کرپشن میں اضافہ! خوشی کیوں؟وجہ پر غور کریں!

پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے رپورٹس، خبریں ، فیچراور ڈاکیومینٹریز آنا معمول کی بات ہے، ان خبروں اور رپورٹس کو پڑھتے پڑھتے اب تو ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے،ہم کتنے کرپٹ ہیں اور کتنے ایماندار اس بات کا پتہ لگانے کے لیے ہمیں کوئی محنت درکار نہیں ہوتی بلکہ جدید دنیا کے بڑے مالیاتی ادارے ہم پر نظر رکھتے ہیں اور پھر ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل بھی اسی طرز کا ایک ادارہ ہے جو ہر سال کے آغاز میں پچھلے سال کی کرپشن بارے رپورٹ دیتا ہے، تاکہ ہم اپنی خامیاں تلاش کرسکیں۔ اس برس بھی مذکورہ ادارے کی رپورٹ منظر عام پرآئی، جہاں ہر ملک نے اپنے گریبان میں جھانک کر بہتری لانے کا عزم کیا وہیں پاکستان میں سارے سٹیک ہولڈرز صفائیاں دینے کے لیے پریس کانفرنسیں کرنے لگے، اپوزیشن تو اپوزیشن حکومت بھی اس کارخیر میں حصہ ڈالتی نظر آئی۔ رپورٹ یہ تھی کہ رواں برس پاکستان کاعالمی کرپشن کی درجہ بندی میں نمبر 120سے بڑھ کر 124ہو گیا ہے یہاں تک کہ افغانستان میں بھی کچھ بہتری آئی ہے، لیکن ہمارے نظام کا انحطاط جاری ہے۔ اور تو اور ہمارے وزیراعظم نے رپورٹ پڑھے بغیر ہی وضاحت کردی کہ 2020ءکی رپورٹ کے اعداد و شمار شریف حکومت کے سال 2018ءکے ہیں، مختلف حکومتی ترجمانوں کے مختلف بیانات آئے، ایک نے تو اپوزیشن کو رپورٹ کا اردو ترجمہ کرنے کی استدعا بھی کر دی، راقم بھی خاصا تجسس میں پڑ گیا کہ کیا واقعی رپورٹ میں پرانا ڈیٹا استعمال ہوا ہے ، لیکن اصل رپورٹ دیکھنے پر پتہ چلا کہ صرف ایک ذریعہ (افریقی ڈویلپمنٹ بینک کنڑی پالیسی و ادارہ بحالی جائزہ) 2018ءکا تھا جو فقط ایک پہلو تک محدود تھا۔ باقی11عالمی اداروں کے جائزے 2020ءکے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ٹرانسپرنسی نے رپورٹ دے دی ہے تو اُسے خندہ پیشانی سے قبول کرنے کے بجائے حکومت اٹیکنگ پوزیشن پر کیوں آگئی؟ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ خان صاحب نے بھی بغیر تحقیق کیے اپنے ترجمان کے کہنے پر بیان دے ڈالا۔ اس حوالے سے تو راقم پہلے ہی کئی دفعہ کہہ چکا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب خان صاحب کے ترجمان انہیں کہیں کا نہ چھوڑیں گے! خیر رہی بات اپوزیشن کی تواپوزیشن ان چار درجوں کے اضافے پر جتنی شور مچا رہی ہے، کاش یہ شورانہوں نے بقیہ120درجوں پر بھی مچایاہوتا۔ کیوںکہ 60کی دہائی تک تو بیوروکریسی میں کرپشن کا کانسپٹ ہی نہیں تھا، یہ کانسپٹ تو 1985ءمیں ضیاءدور میں اُس وقت آیا جب مسلم لیگ مارشل لاءکے زیر سایہ پہلی بار اقتدار میں آئی، انہوں نے اراکین کی وفاداریاں خریدنے کی داغ بیل ڈالی، وہی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا جب سیاست میں بے دریغ پیسہ آیا۔ مسلم لیگ نے آتے ہی ایم پی اے، ایم این اے کے لیے ترقیاتی فنڈز قائم کرکے کرپشن کی بنیاد رکھی، اُس فنڈ میں صرف ممبر قومی و صوبائی اسمبلی ہی کرپٹ نہیں ہوتا بلکہ ٹھیکیدار، بیوروکریٹ سے لیکر چھوٹا موٹا سامان مہیا کرنے والے سبھی شامل ہو جاتے ہیں ۔ اورچونکہ سیاستدان بیوروکریٹ اور ٹھیکیدار سے اپنا حصہ مانگتا ہے، اس لیے سب کی ملی بھگت سے کرپشن کے سرکل میں پوری سوسائٹی آجاتی ہے۔پھر ماضی میں بات یہیں نہیں رکی، بلکہ ان سیاستدانوں کو بے شمار مراعات دی گئیں، بغیر لائسنس انہیں گاڑیاں دینا شروع کیں، بغیر انکم ٹیکس اور بغیر ڈیوٹی کے انہیں کلاشنکوف دینا شروع کیں (بہت سوں نے گاڑیاں اور اسلحہ لائسنس بیچنا شروع کر دیے) پھر ایک ایک وزیر کے کئی کیمپ آفس بننا شروع ہوئے، سیاسی بھرتیاں ہر محکمے کی زینت بننا شروع ہوئیں، ملک میں کرپشن کا زور اس قدر بڑھ گیا کہ ہم نے کرپشن کی درجہ بندی میں ہر اُس ملک کو پیچھے چھوڑ دیا جو ہم سے کم ترتھا۔ یعنی اگر ہم تاریخ کو کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 1995ءمیں 39ویں نمبر پر موجود تھا، اور آج 124ویں نمبر پر ہے، یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 1993ءمیں کام کا آغاز کیا اس لیے اُس کے پاس تمام ملکوں کا ڈیٹا 1995ءکے بعد کا موجود ہے، جبکہ اس سے پہلے ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ہی ہلکے پھلکے انداز میں کسی بھی ملک کی کرپشن رینکنگ کیا کرتے تھے، اور ایک اندازے کے مطابق 80ءکی دہائی میں پاکستان کی کرپشن رینکنگ 25ویں سے 30ویں نمبر پر تھی، اور جب بابرکت سیاستدانوں نے ہر ادارے میں کرپشن کے طریقے متعارف کروائے تو 1995 ءمیں 39ویں نمبر پر 2000ءمیں 87ویں نمبر ، اگلے پانچ سالوں میں یعنی 2005ءمیں 144ویں نمبر ، پھر 2010ءمیں ہم 143ویں نمبر پر تھے،پیپلزپارٹی کا یہ وہ دور تھا جب ٹرانسپیرنسی نے کہا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 7 ارب روپے اور مجموعی طور پر سال میں 25 کھرب 20 ارب روپے ٹیکس چوری ،خراب گورننس کی نذر ہوئے۔ پھر جب ن لیگ 2013ءمیں تیسری بار اقتدار میں آئی تو اُس وقت ہم 127ویں نمبر پر تھے۔ اور جب ن لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو ہمارا درجہ 117واں تھااور آج ہم 124ویں پر ہیں۔ اب اگر گزشتہ سالوں کا ریکارڈ دیکھیں تو ہم نے اپنے ملک کے 35سالوں میں 100”درجات“ بلند کیے ہیں۔آپ ان 100درجات کا اپوزیشن سے حساب مانگ کر دیکھ لیںآپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہم کس قدر کرپٹ ہیں کہ اپنے کیے پر نادم بھی نہیں ہوتے۔ لہٰذاہمیں ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے اور الزامات لگانے کے بجائے ایسی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی جن کی وجہ سے کرپشن کا ناسور اس ملک کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں کرپٹ لوگوں کو سزا نہیں ملتی،اور چونکہ کرپشن کرنے والوں کے دل سے اس بات کا خوف ختم ہو چکا ہے کہ انہیں کرپشن کرنے پر کوئی بڑی سزا نہیں مل سکتی، او راگر کرپشن کرتے ہوئے پکڑے گئے اور 4، 6ارب روپے برآمد بھی ہوگئے تو کوئی بات نہیں! ضمانت کروا کر یا نیب ہی سے ایک ڈیڑھ ارب روپے میں سودا (پلی بارگین) کرکے باہر آجاﺅ، اس لیے اب لوگوں کو احتسابی اداروں نہ اینٹی کرپشن ، نہ ایف آئی اے اور نہ ہی نیب کا کوئی خوف رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں جو منی لانڈرنگ میں ائیر پورٹ پر پکڑا جا تا ہے اُسے سزا نہیں ملتی، جو” ریڈ ہینڈڈ“ پکڑا جاتا ہے اُسے سزا نہیں ملتی، بڑے سے بڑے سکینڈل میں ملوث افراد سیٹنگ کرلیتے ہیں اور عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ میرے نزدیک کرپشن کی دوسری بڑی وجہ شاید مہنگائی بھی ہو سکتی ہے کہ جب تنخواہوں میں گزارہ نہیں ہوگا تو لوگ کرپشن کرنے کی کوشش کریں گے، جب آپ کی تنخواہ 50ہزار ہوگی اور آپ کے اخراجات ایک لاکھ روپے ہوں گے تو سادہ سی بات ہے کہ آپ پھر بقیہ رقم کہاں سے لائیں گے؟ ظاہر ہے آپ خود کرپشن کے طریقے تلاش کریں گے، جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوگا اور پھر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے جو آپ پر چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں تو وہ وہی رپورٹ دیں گے جو زمینی حقائق سے میل کھاتی ہو گی ۔اگر تیسری بڑی وجہ کی بات کریں تو یہ افسر شاہی کی من مرضیاں ہیں، خاص طور پر موجودہ حکومت میں کرپشن بڑھنے کی وجہ افسر شاہی کی من مرضیاں اور پھر پنجاب حکومت کی ضرورت سے زیادہ رحم دلی ہے، شہباز شریف جیسے بھی تھے، لیکن اُن میں یہ خوبی ضرور تھی کہ لوگ اُن سے ڈرتے تھے، عثمان بزدار اپنا یہ تاثر بنانے میں ناکام رہے ہیں، جن چیزوں پر شہباز شریف افسران کو گھر بھیج دیتے تھے، انہیں ہتھکڑی لگوا دیتے تھے، اس کے برعکس عثمان بزدار زیادہ سے زیادہ ٹرانسفر کردیتے ہیں اور تمیزانہ انداز میں ڈانٹ ڈپٹ کرتے نظر آتے ہیںجو ان افسران کے لیے محض ”پھول“ کی مانند ہوتی ہے، حالانکہ کرپٹ افسران کو ڈنڈے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ان کے سر پر پچھلی حکومت میں پڑتے تھے، یا جب جاوید محمود جیسے چیف سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ پھر محکمہ جاتی کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ آپ ان تمام کرپٹ افسران کو نکال بھی دیں گے تب بھی اس کے اثرات کئی سالوں تک ان اداروں میں رہیں گے جیسے کرپٹ حکمرانوں کے دور میں سب سے زیادہ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز جن میں ایل ڈی اے، سی ڈی اے، آر ڈی اے وغیرہ میں کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا، انہیں بے شمار اختیارات مل گئے ہیں، جس کی وجہ سے اب انہیں پکڑنے میں وقت درکار ہوگا۔ بہرکیف حکومت شادیانے بجانے اور الزامات لگانے کے بجائے اپنے اندر نقائص تلاش کرے، پچھلی حکومت کے غلط کاموں کو درست کرے، کرپشن کو ختم کرنے کے طریقے تلاش کرے، مانا کہ تہذیبوں و ثقافتوں و اقوام کے مخصوص مزاج اور خواص ہوتے ہیں جنہیں بدلنے میں وقت لگتا ہے مگربہت سوں نے کر دکھایا جیسے ابتدا میں سارے یورپ کے کریمینلز امریکہ میں جا بسے تھے مگر قیادتوں نے کیا کر دکھایا، صدر روزویلٹ کو 1933 میں کیسا امریکہ اور مہاتیر محمد کو 1981میں کیسا ملائشیا ملا تھا؟ دونوں نے اکنامکس کی گرتی ساکھ اور سماجی اضطراب سے اپنی اقوام کو نکالا۔ ونسٹن چرچل کو بطور برطانوی وزیراعظم 1940تا 1945 اور 1951تا 1955عالمی جنگوں اور معاشی و معاشرتی چیلنجوں کا سامنا تھا تو اس نے ہٹلرگردی سے قوم ہی کو نہیں، پورے عالم کو انتہائی مہلک دور سے اپنے سیاسی تدبر سے بچایا۔1960ءاور 1970ءکی دہائی میں ہانگ کانگ دنیا کا کرپٹ ترین خطہ تھا، لیکن آئی سی اے سی(سنگاپور کا انسداد کرپشن ادارہ) کے قیام کے محض 5سال کی قلیل مدت میں کرپشن کے عفریت پر قابو پا لیا گیا۔ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق آج کا سنگا پورسب سے کم کرپشن والے ممالک میں تیسرے نمبرپر ہے۔لہٰذاہم مسئلے کی اصل وجوہات تلاش کرکے ہی اُس کی جڑ تک پہنچ سکتے ہیں ، اور پھر اُسے حل کر سکتے ہیں، لہٰذاموجودہ حکومت اگر گورننس ہی درست کرلے تو بدعنوانی ضرب کھانے کے بجائے تقسیم ہوتے ہوئے تفریق تک آجائے گی!اور یہی اصل کامیابی ہوگی۔