ملک میں ٹیکس چوری اور حکم امتناعی !

ہمارے ہاں حکمرانوں کی زیادہ تر باتیںٹیکس چوری سے شروع ہو کر ٹیکس چوری پر ہی ختم ہوتی ہیں، مثلاََ جس حکمران سے پوچھو کہ آپ پاکستان کے معاشی حالات درست کیوں نہ کرسکے تو وہ یہی کہے گا، اس ملک میں ٹیکس چوری بہت زیادہ ہے، اس لیے ملک کی آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ جیسے وزیر اعظم عمران خان فرماتے رہتے ہیں کہ اس ملک کی آبادی 22کروڑ جب کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف 15لاکھ ہے۔ FBR کی بات کریں تو وہ کہے گا کہ اس وقت پاکستان میں ’’اسٹے آرڈر‘‘ یعنی حکم امتناعی کی وجہ سے وہ کھربوں روپے ٹیکس کولیکشن کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر عوام کی بات کریں تو ان کا جواز ہے کہ بھیا! ہم عوام تو اس وقت 56قسم کے ٹیکس دے رہے ہیں، جو براہ راست تو نہیں مگر بلاواسطہ ضرور ہیں۔ ادھر ملک پر جو قرضہ پچھلے دس برس میں 60ارب ڈالر تھا، وہ اب 150 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے، جو ڈالر دس سال پہلے 60,70 روپے میں مل جاتا تھا، آج وہ 175سے 180روپے میں دستیاب ہے۔ ملکی معیشت ہر گزرتے دن سنبھلنے کے بجائے زوال کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے ۔ اگر ہم ٹیکس چوری کی بات کریں تو امراء ، تجارتی کمپنیاں اور ادارہ جات ٹیکس یا محصول کی ادائیگی سے بچتے ہیں، وہ اپنی خرید و فروخت اور آمدنی کو حد درجہ محدود انداز میں بیان کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا ادا کردہ ٹیکس ان کے شایان شان نہیں بلکہ بہت ہی کم ہوتا ہے۔ یہ ایک مالیاتی جرم ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بلکہ اقوام متحدہ کے ادارہ معاشی اور سماجی کمیشن کے مطابق پاکستان میں سالانہ 540 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستان میں ٹیکس چوری سے معیشت کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان کا ٹیکسوں کا نظام مساوی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق با اثر طبقات ٹیکسوں کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ جنھیں اگر ان طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایف بی آر کوئی اقدام کرتا بھی ہے تو مقدمہ بازی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو اسٹے آرڈر کی بنیاد بھی کئی کئی برس چلتا رہتا ہے۔ یہ مقدمات جس سست رفتاری کے ساتھ سنے جا رہے ہیں، اس کے نتیجے میں انھیں انجام تک پہنچانے اور قانون شکن افراد کو احتساب کے شکنجے میں لانے کے لیے کئی برس لگ سکتے ہیں، تب تک خاکم بدہن ملک کا دیوالیہ نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے اعظم نذیر تارڑ جو اس وقت سینیٹر بھی ہیں اور صدر پاکستان بار بھی رہے ہیں، کے ساتھ ہونے والا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ وہ بتاتے ہیں کہ 15سال قبل میرا جونیئر ایک نوجوان وکیل میرے ساتھ کورٹ کے برآمدے میں چہل قدمی کر رہا تھا،اور میں سائل سے کسی کیس پر گفتگو کر رہے تھا، آدھے گھنٹے بعد وہ نوجوان میرے پاس بھاگتا ہوا آیا کہ گاؤں میں اُس کے کزن نے ایک قتل کردیا ہے، اُسے خدشہ تھا کہ کہیں اُس کیس میں اُس کا نام نا آجائے،اس پرمیں نے اُسے کہا کہ نہیں کوئی بات نہیں، آپ کا نام کیوں آئے گا؟ آپ تو یہاںہو۔ لیکن وہ دو گھنٹے بعد پھر آیا اور کہا کہ مقدمے میں میرا نام شامل کردیا گیا ہے۔ اعظم نذیر تارڑ بتاتے ہیں کہ میں پھر میں نے کورٹ احاطہ کے کیمرہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کیں، جس عدالت میں وہ وقوع کے روز پیش ہوا تھا، اُس کی حاضری شیٹ نکلوائی، میں نے عدالت میں اپنی اور دیگر دو لوگوں کی گواہی دی کہ یہ نوجوان قتل کے وقت وہاں موجود ہی نہیں تھا، لیکن اُسے ضمانت نہ ملی اور وہ نوجوان 3سال جیل میں رہا اور3سال بعد جب وہ رہا ہوا تو اُس نے مجھے فون کیا کہ سر! میں آج کے بعد سبزی کی ریڑھی لگا لوں گا مگر وکالت نہیں کروں گا، کیوں کہ جب وکیل کو انصاف نہ مل سکے، وہ کسی اور کو کیا دلائے گا۔ ‘‘ الغرض یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، حد تو یہ ہے کہ جن شخصیات نے اس حوالے سے قوانین بنانے ہیں وہ خود اس غلط کام میں ملوث نظر آتے ہیں۔اگر یہ لوگ ملک سے مخلص ہوتے تو مبہم قوانین تبدیل کرتے، معذرت کے ساتھ اگر یہاں مناسب احتساب نہیں ہو رہا تو اس میں ہمارے نظام انصاف میں موجود کمزوریاں اور ابہام ہیں، لہٰذا قوانین تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ملک کا نظام چل سکے۔ اُس نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب ادارے اپنا حصہ ڈالیں۔ حکومت بھی، پارلیمنٹ بھی ، عدلیہ بھی، ایف بی آر بھی اور میڈیا بھی ۔ اور سب سے اہم کہ قوم کے منتخب نمایندوں اور حکومت و مملکت کے کلیدی مناصب پر متمکن شخصیات کو ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے بہرحال اپنی ذات کو مثال بنانا چاہیے۔