حکومت چوہدری پرویز الٰہی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائے!

سیاست بھی کیا گیم ہے، کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دشمن کل کے دوست بن جاتے ہیں۔ جیسے ن لیگ پیپلزپارٹی بار بار کی لڑائی اور پھر صلح اور ملاقاتوں سے تو سب کو بار بار حیران کرتے ہی ہیں مگر ن لیگ نے اپنے سخت ترین حریف خاندان چوہدری برادران سے ملاقات کرکے سب کو حیران کر دیا۔ پھر اسی دوران حکومت کو بھی ہچکولے آنا شروع ہوگئے کہ وہ کہیں اپنے اہم ترین اتحادی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے۔ تبھی مونس الٰہی کو بھی کہنا پڑا کہ خان صاحب گھبرائیں نہیں ہم سیاسی لوگ ہیں، ہماری بھی کچھ روایات ہیں، ہمارے دروازے سب کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ برخودار مونس الٰہی کی ان باتوں میں بہت سے باتیں پنہاں تھیں مگر ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ موجودہ حالات میں چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی اہمیت کو ثابت کیا ہے۔ اور یہ آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے فائدہ مند بھی ہو سکتی ہے اور شاید نقصان دہ بھی۔ اس لیے میرے خیال میں ابھی بھی حکومت کے پاس وقت ہے کہ وہ چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں موقع دے۔ پنجاب اُن کے حوالے کرے، اس کے لیے تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر سوچے ،اور اُن کے تجربے اور اُن کی سپیکر شپ کا فائدہ اُٹھائے، وہ اس بات کا فائدہ اُٹھائے کہ چوہدری برادران پر ابھی تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے، آج بھی پنجاب اسمبلی میں بغیر رشوت اور رکاوٹ کے بل پاس ہو رہے ہیں۔ اور ویسے بھی معذرت کے ساتھ موجودہ پنجاب حکومت لاکھ اچھے کام کر لے مگر وہ جب تک عوام کی نظروں میں نہیں ہوں گے، تب تک کیا اُن کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کا میڈیا سیل علم نہیں کیا کر رہا ہے مگر عوام آج بھی اُن سے نالاں نظر آرہے ہیں، حتیٰ کہ موجودہ حکومت صحت کارڈ کی بھی صحیح انداز میں تشہیر نہیں کر سکی، جبکہ اس کے برعکس اس کے اینٹی تشہیر زیادہ چل رہی ہے، اور یہ بات پرویز الٰہی بخوبی جانتے ہیں کہ عوام کی نظروں میں کیسے اپنی اہمیت کو منوانا ہے، اور پھر یہ بات بھی سچ ہے کہ اُن کے دور میں بے تحاشہ ترقیاتی کام ہوئے، بے تحاشہ عوامی پراجیکٹس شروع کیے گئے۔ بیوروکریسی سے بھی اُن کی اچھی دوستی ہے، اور پنجاب میں تو ویسے بھی حکومت کو ایماندار بیوروکریسی کی سخت ضرورت ہے، اور یہاں اگر بیوروکریسی کسی پر اعتماد کرتی ہے، تو وہ کوئی اور نہیں بلکہ ق لیگ یعنی چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی ہیں ۔اُن کے دور کی بیوروکریسی بھی بہترین بیوروکریسی میں شمار ہوتی ہے۔اُن کی کور ٹیم میںچیف سیکرٹری پنجاب سلمان صدیق، چیئرمین پی اینڈ ڈی سلیمان غنی اورپرنسپل سیکرٹری جی ایم سکندرشامل تھے۔ جبکہ دیگر بیوروکریٹس میں ڈی سی او لاہور خالد سلطان، سیکرٹری اطلاعات تیمور عظمت عثمان، انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب احمد نسیم ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو صفدر جاوید سید ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری نجیب اللہ ملک، سیکرٹری خزانہ سہیل احمد، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے حسن نواز تارڑ، سیکرٹری قانون شیخ احمد فاروق اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اخلاق احمد تارڑجیسے ایماندار آفیسرز شامل تھے جن پر نہ کوئی کرپشن چارجز لگے اور نہ ان کی گرفتاریاں ہوئیں۔ اس کے علاوہ چوہدری پرویز الٰہی پہلے وزیر اعلیٰ ہیں جنہوں نے 2007 میں جب پنجاب حکومت کا اپنا دور مکمل کیا تو اُس وقت پنجاب کا خزانہ 100 ارب روپے سرپلس میں تھا۔جبکہ آج 2018 میں پنجاب پر 2000 ارب روپے سے زائد کا قرض ہے۔یہ بات تو دنیا مانتی ہے کہ اُس دور کے تمام پراجیکٹس ”کاسمیٹکس“ نہیں تھے بلکہ خالصتاََ غریب پرور اور عام لوگوں کی بھلائی کے منصوبے تھے۔ وزیرآباد، لیہ، ننکانہ اور ملتان بہاولپور جیسے دور دراز کے شہروں میں دل و دیگر بیماروں کے ہسپتال شروع کیے جو آج بھی ادھورے ہےں، دس سال گزرنے کے باوجود وہاں کے عوام علاج کے لیے لاہور آتے ہیں جہاں انہیں آپریٹ کروانے کے لیے مہینوں، بلکہ سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ملتان میں پرویز الٰہی انسٹیٹیوٹ آف کارڈ یالوجی کا 30کروڑ کا سالانہ بجٹ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 2008ءسے 2013ءکے درمیان بتدریج کم کرتے ہوئے 10کروڑ روپے سالانہ کر دیاگیا، یہ محض اس لیے کیا گیا کہ اُس ہسپتال کے مین گیٹ پر چودھری پرویز الٰہی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ تعلیم جیسے شعبے میں عمران مسعود(سابقہ وزیر تعلیم) کی خدمات سے کون واقف نہیں، اُس وقت تو سکولوں میں بچوں کو دوپہر کا کھانا ملنا شروع ہوگیا تھا ۔ پھر پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس کا قیام بھی پرویز الٰہی کا شاندار منصوبہ تھا۔ جس سے مسافروں کو خاصا تحفظ حاصل ہوا۔انڈر گراﺅنڈ میٹرو ٹرین کا بھی منصوبہ بنایاگیا، جس پر محض 30ارب روپے اخراجات آنے تھے اور شہر کی محض 6مقامات سے کھدائی ہونی تھی اور ماحولیات پر بھی کم سے کم اثر پڑنا تھا،اور پھر سابقہ دور حکومت یعنی چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کے عوام کو ریسکیو 1122،انڈسٹریل اسٹیٹ اور ٹریفک وارڈنز کے تحفے دیے۔ پھر چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے 2007ءمیں فرانزک لیب قانون کے منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔شہبازشریف نے فرانزک منصوبے پر 5 سال تک کام روکے رکھا۔جنوبی پنجاب میں برن یونٹس کا قیام پرویز الٰہی عمل میں لائے مگر بعد میں اسے روک دیا گیا۔ جس کی وجہ سے آئل ٹینکرز میں300لوگوں کی ہلاکت ہوئی۔لاہور کا رنگ روڈ منصوبہ آج بھی زیر تعمیر ہے ، جسے پرویز الٰہی دور ہی میں بنایا گیا تھا۔ سیالکوٹ کی ترقی کا 34 ارب کا منصوبہ شہباز شریف نے آکر ختم کردیا۔ حالانکہ پرویز الٰہی نے حکومت ختم ہونے کے بعد کہا تھا کہ یہ منصوبے مکمل کریں، اگر آپ کو میرے نام کی تختی سے مسئلہ ہے تو میں انہیں اُتار دیتا ہوں مگر عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کو مکمل ضرور کیا جائے۔ پنجاب کی وزارتِ اعلی جب چوہدری پروےز الٰہی کو ملی تو پنجا ب مےں پکی گلےوں سے لےکر کشادہ اور پکی سڑکےں بننے کا عمل چوہدری پروےز الٰہی کے دور مےں ہی شروع ہوا تھا۔دور دراز کے ہر گاوں تک پھےلی پکی سڑکوں کا جال بن دےا گےا۔کسی زمانے مےں جب سڑک پہ کوئی حادثہ رونما ہوتا تھا تو کسی راگےر مےں ہمت نہ ہوتی تھی کہ زخمی کو اٹھا کے ہسپتال چھوڑ آئے۔جو کوئی بھی اےسی نےکی کرنے کی کوشش کرتا ہماری پولےس اسکی نےکی کے جرم مےں اسکی اچھی خاصی تسلی کردےتی تھی۔لےکن کہتے ہےں دنےا مےں وہی آگے بڑھتے ہےں جو مسلسل سےکھتے ہےں۔ چوہدری صاحب نے شائد کسی اےسی ہی صورتحال کو بہت قرےب سے دےکھا ہوگا۔اےسے ہی کسی سائل کی داد رسی کیلئے کسی تھانے بھی شائد انہےں جانا پڑا ہو۔جو کسی تڑپتے خون مےں لت پت شہری کو سڑک سے صرف انسانی ہمدردی کی بنےاد پہ ہسپتال لاےا ہو۔وہ مرےض اپنی زندگی کی بازی ہار گےا ہو۔اور بعض مےں ہماری پولےس نے زخمی سے ہمدردی کرنےوالے کو پابندِ سلاسل کردےا ہو۔پنجاب بھر میں ایمبولینس سروس اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ اور پھر چوہدری پرویز الٰہی پر پانچ سالہ دور میں کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا، حالانکہ اگلے دس سال تک ن لیگ اُن پر کیسز ڈھونڈتی رہی مگر اُسے کچھ نہ ملا، اور اگر مل جاتا تو یہ بات سب کے علم میں ہے کہ مذکورہ پارٹی اپنے مخالفین کا کیا حال کرتی ہے۔ لہٰذایہ تمام منصوبے گنوانے کا مطلب کسی کی کاسہ لیسی کرنا نہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ اس صوبہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اگر آخری سال اور چند ماہ کے لیے پرویز الٰہی کو پنجاب کی حکومت دے دی جائے تو اس سے ناصرف پنجاب کے عوام میں اُن کا بھرم رہ جائے گا، بلکہ وہ ادھر اُدھر جانے کے بجائے اُن کے پکے اتحادی بھی بن جائیں گے اور ساتھ پنجاب کی بیوروکریسی کی حالت بھی بہتر ہو جائے گی ۔ اور ویسے بھی ان کاموں کے لیے مضبوط اعصاب کے مالک شخص کی ضرور ت ہے جو فوری فیصلہ سازی کی قوت بھی رکھتا ہو،مجھے یاد ہے کہ پرویز الٰہی مفاد عامہ پراجیکٹس کے حوالے سے مختلف میٹنگز اٹینڈ کر رہے تھے۔ اس دوران رضوان نصیر جب 1122کے حوالے سے پروپوزل لے کر آئے تو پرویز الٰہی نے محض دس منٹ کی گفتگو کے بعد اس پراجیکٹ کی اجازت دی اور اُس کی تعریف کی، آج پورا پنجاب اس پراجیکٹ سے مستفید ہو رہا ہے۔ پھر ایک دفعہ ہم چند دوست پرویز الٰہی کے ہمراہ ملتان چلے گئے، وہاں ایک قرار داد منظور کی گئی کہ یہاں پر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہونا چاہیے، اُس وقت سیکرٹری ہیلتھ انوار خان تھے، پرویز الٰہی نے اُن سے مشاورت کی کہ کیا یہاں ایسا ممکن ہے؟ سیکرٹری فوراََ بولے کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس پر پرویز الٰہی بولے اگر ممکن ہے تو اس پر فوری عملدرآمد کروایا جائے۔ کیوں کہ اس موقع پر اگر اُنہیں عوام سے دور رکھا جائے تو یہ پنجاب کے عوام کے ساتھ ظلم ہے۔ بہرکیف ہمیں اس ملک سے غرض ہونی چاہیے، عثمان بزدار یقینا بہترین وزیر اعلیٰ ہیں مگر وہ اپنے کاموں کی تشہیر کرنے سے قاصر ہیں، جس کی اس وقت تحریک انصاف کو اشد ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ Activeورک ریلیشن شپ کی ضرورت ہے، جو کہیں نظر نہیں آرہی۔بادی النظر میں اگر یہ سب کچھ نہ ہوا توموجودہ حکومت 2023ءکے الیکشن میں فتح کے قریب بھی نہیں ہوگی۔ اس لیے میرے خیال میں پنجاب میں وضع دار شخصیت کی ضرورت ہے، جس کی ہر حلقے، ہر علاقے، ہر ادارے میں سنی جاتی ہو، اور اس کا سٹیٹس ہو۔ اور پھر جب اتنی زیادہ مہنگائی ہو رہی ہے تو اس وقت حکومت بیچ منجدھار اکیلے کھڑی نظر آرہی ہے، لہٰذااسے ڈوبنے سے بچانے کے لیے اگر حکومت بغیر کسی اہتمام حجت یہ کام کر لے تو اسی میں سب کی بھلائی ہے ورنہ بقول شاعر ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے #pervaiz elahi #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon