آخری اور فیصلہ کن شاٹ لگانے کا موقع دیا گیا لیکن میں نے وہ ہر مرتبہ مس کردیا۔مطلب یہ کہ میں زندگی میں بار بار۔۔۔اور ہزاروں بار ناکام ہوا ہوں۔اور آج میں اپنی انھی مسلسل ناکامیوں کی وجہ ہی سے ایک کامیاب ترین انسان ہوں“۔ لہٰذااگر حکومتوں کے خلاف تحریک میں احتجاج کرنے والے کی نیت صاف ہوتو ایسی تحریکوں کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا، عوام بھی ایسی تحریکوں کو کامیاب بنانے میں مدد کرتے ہیں، لیکن اگر تحریک میں کہیں کوئی ملاوٹ آجائے یا بدنیتی آجائے تو وہی حال ہوتا ہے جو موجودہ پی ڈی ایم کا ہے جس میں عوام کی بقا کا عنصر بہت کم اور آپسی لڑائیوں کا عنصر بہت زیادہ ہے، اور اس لڑائی کا اختتام بقول شاعر ہی ہوگا کہ لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم #Kisaan in india #PDM #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan