اللہ تعالیٰ ہمیں مفادات پرست سیاستدانوں سے بچائے !

پی ڈی ایم کا سیاسی جنازہ نکل چکا ہے، اتنے جلسے جلوس کرکے عوام کا وقت برباد کیا گیا، پیسہ برباد کیا گیا، املاک کو نقصان پہنچایا گیا، سیاست کو نقصان پہنچایا گیا، وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچایا گیا۔کیا تحریکیں ایسے ہوا کرتی ہیں؟31جنوری کی وزیر اعظم کے استعفے کی ڈیڈ لائن دی گئی، پھر اپوزیشن نے اپنے استعفوں کی ڈیڈ لائن دی، وقت گزرتا گیا، پھر یوٹرن لیا گیااور استعفوں سے منہ موڑ لیا، پھرسینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ ہوا، لیکن یہاں بھی یوٹرن لیا اورسب نے الیکشن لڑنے کی حامی بھر لی، الغرض اس تحریک کا تو ایسے شیرازہ بکھر ا جیسے سیاسی سائنسدانوں نے اس کی پیش گوئی کی تھی بقول شاعر وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی (مذکورہ شعر میں فکر کی جگہ اکثر میر لکھا جاتا ہے جو غلط العام ہے) عموماََ دنیا بھر کی کامیاب تحریکوں کے پیچھے نظریات ہوتے ہیں، لیڈر شپ ہوتی ہے، مخلصی ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر عوام ہوتے ہیں۔ لیکن اس پی ڈی ایم میں ایسا کیا تھا؟ کیا کسی کو پختہ نظریات نظر آئے؟ تحریک میں موجود 11جماعتوں کے قائدین کا ایک دوسرے کے ساتھ مخلص پن نظر آیا؟ قومی مفاد نظر آیا؟ اور کیا تحریک میں عوام نظر آئے؟ نہیں ناں! میں نے پہلے ہی عرض کی تھی کہ یہ چوں چوں کا مربہ ہے کبھی بھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہوسکتے، تمام جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں، اور مفادات بھی ذاتی قسم کے ہیں، یعنی کسی جماعت پر کرپشن کے کیسز ہیں، وہ انہیں ختم کروانا چاہتی ہے.... کسی جماعت کے قائدین جیلوں میں ہیں تو وہ انہیں رہا کروانا چاہتی ہے.... کسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسئلہ ہے تو وہ اس کے ساتھ تعلقات بحال کروانا چاہتی ہے....اور کسی جماعت کو اقتدار میں آنے کی جلدی ہے، اس لیے وہ اقتدار چاہتی ہے....اور تو اور کسی جماعت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں مگر وہ شکاری کے ساتھ گیدڑوں کے ریوڑ کی طرح ساتھ ہیں کہ شاید شکار کا بچا کچھا اُسے بھی مل جائے۔ خیر اس تحریک میں 4بڑی جماعتیں ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یو آئی(ایف) ، اور اے این پی ہے۔ ان میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اپنے اپنے سیاسی نظریات ہیں جس کی وجہ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کا ایک ساتھ چلنا بہت مشکل عمل تھا۔ ماضی میں یہ دونوں جماعتیں اقتدار میں بھی رہی ہیں اور دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کی سیاسی حریف بھی تھیں۔ دونوں پارٹیاں اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک تیسری پارٹی کو حکومت میں لائی ہیں۔ راقم نے اپنے گزشتہ ماہ کے کالم میں یہ واضع طور پر لکھا تھا کہ ”الغرض پاکستان کی کل سیاست میں پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ کبھی وفا نہیں کی اور نہ ہی کبھی ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ وفا کی ہے، دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے یا دونوں کا دامن ایک دوسرے کے حوالے سے داغدار ہے، مثلاََ بے نظیر 2008ءمیں این آر او کے بعد آئیں، تو انہوں نے اپنے ساتھ نوازشریف کی واپسی کی شرط رکھی، نواز شریف نے اُس کے بعد اُن کا بھی بھرم توڑا، جب زرداری صدر بنے تو نواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کیسے کریں؟کیوں رسک لیں کہ ان کے لیے سندھ میں اپنا 12سالہ اقتدار چھوڑ دےں۔ “اب بھی آنے والے دنوں میں جب یہ لانگ مارچ کا ٹوٹا پھوٹا ارادہ رکھتے ہیں لیکن حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں تب بھی ان کے ذاتی مفادات اور بددیانتی کی وجہ سے یقین واثق ہے کہ انہوں نے مزید تقسیم ہونا ہے ۔ لہٰذا ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک کرپٹ بندہ کبھی دوسرے کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا ، یہ مفاداتی لوگ ہیں، اسٹیبلشمنٹ ان پر ہنس رہی ہے، کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ مولانا آئیں گے تو اُن کی تواضع کریں گے، ویسے یہ گئے کیوں نہیں چائے پینے؟کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ کو علم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ اب مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں۔ اس سے ہمیں گلے شکوے ہیں اور شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے“ مولانا کایہ نیا ارشاد بتا رہا ہے کہ دریامیں اب طغیانی نہیں ہے۔ لہروں میں ٹھہراﺅ آ رہا ہے۔یہ مولانا تھے جنہوں نے سب سے پہلے پسِ پردہ قوت کو ہدف بنایا۔ یہ وہی تھے جنہوں نے احتجاج کا رخ اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی کی طرف کرنے کا اشارہ دیا۔ سب ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو کوس رہے تھے کہ لانگ مارچ میں اس مردِ جری کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ لیکن اب ان مفاد پرست سیاستدانوں نے سب کچھ بدل دیا ہے، پہل پیپلزپارٹی نے کی۔ ایک ایک منزل سے آہستہ آہستہ قدم پیچھے ہٹایا۔ لانگ مارچ اور استعفے سے گریز اوراب تحریک عدم اعتماد کاڈول ڈال دیا، جس کے لیے آٹھ نومہینے چاہئیں۔ گویا وعدہ فردا۔ دوسرا نمبر مولانا کے مقدر میں لکھا تھاکہ ہدف کی تبدیلی سے پیچھے ہٹنے کا آغاز ہوگیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آدھی پارٹی اسی چکر میں گنوا دی، تیسرے نمبر پر نواز شریف بھی اب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے ہیں ۔یقین مانیں کہ یہ کرپٹ لوگوں کی نشانی ہے، جو ایماندار ہوتے ہیں، جن کی تحریکوں کے پیچھے بدنیتی نہیں ہوتی وہ سالہا سال جدوجہد جاری رکھتے ہیں، وہ 30، 30سال جیلیں کاٹتے ہیں، یہ مفاداتی لوگ ہیں، مفادات کے لیے کھیلتے ہیں، Give and Takeوالے لوگ ہیں، ورنہ جو ایماندار لوگ ہوتے ہیں وہ اتنی جلدی بیٹھتے نہیں ہیں وہ تھکتے نہیں ہیں ، وہ گردنیں کٹواتے ہیں۔ بہرکیف پی ڈی ایم نے وزیراعظم سے زیادہ اداروں کو ہدف بنایا۔یہ سب بیکار کی مشقت اور لاحاصل ایکسرسائز تھی۔ اس سے پی ڈی ایم کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کی دلی بھڑاس نکل گئی ہو۔ سیاست مگر بھڑاس نکالنے کا فورم نہیں۔ یہ ناممکنات میں ممکنات تلاش کرنے اور نامعلوم سے معلوم اخذ کرنے کی بساط ہے۔ بھڑاس نکالنے والی تقریریں طلبہ لیڈروں کا وتیرہ ہے یا منبر پر بیٹھ کر جذباتی ہوجانے والے مولوی صاحبان کا شیوہ۔ہم جیسے لکھنے والوں نے تب یہی کہا تھا کہ مولانا کے حصے میں رسوائی آئے گی، ان سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے۔ ویسا ہی ہوا۔ مولانا فضل الرحمن چند دن دھرنا دینے کے بعد ندامت کے ساتھ یوں اٹھے کہ ان کے ہاتھ خزاں کے بے پھول پودوں کی طرح خالی تھے۔پی ڈی ایم کے ساتھ بھی وہی ہوا۔ ملا نصیر الدین کا مشہور لطیفہ ہے کہ ایک بار انہوں نے گلی کے بچوں کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ فلاں گلی میں مٹھائی بٹ رہی ہے، بچے ادھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ چند منٹ بعد ملا نصیر بھی اس سمت دوڑے۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں، وہ بولے ، کیا پتہ سچی مچی مٹھائی بٹ رہی ہو۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عمران خان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے انہوں نے اس پر پھبتیاں کسیں، سلیکٹڈ، کٹھ پتلی، زیرو وغیرہ کہا۔ غلطی یہ ہے کہ ان تقریروں پر خود بھی یقین کر لیا۔ معروف معیشت دان جے اے رابنسن نے اپنی کتاب Why Fail Nations میں لکھا ہے کہ جن ممالک کی قیادت بے غرض ہو اور میرٹ پر آئے وہ ترقی کرجاتے ہیں اوروہ ممالک جہاں سیاست اور معیشت چند افراد (اشرافیہ) کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے وہ غربت کا شکار ہوتے ہیں۔ مصنف نے نائیجیریا کی مثال دی جہاں برسوں سے برسراقتدار مفاد پرست قیادت کی ترجیحات میں ملکی ترقی کا عنصر شامل نہیں،اسی طرح افغانستان کو دیکھ لیں جو 60ئ،70ءکی دہائی تک معاشی ترقی کر رہا تھا مگر طالبان آئے تو سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ ایسی ہی صورتحال سے پاکستان دوچار ہے کہ جب 1985ءمیں ”سیاسی طالبان“ اقتدار میں آئے تو اس ملک کا بھی سب کچھ بدل گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے طالبان سے بچائے (آمین)