سانحہ مشرقی پاکستان: ہم نے کیا سبق سیکھا؟(۲)

بات ہو رہی تھی ایوب خان کے دور کے طاقتور 22گھرانوں کی، جن کی اجارہ داری کا یہ عالم تھا کہ جو بات یہ خاندان کہہ دیتے وہ نہ صرف سرکاری سطح پر مانی جاتی بلکہ بین الاقوامی کاروباری مراسم ہونے کی وجہ سے دوست ممالک میں بھی ان کے فیصلوں کو ”سراہا“ اور تسلیم کیا جاتا، اس اجارہ داری کی وجہ سے چند افراد کے ہاتھوں میں بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت کی بہتات ہوگئی، جس نے محرومیوں کو جنم دیا اور یوں مشرقی پاکستان میں اشتعال انگیزی کو فروغ ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہی دنوں یعنی 60ءاور70ءکے دوران ایوب خان کی غلط پالیسیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیااور انہیں ہر کام میں پیچھے رکھ کر اُن میں احساس محرومی پیدا کیا۔ مثلاََمشرقی پاکستان کی اُس وقت مشرقی پاکستان کی آبادی 54فیصد اور مغربی پاکستان کی یعنی موجودہ پاکستان کی آبادی 46فیصدتھی لیکن ان کا متحدہ پاکستان کی حکمرانی میں محض 10فیصد حصہ بھی نہیں تھا، پھر اُن کا ایجوکیشن ریٹ 80فیصد اور ہمارا 20فیصد تھا، لیکن بے روزگاری کا عالم یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں امداد اور قرضے کی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری اور حکومت کی جانب سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر عوامی ورکس پروگرام کے باوجود بے روزگاری اپنی جگہ قائم رہی اور اِس سے بھی بدتر بات دوسرے 5 سالہ پروگرام کے دوران ہوئی جب مشرقی پاکستان میں 1960ءسے 1961ءتک55لاکھ پڑھے لکھے افراد بے روز گار تھے، جبکہ 1964ءسے 1965ءکے سالوں میں یہ تعداد 68لاکھ تک جا پہنچی تھی۔ جبکہ اس دوران سی ایس ایس کی سیٹیں برابررہیں۔ خیر وقت گزرتا رہا، تحریک پاکستان کے قائدین اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی ایک ایک کرکے اس جہان فانی سے کوچ کرر ہے تھے، احساس محرومی اس حدتک بڑھ چکا تھا کہ اب مغربی پاکستان کے خلاف باتیں سر عام ہونے لگی تھیں،گلی کوچے پاکستان مخالف نعروں سے بھرے پڑے تھے،سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ہم اُن کا استحصال کر چکے تھے، کپاس کی سب سے زیادہ پیداوار ہونے کے باوجود ہم انہیں وہ حصہ نہیں دیتے تھے جس کے وہ حقدار تھے، اور پھر رہی سہی کسر ہم نے کھیلوں میں بھی انہیں پیچھے کر کے نکال دی تھی جیسے اُن کے کرکٹر ہم سے زیادہ اچھے تھے،جیسے آج بھی اُن کی کرکٹ ٹیم بین الاقوامی سطح پر بہتر کھیل پیش کر رہی ہے، انڈر 19کے ورلڈ چیمپئین ہیں، اُس وقت بھی اچھے کرکٹر تھے، لیکن 1971ءتک کی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ہم کسی ایک کھلاڑی کو بھی نہیں جانتے جو متحدہ پاکستان کی ٹیم میں ہوگا۔ یہی حال ہاکی کا تھا، کوئی کھلاڑی اس کھیل میں مشرقی پاکستان سے نہیں لیا گیا تھا۔ پھربڑے بڑے عظیم بنگالی جن میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، ایم ایم عالم جیسے رہنماءسر فہرست تھے، کو ضائع کیا اور انہیں صحیح جگہ استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ہم نے اُن کے ساتھ Insulting رویہ روا رکھا، پھر1970کا الیکشن کروایا گیا، عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی، لیکن ہم نے عوامی لیگ کو کسی سطح پر تسلیم نہ کیا، زیادہ سیٹیں عوامی لیگ کی تھیں، لیکن ہم نے انہیں اقتدار نہ دیا۔ اور جب انہوں نے اقتدار مانگنے کے لیے مظاہرے شروع کیے تو ہم نے وہاں ٹکا خان کو بھیج دیا۔ یعنی ٹکا خان کو بھیجنے کے بعد وہ دن تھا جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا تھا، ٹکا خاں پاکستان کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک دور میں سابق مشرقی پاکستان میں کمانڈر اور گورنر بھی رہے۔ اور ان کے اسی کردار نے ان کو ایک متنازع شخصیت بنا دیا۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک ان کا شمار ان افسران میں ہوتا ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں انتہائی ناپسندیدہ کردار ادا کیا جبکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے سابق فوجی افسران ان کو ایک سادہ اور محنتی فوجی کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 25 مارچ، 1971ءکی رات کو ہونے والے ایک ظالمانہ آپریشن نے جس میں شیخ مجیب الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا تھا، ٹکا خاں کو متنازع بنا دیا۔ لیکن ان افسران کے مطابق ٹکا خان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا اور ذرائع ابلاغ میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا۔سابق صدر ایوب خان نے اپنی یاداشت میں انہیں Goofیعنی احمق کے لقب سے پکارا ہے۔1972ءمیں وہ چیف آف آرمی سٹاف بنے اور تین سال بعد فوج سے ریٹائر ہونے پر وہ صوبہ پنجاب کے گورنر بنے۔ بہرحال مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 49 سال بیت چکے ہیں لیکن ہمارا ماتم، سینہ کوبی اور آہ و زاری بدستور جاری و ساری ہے۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے لیکن ہم آج بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ہماری سیاسی اور فوجی قیادت نے بنگالی عوام سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھا تھا اس کا منطقی نتیجہ بنگلہ دیش کا قیام ہی تھا۔ہم بنگلہ دیش کی آزادی کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے بھارت کی سازش اور جارحیت قرار دیتے ہیں۔ہم بنگلہ دیش میں ہوئے فوجی آپریشن کا مختلف حیلوں بہانوں سے دفاع کرتے اور بنگالیوں کے قتل عام کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں۔ہمارا ریاستی بیانیہ اور میڈیا بنگلہ دیش کی آزادی اور خود مختاری کو مشکوک سمجھتا اور اسے بھارت کی’ نوآبادی‘ قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک’ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بن گیا ‘ بارے کوئی تحقیقی کام نہیں ہوسکا اور اس بارے میں جو کچھ مواد ہمیں ملتا ہے وہ زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سویلین کنٹری بیوشن کا تعلق ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔سابق جرنیلوں نے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا کو فوجی نکتہ نظر سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے کو ’دشمن،غداری، اسلحہ کی کمیابی، فوجی قیادت کی نااہلی اور فتح و شکست‘ کے سیاق و سباق میں بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ جہاں تک ہمارے سیاستدانوں کی آزادیاں اور اُن کے منافقانہ رویے کی بات ہے تو تاریخ خاموش ہے۔ ہاں البتہ میجر جنرل راو فرمان علی خان نے اپنی کتاب ’ پاکستان دو لخت کیسے ہوا‘میں سیاستدانوں کی کم عقلی کے بارے میں تھوڑا بہت ضرور لکھا ہے۔ ان کی یہ کتاب 1992میں انگریزی میں شایع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ ترامیم اور اضافوں کے سا تھ 1999 میں شائع ہوا تھا۔ کتاب کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان والے محرومی کا شکار تھے اور خود کو مغربی پاکستان کی نوآبادی سمجھتے تھے۔مغربی پاکستان کے افسران کا حاکمانہ رویہ اور مارشل لا کا یکے بعد دیگرے نفاذ جب کہ فوج میں بنگا لیوں کی تعدا د نہ ہونے کے برابر تھی ایسی وجوہات تھیں جنھوں نے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کی تھی لیکن اگلے ہی صفحے پروہ لکھتے ہیں کہ ” بغیر کسی تردد کے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شکست قومی سیاسی لیڈروں کی سیاسی نااہلی ،ذاتی انا اور مفاد کی جدوجہد کا نتیجہ تھی“۔ جبکہ اسی بات کو معروف صحافی سہیل وڑائچ کی کتاب ”جرنیلوں کی سیاست“ میں بھی ownکیا گیا ہے، مذکورہ کتاب میں اے کے نیازی کا کہنا ہے جب مشرقی پاکستان میں مجیب جیت گیا تو یحییٰ خان کو چاہیے تھا کہ اُسے حکومت دے دیتے چونکہ یحییٰ اختیار نہیں دینا چاہتا تھا یحییٰ مجیب کے پاس گیا اور کہا مجیب وزارت اعظمی مبارک ہو مجیب نے کہا لیکن تم تو صدر نہیں رہو گے یحییٰ کہنے لگا یار تم نے تو وعدہ کیا تھا مجیب نے کہا میں سیاست دان ہوں تم صدر نہیں رہو گے۔خیر پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971ءکو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کے لوگوںکو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا جس کا اظہار انہوں نے 23 مارچ 1971ءکو”یوم پاکستان“ کے بجائے ”یوم سیاہ“ مناکر اور سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیشی پرچم لہرا کر کیا جس کے بعد باغیوں سے نمٹنے کے لئے طاقت کا استعمال کیاگیا۔ اس صورتحال کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور فوج کے خلاف بنگالیوں کے قتل عام اور انسانیت سوز مظالم ڈھانے جیسے منفی پروپیگنڈے شروع کردیئے۔ بہرکیف سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عدم مفاہمت اور دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام نہ کرنا ملک کو دولخت کرنے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھٹو، یحییٰ اور مجیب، سب نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا لیکن شکست درحقیقت صرف اور صرف ملک و قوم کے حصے میں آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا پولینڈ اور دیگر ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی جنگ بندی کی قرارداد کو طیش میں آکر پھاڑنا اور اجلاس کا واک آﺅٹ کرنا سمجھ سے بالاتر تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ چین اور دیگر عالمی طاقتوں کے دباﺅ میں آکر اقوام متحدہ کچھ ہی دنوں میں جنگ بندی کے احکامات جاری کردیتی تاہم قرارداد پھاڑنے کے 2 دن بعد ہی جنرل نیازی نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال دیئے اور اس طرح پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ہم نے بنگالیوں کے ساتھ ڈائیلاگ کے بجائے چھڑی سے کام چلانے کی کوشش کی، ہم نے کیوں انہیں اقتدار نہ دیا ، حالانکہ اُن کی اکثریت تھی، اور گزشتہ 30سالوں میں یہی حال ہم بلوچستان کا دیکھ رہے ہیں ، کہ جو وعدے اُن کے ساتھ کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے، اس چیز سے نفرت پھیلتی ہے، ہم نے اُن کے مقامی رہنماﺅں جن میں بگٹی سر فہرست ہیں کو قتل کیا، جس نے وہاں نفرتوں میں مزید اضافہ کردیا۔ حالانکہ وہ ہمارے وزیر اعلیٰ رہے، گورنر رہے لیکن ہم نے اُجلت میں فیصلے کیے اور انہیں غدار کہتے ہوئے قتل کر دیا! اور پھر ہمارے یہی فعل ہمارے لیے پچھتاوے کا باعث بنتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے اس سیاہ باب کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آج پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کے حالات سے دوچار ہے اور دشمن طاقتیں ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہی ہیں لیکن ایسے کڑے وقت میں حکمران اور سیاستدان اقتدار اور ذاتی مفادات کی جنگ میں مصروف عمل ہیں جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ملکی سلامتی کی کوئی پرواءنہیں۔ افسوس کہ ہم نے سقوط ڈھاکہ سے اب تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔