سانحہ مری اور ہماری ذمہ داری !

لگتا ہے اس ملک میں غریب عوام اور مڈل کلاس لوگ تفریح بھی نہیں کرسکتے، کیوں کہ تفریح کے لیے عمومی طور پر بیرون ملک کے بجائے اُنہیں شمالی علاقوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے لیکن اب وہاں بھی سانحات نے گھر دیکھ لیا ہے، کبھی چیئر لفٹ ٹوٹ جاتی ہے ، کبھی گاڑیاں کھائی کی نذر ہوجاتی ہیں، کبھی نوجوانوں کی ہلڑبازیوں سے حالات کشیدہ ہو جاتے ہیں تو کبھی مری جیسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے، اس میں قصور کسی کا بھی ہو لیکن آخر کار حکومت ہی ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے بچنے کے لیے پیشگی اقدام کرے۔ لیکن کیا کیا جائے ”بابولوگ“ آج بھی ان علاقوں میں زمینیں خرید رہے ہیں، کچھ بابو لوگ سرکاری ریسٹ ہاﺅس تعمیر کروا کر کروڑوں روپے ہڑپ کر رہے ہیں، ابھی حال ہی میں خبریں آرہی ہیں کہ نتھیا گلی میں ہوٹل کا ٹھیکہ وزیر اعظم کے قریبی دوست ممتاز مسلم کو دے دیا گیا ہے، خیر حالات یہ ہیں کہ کوئی نیا سیاحتی مقام کھلنے نہیں دے رہے جس کی وجہ سے لوگوں کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا کہ وہ تفریح کے لیے ماسوائے اکادکا جگہوں کے کہیں اور جا سکیں! تبھی مری جیسے سانحات بڑھ جاتے ہیں جس میں لاکھ حکومت عوام کا قصور نکالے لیکن 80فیصد سے زائد قصور حکومت کا ہی بنتا ہے کیوں کہ یہ بات حکومت سمیت سب کو علم ہے کہ مری میں برف باری ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ لیکن جو سانحہ اس بار رونما ہوا ُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان کو سن کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔میں خود بھی سال میں دو تین دفعہ مری آتا جاتا رہتا ہوں اور حیران اس بات پر ہوں کہ سب سے زیادہ اموات جس علاقہ (کلڈنہ)میں ہوئیں وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں برف کی صفائی میں دیر ہونی ہی نہیں چاہئے تھی۔ ماضی میں بھی کئی بار بہت زیادہ برف باری ہوئی لیکن شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ 24 گھنٹے نہیں بلکہ 48گھنٹے تک لوگ برف باری کی وجہ سے سڑک پر اپنی گاڑیوں میں پھنس جائیں اور اس دوران برف ہٹانے یا اُن کی مدد کے لیے کوئی آئے ہی نا۔برف باری کے دوران انتظامیہ کی سب سے اہم ذمہ داری سڑکوں خصوصاً اہم شاہراہوں کو لگاتار مشینیں لگا کر بار بار صاف کرتے رہنا ہوتا ہے تاکہ ٹریفک کو بحال رکھا جائے اور سیاحوں کو اُس تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، جسے ہم نے اس بار دیکھا اور جس کے نتیجے میں 23کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے۔ برف باری کے دوران اگر برف کی صفائی میں گھنٹوں کا وقفہ کیاجائے گا تو پھر سڑکوں پر بھی برف کے پہاڑ جمع ہو جائیں گے، گاڑیاں برف میں دب جائیں گی اور یوں ایک بحرانی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اوپر سے جب معلوم بھی ہے کہ برف باری رک نہیں رہی اور گاڑیوں کا رش بڑھتا جا رہا ہے مگرسیاحوں کو مری کی جانب جانے سے اُس وقت روکا گیا جب سانحہ رونما ہو چکا تھا۔پھر انتظامی غفلت یہ بھی ہے کہ مری میں برف باری کے موسم کے لیے ایک جامع پالیسی (SOPs) موجود ہے لیکن اُس پر پنجاب حکومت نے عمل کرنے کے بارے میں کوئی ایک بھی اعلیٰ سطحی میٹنگ تک نہیں کی۔ اس پالیسی کے مطابق ایک نہیں بلکہ دو دو کنٹرول رومز پہلے سے موجود ہونے چاہئیں تھے، مری کے کئی علاقوں کے ساتھ ساتھ کلڈنہ میں سنو کیمپ ہونا چاہئے تھا، ان کیمپوں میں برف کی صفائی کی مشینری رکھے جانے کی ہدایت تھی تاکہ کوئی بھی اہم شاہراہ برف باری کی وجہ سے بند نہ ہو۔نو صفحات پر مبنی یہ پالیسی مختلف سرکاری محکموں پر مختلف قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے تاکہ سڑکوں سے وقت پر برف کی صفائی کر دی جائے اور ٹریفک کے سنگین مسائل پیدا نہ ہوں۔ گھنٹوں کے لیے ٹریفک کا جام ہونا کوئی پریشانی کی بات نہیں لیکن کلڈنہ، مری، جھیکا گلی وغیرہ جیسے علاقے جو سب کے سب چند ایک کلومیٹر کی حدود میں آتے ہیں، ان علاقوں کے اطراف کی سڑکوں کو لگاتار صاف کرنا کوئی بڑا چیلنج نہیں تھا لیکن اگر برف باری کے دوران سڑکوں کوکلیئر کرنے کا کام اس لیے روک دیا جائے کہ جب برفباری رُکے گی تو صفائی کریں گے تو پھر اس سے تو بحرانی صورتِ حال پیدا ہونا ہی تھی اور اس بار ایسا ہی ہوا۔ خیر اعلیٰ سطحی ”کمیٹی “ بنا دی گئی ہے، جو 8سوالوں کے جواب تلاش کرے گی، پھر کمیٹی کی اُسی طرح ہی رپورٹ غائب کر دی جائے گی جس طرح پہلے ہوتی رہی ہے۔ حالانکہ انکوائری میں یہ چیک کرنا چاہئے کہ ڈسٹرکٹ ایمرجنسی بورڈ کے مری میں سیاحوں کی آمد اور محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری وارننگز کے حوالے سے کتنے اجلاس ہوئے؟ پولیس کا ہنگامی پلان کب جاری ہوا اور کیا اس پر عملدرآمد ہوا۔کیوں کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ضلع کی صورتحال کا پتہ ہوتا ہے۔ مثلاََمحرم آنے سے 2ماہ قبل ہی محکمہ داخلہ، خفیہ ادارے ضلعی انتظامیہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے میٹنگز کرلیتے ہیں۔ جن علاقوں میں سیلاب آتے ہیں وہاں مارچ کے مہینے میں ہی انتظامات شروع کردیئے جاتے ہیں اور ہنگامی پلان بنائے جاتے ہیں۔ کیا حکومت نے مری پلان بنایا؟ سنا ہے اس مرتبہ ان علاقوں میں برف ہٹانے کیلئے جو ایک سنو ریموور کھڑا تھا وہ بھی کام نہیں کر رہا تھا کیونکہ ڈرائیور نے کہا کہ اس میں ڈیزل نہیں تو کیسے اس کو چلاﺅں، کتنی شرم کی بات ہے ! بہرحال قصور شاید حکومت کا نہیں ہمار اہے کہ ہم اجتماعی طور پر کرپٹ ہو چکے ہیں، اور شاید یہ ہمارے نصاب کا بھی مسئلہ ہے کہ ہمارے اندر ’اخلاقیات‘ کو نہیں اُتارا جاتا، تبھی ہم جب بڑے ہوتے ہیں تویا تو ہم کرپٹ ہو جاتے ہیں یا مجرم! ہم نے کبھی کوشش نہیں کی کہ کم بچوں کو یہ سکھائیں کہ بڑوں کا ادب احترام کیا ہوتا ہے، صفائی کیسے کرنی ہے، اس کی کیا اہمیت ہے، راستے میں پڑا پتھر ”نیکی“ کے ذمرے میں ڈالنے کے علاوہ کیوں سائیڈ پر کرنا چاہیے، سچ کیوں بولنا چاہیے؟ سچ بولنے سے بطور انسان ہم پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اور پھر صرف یہ نہیں بتانا چاہیے کہ سچ بولنے سے نیکیاں ملتی ہیں، یا پتھر ہٹانے سے نیکیاں ملتی ہیں،بھئی! نیکیاں تو ملنی ہی ہیں، بلکہ اُس کے ساتھ یہ بھی بتایا جانا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے کسی دوسرے انسان کو تکلیف ہو سکتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم بچوں کے ذہنوں میں یہ چیز ڈالیں کہ ہم نے وہ کام ہر گز نہیں کرنے جن سے دوسروں کو تکلیف کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ معذرت کے ساتھ اگر بچوں کی زندگی میں لالچ ایک لازمی جزو بنا دیا جائے تو بڑے ہونے تک وہ لالچ میں ہی رہتا ہے، اُس کا نقصان پھر پوری قوم کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ تبھی ہمارا نمبر سچ بولنے والے ممالک کی فہرست میں 144واں نمبر آتا ہے، اور جو ”کفار“ ہیں اُن کا نمبر پہلا آتا ہے یعنی پہلے 20ممالک میں کوئی بھی اسلامی ملک نہیں ہے۔ حالانکہ جو تعلیمات اسلام ہمیں دیتا ہے وہی تعلیمات غیر مسلم نے Adoptکر رکھی ہیں، لیکن اُن کے تربیت کے انداز ذرا مختلف ہوتے ہیں، اس لیے اُن کے ہاں مسائل بھی کم ہی جنم لیتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں یہ تربیت کا ہی اثر ہے کہ ہمارے ہاں مختلف قسم کے سانحات جنم لیتے ہیں، جیسے سری لنکن منیجر کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت، ہجوم کے ہاتھوں غیر مسلموں کوجلایا جانا، بچیوں کا ریپ، زنا بالجبر کے بڑھتے کیسز وغیرہ یہ سب ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں بچوں کو ٹریفک رولز ہی نہیں بتائے جاتے، اُنہیں ٹریفک رولز کی اہمیت کے بارے میں ہی نہیں بتایا جاتا، یہ نہیں بتایا جاتا کہ ٹریفک لائسنس کیوں ضروری ہے؟ سڑک کیسے پار کی جاتی ہے، ہر سال لاتعداد بچے سڑکوں پر بے موت مارے جاتے ہیں، یہاں آدھا پاکستان 2نمبر لائسنس بنا کر گاڑیاں سڑکوں پر لے آتا ہے اور سانحہ مری جیسے واقعات سر زد ہوتے ہیں۔ اور پھر ہمارے ہاں اخلاقیات کاکورس ہی متعارف نہیں کروایا جاتا ہے، بلکہ اگر کلاس میں تمام بچے اسلامیات پڑھ رہے ہیں تو غیر مسلم کے لیے اخلاقیات کا کورس رکھ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جا نا چاہیے ۔ تاکہ ہمارے اندر مجموعی طور پر اخلاقیات میں بہتری آجائے اور ہم بطور قوم کہیں نہ کہیں دیکھے اور سنے جا سکیں۔ بہرکیف سانحہ ہونا تھا ہوگیا، اگر اس سے بھی ہم نے سبق نہ سیکھا اور ہنگامی بنیادوں پر کام نہ کیے تو یہ اُس سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔ حالانکہ اتنا زیادہ پیسہ مری سے کمایا جا رہا ہے، ٹول ٹیکس لیے جا رہے ہیں، اگر مری کا پیسہ مری پر ہی لگا کر سہولتیں بڑھا دی جائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ لیکن فی الوقت المیہ یہ ہے کہ سٹرٹیجک پلاننگ نظر نہیں آتی لیکن اس کا الزام اے سی مری پر بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ موجودہ حکومت میں سسٹم یہ بن چکا ہے کہ افسران بالا کو دکھانے کے لئے ”کارگزاریاں“سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرد ی جاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انتظامی امور چلانے والے انجمن ستائش باہمی بن چکے ہیں۔ 10 افسر اپنی ”کارگزاریاں“ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے ہوتے ہیں تو 10 ان کے حق میں سوشل میڈیا پر قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بس یہ سمجھیں کہ کارگزاری کلچر آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کلچر کو بند ہونا چاہئے اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔اور پھر اس اندوہناک سانحہ پر تو جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے، لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ کسی افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر معاملات رفع دفعہ ہو جائیں گے۔ ویسے پنجاب کا کلچر بھی یہی ہے کہ ایک دو افسروں کو قربانی کا بکرا بنا دو۔لہٰذاانسانی المیے سر اٹھاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اٹھاتے رہیں گے لیکن ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو اصل میں انسانیت کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔حکومت کو چاہئے کہ اگر اس نے سوشل میڈیا پر افسران کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی کارگزاریوں کو دیکھ کر ہی خوش ہونا ہے اور عملی اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دینی تو اسی سوشل میڈیا پر عوام کے غم و غصے کا بھی ادراک کرلیں۔ اگر اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو پھر بہت دیر ہو جائے گی! #Pakistan #Murree #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan