حکومت کے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے احسن اقدامات مگر!

اوورسیز پاکستانیوں کے حوالے سے اتنی خبریں پہلے کبھی سامنے نہیں آئیں جتنی موجودہ حکومت کے دور میں سامنے آرہی ہیں، کبھی حکومت اُن کے لیے روشن پاکستان ڈیجیٹل اکاﺅنٹ کھولنے کے اقدامات کرتی نظر آتی ہے، کبھی قبضہ مافیا سے جان چھڑوانے کے حوالے سے، کبھی ائیرپورٹس پر خصوصی پروٹوکول دینے کے حوالے سے تو کبھی اُنہیں ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے۔ اور اب حال ہی میں پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 23دسمبر کو گورنر ہاﺅس میں ”پنجاب اوورسیز پاکستانیز کمیشن کانفرنس2021“ کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر سے وائس چیئرمین اوورسیز کمیشن مخدوم طارق محمودالحسن کی دعوت پر درجنوں وفود شرکت کر رہے ہیں، جس کے بعد حکومت کی اوور سیز پاکستانیوں کے لیے ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا، کیوں کہ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مذکورہ کانفرنس کیلئے اب تک دوہزار سے زائد اوورسیز پاکستانی رجسٹریشن کروا چکے ہیں، یہ وفود جب پاکستان پہنچیں گے اور اپنے مسائل سامنے رکھیں گے تو اُس وقت حکومت کا طرزعمل دیکھنے کے قابل ہوگا۔ خیر یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ”اوورسیز کمیشن“ 2014ءمیں بنا ، یہ کمیشن اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جسے سابقہ حکومت میں اتنی زیادہ اہمیت نہیں ملی مگر یہ بات قابل ستائش ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی نے اسے موثر بنادیا ہے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں صرف 37فیصد درخواستیں نمٹائی تھیں جبکہ موجودہ حکومت نے تین سالوں میں 63فیصد درخواستیں نمٹا دی ہیں، یعنی صرف تین سالوں میں گیارہ ہزار سے زائد درخواستوں کو نمٹانا اس امر کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے زیادہ بہتر انداز میں اس حوالے سے دلچسپی دکھا رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب بعض جگہوں پر اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل جوں کے توں ہیں، جنہیں حل کرنے کی جانب کسی نے آج تک توجہ نہیں دی۔ مثلاََ تمام ائیرپورٹس پر اوور سیز پاکستانیوں کو پریشانی بھی ہورہی ہے، امیگریشن حکام ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی، جو” سفارشی کلچر“ کی بدولت پروٹوکول لگوا لیتے ہیں، حکام اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، جو نہیں لگواسکتے اُن کے ساتھ بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اُن کی تذلیل کرتے ہیں، اُن سے بے شمار قسم کے فضول سوال کیے جاتے ہیں، بار بار اُن کا سامان چیک کیا جاتا ہے۔ زیادہ مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے جب ائیرپورٹ پر بیرون ملک سے اکیلی خاتون آرہی ہو، یا اکیلے بزرگ کو بھیجا گیاہو۔ اور پھر یہ مسائل اُس وقت مزید عیاں ہو جاتے ہیں جب اُنہیں بار بار روٹس تبدیل کروائے جاتے ہیں ۔ مثلاََ پہلے پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز کی بدولت ”نان سٹاپ“ روٹس کی وجہ سے پاکستانی نیویارک، لندن، پیرس، شکاگو، جاپان وغیرہ سے براہ راست پاکستان آجاتے تھے یا یہاں سے چلے جاتے تھے، مگر اب ہم دوسری غیر ملکی ائیرلائنز کی مرہون منت ہیں، جو منہ مانگے دام وصول کرنے کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ صحیح سلوک ہی نہیں کرتی ۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ اگر جہاز لیٹ ہوجائے تو بیرون ملک پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں پر دیگر ممالک کے مسافروں کو ترجیح دیکر ہوٹل دیا جاتا ہے، اور پاکستانی بسا اوقات وہیں بنچوں پر بیٹھ کر جہاز کے آنے کا انتظار کرتے ہیں ،حالانکہ پاکستانیوں نے بھی ٹکٹ کے اُتنے ہی پیسے خرچ کیے ہوتے ہیں ۔ جتنے دیگر ممالک کے مسافروں نے ادا کیے ہوتے ہیں! یہی اگر پاکستانی قومی ائیر لائن بہتر ہوتی تو ہم فخر سے اُس پر باعزت طریقے سے سفر کر تے۔ لیکن فی الوقت آپ قومی ائیر لائن کے مسائل کا اندازہ لگا لیں جو پہلے کبھی دنیا کی پانچ بہترین ائیرلائنز میں ہوا کر تی تھی، آج اُسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ملک میں آنے سے منع کر دیا ہے۔ کیا کسی کو علم ہے کہ مراکش کی رائل مراکو ایئر لائن، مالٹا ایئرویز اور دنیا کی کئی دیگر ایئر لائنز کی تشکیل میں بھی پی آئی اے کا اہم کردار رہا ہے لیکن افسوس کہ دنیا کی بے شمار ایئرلائنز کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے آج زبوں حالی کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ مختلف ادوار میں سیاسی بنیادوں پر بلاضرورت اور میرٹ کے برخلاف کی جانے والی بھرتیاں ہیں جس نے پی آئی اے پر غیر معمولی بوجھ ڈالا اور نتیجتاً قومی ایئر لائن کے اخراجات میں متواتر اضافہ ہونے سے کارکردگی ناقص ہوتی چلی گئی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جو بینظیر دور حکومت میں اسپیکر قومی اسمبلی تھے، نے بحیثیت اسپیکر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں بے شمار بھرتیاں کیں جس کا اعتراف انہوں نے خود کیا اور یہ بیان دیا کہ ”اگر کسی کو نوکریاں دینا جرم ہے تو میں یہ جرم آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔“ شاید یہی جرم پی آئی اے کے ساتھ بھی کیا گیا اور آج حکومت ادارے کو قائم رکھنے کیلئے ہر سال اربوں روپے کی فنڈنگ کررہی ہے اور وہ ادارہ جو ہر سال اربوں روپے منافع کماتا تھا،اور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ براہ راست پروازیں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے شکاگو اور نیویارک کو ملاتی تھیںاور ان روٹس پر پی آئی اے نے کئی سو ارب روپے کمائے۔ آج اربوں روپے کا مقروض ہوکر حکومت کے رحم و کرم پر رہ گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق حکومت پی آئی اے کو اب تک 200 ارب سے زائد رقم فراہم کرچکی ہے۔ قومی ایئر لائن سے تقریباً 18 ہزار ملازمین منسلک ہیں جبکہ ادارے کے پاس صرف 35 طیارے پرواز کے قابل ہیں، اس طرح پی آئی اے فی طیارہ 515 ملازمین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں اسٹاف ٹو ایئر کرافٹ تناسب 250 ملازمین سے بھی کم ہے۔خیر یہ الگ بحث ہے مگر یہاں پاکستانیوں کو قومی ائیر لائن کے نہ ہونے یا نہ ہونے کے برابر ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے، حالانکہ بنگلہ دیش و بھارت سے یورپ، امریکا، جاپان اور دیگر ممالک میں براہ راست فلائیٹس کی سہولت موجود ہے مگر پاکستان اس سہولت سے یکسر محروم نظر آتا ہے۔ اب سنا جا رہا ہے کہ پی آئی اے کو کمپنیوں کو دینے کی حامی بھری جا رہی ہے ، لہٰذاپی آئی اے کو اگر نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں بھی دینا ہے تو دے دیں، کم از کم پاکستان ائیر لائنزکا نظام تو بہتر ہوگا۔ پھر اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان کی ایمبیسی سے بہت شکایات ہوتی ہیں، وہاں تک پہنچنا پاکستان کے خارجہ آفس میں پہنچنے سے زیادہ مشکل ہے، اوور سیز پاکستانیوں کا اپنے ایمبیسی آفس میں ملنا حد درجے مشکل ہو چکا ہے، حالانکہ اس حوالے سے عمران خان نے بھی بیان جاری کیا تھا کہ پاکستانی سفیروں کا اوورسیز پاکستانیوں سے رویہ درست نہیں ہے اور سفارتکاروں کی ایسی غیرذمہ داری اور اپنے لوگوں سے لاتعلقی ناقابل قبول ہے۔اس کے علاوہ پاکستان سیٹیزن پورٹل سے شکایات موصول ہورہی ہیں لہٰذا امید ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے سفیر اپنا رویہ بہتر کرلیں گے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ محنت کش طبقے کے ساتھ ہمیشہ سفارتخانوں میں مسائل پیش آتے ہیں، میں جب انگلینڈ میں تھا اس وقت دیکھتا تھا کہ ایمبیسی کا لوگوں کے ساتھ رویہ بہت برا ہوتا تھا۔انہوں نے خاص طور پر سعودی سفارتخانے کا ذکر کیاکہ سعودی عرب میں ایمبیسی اسٹاف لوگوں کو وقت نہیں دے رہا جس پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک نئی ایپ متعارف کروا دی گئی ہے، کہ جو ایپ ڈاﺅن لوڈ کریں اور اُس کے دیے گئے پروسس پر عمل کرے تو وہ فلائی کر سکتا ہے، اس حوالے سے بھی کہیں کوئی آگہی مہم شروع نہیں کی گئی، پھر لیبر ٹائپ پاکستانیوں کو وہ ایپ پڑھنی بھی نہیں آتی، اسی لیے بیشتر پاکستانیوں کو ائیرپورٹ سے گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ گزشتہ مہینے جب میں امریکا سے پاکستان کے لیے فلائی کرنے والا تھا، کہ ایک دن پہلے مجھے میرے دوست نے ایپ کے متعلق بتایا، اگر مجھے نا بتایا جاتا تو میں بھی لاہور کے لیے فلائی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر آپ بیرون ملک پاکستانیوں کی میت کو آسانی سے پاکستان نہیں لا سکتے اس کے لیے نوازشریف دور میں جب چوہدری شجاعت حسین وزیر داخلہ تھے تو اُس وقت اُنہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کی میتوں کو پاکستان منتقل کرنے کی فری سہولت فراہم کی۔ جس سے پاکستانی اپنے ملک میں اپنے پیاروں کی تدفین کر سکیں۔ لیکن اب ہم غیر ملکی ائیرلائینز کی مرہون منت ہیں، اس لیے ایسی سہولت تو دور کی بات اخراجات سن کر ڈر لگتا ہے۔ الغرض ضرورت بہتر مینجمنٹ کی ہے، تاکہ ہم ایک کروڑ بیرون ملک پاکستانیوں کا دل جیت سکیں۔ جو دن رات محنت کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کو بھیجتے ہیں، جن سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آتی ہے۔ اس طرح اوورسیز پاکستانیوں نے ملکی معیشت کو بہت بڑا سہارا دے رکھا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں کئی رہائشی سکیمیں بنائی جاتی ہیں، جن میں اوورسیز پاکستانیوں کا کوئی کوٹہ نہیں رکھا جاتا۔ ان سکیموں میں بھی سیاسی شخصیات اور سرکاری ملازمین فائدہ حاصل کر لیتے ہیں اور اوورسیز پاکستانی محروم چلے آ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ہر صوبے میں اوورسیز پاکستانیوں کے لئے الگ رہائشی کالونیاں تعمیر کرے اور ان میں اوورسیز پاکستانیوں کو آسان اقساط پر پلاٹ دیئے جائیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی سہولت کے لئے موجودہ حکومت نے مرکزی اور صوبائی کمیشن قائم کر دیئے ہیں اور کمشنروں کا تقرر بھی کر دیا گیا ہے جو ا±ن کی مشکلات اور مسائل کو فوری طور پر حل کرانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں جنہیں دور کر کے حکومت اوور سیز پاکستانیوں کا ووٹ حاصل کر سکتی ہے، موجودہ حکومت یقینا ان کے لیے بہت کچھ کر رہی ہے اور حالیہ کانفرنس تو واقعی اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے مگر اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا حکومت اوور سیز پاکستانیوں کے ایک بار پھر مسائل سننے کے بعد اُنہیں نظر انداز کر دے گی یا واقعی اُس پر عمل کرے گی، لہٰذایہ یقینا وقت ہی بتائے گا! #Pakistan #overseas pakistanies #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon