عوام کو جینے تو دو!

مرضی ہے حکومت کرنے والوں کی کہ وہ جب چاہیں، ”منی بجٹ “لے آئیں، جب چاہیں پٹرول ، گیس، بجلی، پانی کی قیمتیں بڑھا دیں، جب چاہیں قرضے لے لیںاور جب چاہیں عوام کو بے وقوف بنا ڈالیں کہ بقول شاعر رات دن گردش میں ہیں سات آسماں ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟ اور اب جب کہ منی بجٹ آیا ہے تو عوام پر ساڑھے تین سو ارب روپے کے نئے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں، جس کے بعد تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر دیا گیا ہے یا اس کی شرح 17 فیصد کر دی گئی ہے۔ چلیں یہ بھی قابل برداشت ہے لیکن اس بجٹ کی منظوری کے بعد تو لگتا ہے، حکومت نے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے یعنی جان بچانے والی ادویات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے اور ماہ دسمبر میں جس دوا کی قیمت 2981روپے تھی اب منی بجٹ کے بعد وہ 3507 روپے کی ہو گئی ہے۔ بعض مارکیٹوں میں تو جان بچانے والی ادویات نایاب ہیں بلکہ منی بجٹ کے اعلان کے بعد متعدد کمپنیوں نے ہول سیل مارکیٹوں میں ادویات کا مصنوعی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ماضی میںبلکہ موجودہ حکومت کے آتے ہی چند ماہ میں پہلے وزیر صحت عامر کیانی کو ادویات 400 گنا تک مہنگا کرنے کے الزام پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھاتاہم ادویات کی قیمتوں میں اضافہ واپس نہ ہوا۔ اڑھائی سال سے وزارت کا قلمدان پہلے معاون صحت ظفر مرزا اور اب فیصل سلطان کے پاس ہے، اس دوران ادویات کی قیمتیں تین گنا بڑھ چکی ہیں۔لیکن مجال ہے کہ کوئی ایکشن لیا گیا ہو۔ چلیں یہ مان لیا کہ حکومت کے مسائل ہیں ،پچھلی حکومتیں نااہل تھیں، جسکی وجہ سے مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، یا چلیں یہ بھی مان لیا کہ حکومت بہت مشکل میں لگ رہی ہے، مگر وہ چیزیں جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بنک ، امریکا، چین، برطانیہ، سعودیہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو ٹھیک کر کے دکھائیں۔ یعنی ”گڈگورننس“ کے لیے نہ تو ہمیں کسی ادارے سے قرضہ لینے کی ضرورت ہے، اور نہ ہمیں کسی سے” اشارے “ درکار ہیں۔ بلکہ اس کے لیے تو ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر گلی محلے میں عوام کی شکایات ہیں کہ وہاں ”بیڈ گورننس“ عروج پر ہے یا کہا جا رہا ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے تحت اشیاءخورونوش کے دام بڑھا رہا ہے تو اُس کے لیے میرے خیال میں بیرونی مدد کے بجائے محض بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ چلیں اگر کچھ نہیں کرنا تو پرانا مجسٹریسی نظام ہی بحال کروالیں۔ جی ہاں یہ وہی نظام ہے جس کے ذریعے انگریز نے چند سو افسران کے ذریعے پورے ہندوستان پر سو سال تک بہترین انداز میں حکومت کی۔ پھر آزادی کے بعد بھی اس نظام کو جاری رکھاگیا تاہم پھر یکلخت اس سسٹم کی چھٹی کرادی گئی جس کے ساتھ ہی بدانتظامی ،بدامنی ،مہنگائی ،ملاوٹ اورچور بازاری کا جن بے قابو ہوکر پوری قوم کو نگلنے لگا مگر افسو س کہ حکمرانوں نے آنکھیںاورکان بندکئے رکھے اگر دیکھاجائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس سسٹم میںڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ درحقیقت سیفٹی والووکی حیثیت رکھتا تھا آج بھی اگر ایگزیکٹیو مجسٹریسی کا نظام بحال کیاجائے تو صورتحال بہتر ہو سکتی ہے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف قیمتیں چیک کرنے سے کچھ نہیں ہوگاگورننس کنٹرول کرنے کیلئے مجسٹریسی رول انتہائی ضروری ہے۔ پہلے پولیس، مجسٹریٹس اور سول سوسائٹی مل کر اپنے متعلقہ علاقے کے نظام کو بہتر کیا کرتی تھی، متعلقہ ایس ایچ او مجسٹریٹ کے انڈر ہوا کرتا تھا، لیکن پھر ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کو یہ بات بھلی نہ لگی کیوں کہ پولیس مجسٹریٹ کے ہوتے ہوئے اُنہیں ”مطلوبہ“ نتائج دینے سے قاصر تھی اس لیے مجسٹریٹس پر یہ اعتراض لگایا گیا کہ اُس کے پاس عدالتی اختیارات کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ اگر مجسٹریٹس کے پاس عدالتی اختیارات تھے تو آئین اورقانون کے مطابق ہی تھے مجسٹیریل سسٹم کی بدولت اوورسائٹ کا نظام موجود تھا جب یہ نظام ختم ہوا تو گورننس خراب ہوتی چلی گئی مجسٹریٹ عدالتوں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات میں بھی اہم کردار ادا کیا کرتے تھے امن وامان کامسئلہ جب پیدا ہوتا تو مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ ساتھ رہتا اور پولیس اس کی ہدایات پر عملدرآمد کی پابند ہوا کرتی تھی وہ ایک پورا ضلعی نظام تھا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہوتے تھے پھر سی آر پی سی کے تحت تھانہ مجسٹریٹ تھے یہ افسران عدالتی اختیارات کے معاملہ میں ہائی کورٹ کو جواب دہ تھے۔ جبکہ انتظامی اختیارات کے معاملہ میں ڈپٹی کمشنر کے سامنے پابند تھے ڈپٹی کمشنر پھر بھی ان سے پوچھ گچھ کر سکتا تھا آپ کے تھانے کی حدود میں بدامنی کیوں ہے؟ وغیرہ وغیرہ بھارت میں یہ نظام آج بھی چل رہا ہے اگر موجودہ صورتحال میں اس کو من وعن بحال کر دیا جائے تو کچھ نہ کچھ بہتری کی امید رکھی جانی چاہئے اور پھر سب سے اہم یہ کہ ابھی حال ہی میں جو سانحہ مری کی رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں بھی سانحہ کی ذمہ داری ”مقامی انتظامیہ“ کی غفلت پر ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیشگی وارننگ کو مسلسل نظر انداز کیا گیا اور ضروری حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے 7اور 8جنوری کی رات صورتحال قابو سے باہر ہو گئی۔برف ہٹانے والی ساری مشینری ایک جگہ کھڑی تھی اور اس کا عملہ غائب تھا۔ متعلقہ محکموں کے اہلکاروں نے گاڑیوں کے پھنس جانے کی اطلاعات ملنے پر ضروری مشینری مدد کیلئے بھیجنے کی بجائے اپنے فون ہی بند کر دیے۔این ایچ اے اور موٹر وے پولیس کے عدم تعاون کا ذکر بھی کیا گیا۔ چلیں یہ رپورٹ منظر عام پر آگئی ، ٹھیک ہے مان لیا، کہ سارا قصور مقامی انتظامیہ کا تھا! مگر یہ بات کون بتائے گا کہ گاڑی میں کاربن مونو آکسائیڈ کیسے آ سکتی ہے، اور اس کے گاڑی کے اندر بھر جانے سے موت واقعہ ہو سکتی ہے، میں کم از کم 20مرتبہ برف میں پھنسا ہوں لیکن ہمیں آج تک کسی نے نہیں بتایا کہ کاربن مونو آکسائیڈ گاڑی کے اندر بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ یا برف میں جانے کے لیے حفاظتی تدابیر کیا اختیار کرنا پڑتی ہیں۔یہ حکومتوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی عوام کو ہر خوشی، غمی یا تہوار کے موقع پر عوام کو آگاہ رکھے! مگر یہاں ایسا سسٹم نہیں ہے۔ آپ یقین مانیں کہ جاپان میں تیار ہونے والی گاڑیوں کی ایک بڑی کمپنی نے چند سال قبل اپنی تیار کردہ گاڑی میں ایک معمولی سے نقص کی وجہ سے اُسے دنیا بھر سے 6لاکھ گاڑیاں واپس منگوانا پڑیں، کیوں کہ اُن کے نزدیک انسانی زندگی کا کوئی نعمل البدل نہیں ہے۔ لیکن یہاں بے شمار نقائص والی گاڑیاں امپورٹ کر لی جاتی ہیں، اس کی بڑی وجہ حکومتی سطح پر Awairnessنہیں ہے، اگر مری جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیورز کے لائسنس چیک کیے جاتے اور اُنہیں برف میں پھنس جانے کے حوالے سے حفاظتی کتابچہ تھما دیا جاتا جس میں کم از کم یہ ضرور لکھا ہوتا کہ اپنے ساتھ اضافی کھانے پینے کی اشیاءرکھیں، گاڑیاں کا شیشہ ایک دو ملی میٹر نیچے رکھیں اور ایمرجنسی کی صورت میں فلاں نمبر پر رابطہ کریں تو یقینا یہ سانحہ نہ ہوتا۔ اب بتائیں کیا اس کے لیے آئی ایم ایف، ورلڈ بنک ، ایشیائی بنک یا اندرون ملک اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے؟ یاپھر کسی نیشنل سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہے؟ نہیں ناں! اور رہی بات کہ وہاں کرائے بڑھا دیے گئے، یا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا تو معذرت کے ساتھ ہم مسلمانوں میں یہ ویسے ہی مسائل بڑھ چکے ہیں کہ ہم نے ناجائز منافع خوری کرنی ہی ہے ، ہم نے کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ بھی اُٹھانا ہے، اور پھر ہم نے سڑک پر برف بکھیر کر چین بھی لگانی ہے تاکہ پیسے اکٹھے کیسے جا سکیں۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ پنکچر لگانے والا بھی اپنے نزدیک سڑک پر کیل پھینک دیتا ہے، تاکہ اُس کے گاہکوں میں اضافہ ہو سکے۔ حتیٰ کہ جب ڈینگی آئے تو پیناڈول جیسی سستی دوا بھی بلیک کر دینی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ 80کی دہائی میں لوئر سوات سیر کی غرض سے 10، 12دوستوں کے ساتھ جانا ہوا تو اُس وقت ہم سڑکوں کے کنارے بنے ہوٹلز کے بارے میں لوگوں سے پوچھ رہے تھے، کہ اچھا کھانا کہاں سے ملے گا، وہاں ایک شخص نے ہمیں بتایا کہ بھوک لگی ہے، اور کھانا کھانا ہے تو آپ لوگ جس کے گھر مرضی چلے جائیں، آپ کو کھانا مل جائے گا، پھر ہم ایک گھر میں گئے وہاں سے ہم نے کھانا کھایا۔ وہاں عام طور پر کسی اچھے گھر میں جاتے تو وہ ہماری تواضح پراٹھوں، اچار اور دہی کے ساتھ کرتا، اور اگر کسی درمیانے گھر میں چلے جائیں تو وہ آپ کے لیے چائے، روٹی اور دہی دیتا،پھر مہمان حسب توفیق پیسے دے کر چلا جاتا ۔ یقین مانیں لوگ اُس وقت ٹورسٹ کو آوازیں دے کر بلاتے تھے، کہ آئیں ہمارے گھر سے کھانا کھائیں۔ حقیقت میں اصل پاکستان تو یہ تھا! لیکن اس کے برعکس اب ہمارا ہر پاکستانی ”کمرشل“ ہوگیا ہے اور یہ زیادہ تر اُس وقت ہوا جب ضیاءالحق نے 1985ءمیں غیر جماعتی الیکشن کروائے۔ اُس وقت پہلی بار عوام کو اجتماعی طور کرپٹ کرنے کے لیے عملی اقدام کا بیڑہ اُٹھایا گیا، یعنی سب سے پہلے عوام کے ووٹ خریدے گئے، یہ چسکا عوام کو ایسا لگا کہ عوام کو ووٹ بھی ”کمرشل“ ہوگیا۔ الغرض حکومت کو وہ کام ضرور کرنے چاہیئں جس سے عوام کی فلاح ممکن ہو سکے، سیاسی پارٹیاں جب اقتدار میں آتی ہیں تو وہ ہمیشہ گڈ گورننس کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہیں ورنہ ایسی غائب ہوتی ہیں کہ اُنہیں اپنا وجود بھی برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے! اور خدانخواستہ اگر تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی ہوا تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے! #Pakistan #Awaam #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan