کیاترمیمی آرڈیننس، ”فیک نیوز“سے بچا جا سکتا ہے؟

”ایک سیاسی پارٹی Aنے دوسری سیاسی پارٹی Bکے بارے میں کہا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر پالتو جانور رکھنے پر پابندی لگانے والی ہے، کیوں کہ وہ بہت زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بناتے ہیں“ ۔ ”2018ءمیں برازیل میں دائیں بازو کی جماعت نے بائیں بازو کی جماعت کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ بچوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں“ ۔ ”کلثوم نواز وفات پا چکی ہیں، میں خود دیکھ کر آیا ہوں، شریف فیملی سیاسی طور پر ان کی لاش کو استعمال کر رہی ہے“۔”اسرائیلی وزیر دفاع نے شام میں داعش کے خلاف مبینہ طور پر پاکستانی کردار پر پاکستان کو نیوکلئیر ہتھیاروں کی دھمکی دی ہے، اسرائیل بھول گیا ہے کہ پاکستان کے پاس بھی نیوکلئیر ہتھیار ہیں، خواجہ آصف“۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ کیسے انٹرنیٹ پر فیک نیوز یا جعلی، گھڑی ہوئی خبریں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں اور کیسے ان کی وجہ سے دو ایٹمی طاقت رکھنے والے ممالک کے درمیان مخاصمت کا آغاز ہوسکتا ہے۔یا کیسے دو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے ایک اور مثال پیش خدمت ہے کہ گزشتہ دنوں پینڈورا پیپرز لیک ہونے کے بعد پاکستان میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔ کئی حکومتی رہنما اور سرکاری افسران اس کی زد میں آئے۔ایسے میں خبر کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے بےتاب ہمارے نیوز ٹی وی چینلز بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور جس کے جو منہ میں آیا، جس کو جو نظر آیا اٹھا کر ٹی وی پر نشر کرتا رہا۔اسی اثنا میں PTVکے جعلی ٹیمپلیٹ میں کسی نے یہ خبر بھی لکھ ڈالی کہ فلاں سیاستدان کے صاحبزادے کے بھی پانچ آف شور اکاو¿نٹس نکل آئے ہیں۔یہ جعلی اسکرین شاٹ اتنی تیزی سے وائرل ہوا کہ کئی ٹی وی چینلز کے اینکرپرسنز نے اپنے براہ راست پروگرامز میں بغیر تصدیق کیے اس کا حوالہ دے دیا اور یوں یہ جھوٹی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ لہٰذااسی خطرے سے بچنے کے لیے اتوار کے روز صدر مملکت جناب ڈاکٹرعلوی نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈی ننس جاری کردیا ۔ اس آرڈیننس کا مقصد جعلی خبریں (فیک نیوز) روکنا بتایا گیا ہے، اور اس فعل کو قابلِ دست اندازی پولیس اور ناقابلِ ضمانت قرار دیا گیا ہے اور اس الزام میں کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ گرفتار کیا جا سکے گا۔ آرڈی ننس کے مطابق کسی فرد کے تشخص پر حملے کی سزا تین سال سے بڑھا کر 5سال کر دی گئی ہے اور ”تشخص“ کی تعریف میں ایسوسی ایشن، ادارے، تنظیم یا اتھارٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے جو حکومتی قوانین کے تحت قائم کی گئی ہو۔ عدالتوں کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ اس نوعیت کے کیسوں کا چھ ماہ کے اندر فیصلہ کردیں۔ وغیرہ وغیرہ اس آرڈیننس پر صحافی برادری خوب شور و غوغا کر رہی ہے ،جیسے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان تو پہلے ہی صحافیوں کیلئے غیرمحفوظ ہے اور دنیا میں پاکستان کا دنیا میں 8واں نمبر ہے۔ سینکڑوں صحافی اب تک قتل، اغوا یا لاپتہ ہو چکے ہیں اور مارپیٹ معمول بن چکی ہے۔ اس قانون کے بعد دنیا میں آزادی صحافت کے معاملے میں پاکستان کی رہی سہی ساکھ بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ خاص طور پر انوسٹی گیٹو رپورٹنگ جو میڈیا کی جان ہوتی ہے، سرے سے ختم ہو جائے گی کیونکہ کسی کو بھی جعلی خبر چلانے کے الزام میں جیل بھیج دیا جائے گا، چاہے اس کے پاس کتنے ہی ٹھوس ثبوت کیوں نہ ہوں اور مقدمہ چلنے پر باعزت بری کیوں نہ ہو جائے۔ بلکہ کئی تنظیموں کے بقول حکومت یہ سب کچھ گھبراہٹ میں کر رہی ہے اور بقول شاعر وہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں نفرت ہوئی سارے جہاں سے نئی دنیا کوئی لائے کہاں سے لیکن اس کے برعکس اگر اسے اچھے انداز میں اور صاف نیت کے ساتھ لاگو کر دیا جائے تو اس میں کئی چیزوں کے حوالے سے بہتری آسکتی ہے، کیوں کہ کچھ لوگ صحافی نہیں مگر وہ صحافی بنے ہوئے ہیں۔کچھ لوگ اینکر نہیں مگر وہ اینکر بنے ہوئے ہیں، کچھ لوگ تجزیہ کار نہیں مگر وہ تجزیہ کار بنے ہوئے ہیں، کچھ لوگ معاشی ایکسپرٹ نہیں مگر نام نہاد معاشی ایکسپرٹ بنے ہوئے ہیں، اور تو اور کئی لوگوں کی کوالیفیکشن میں اس قدر مسائل ہیں کہ اُنہیں ریسرچ کی الف ب بھی نہیں آتی۔ مگر وہ بات بنانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ”براہ راست“ صحافی ہیں ، مطلب ”ڈائریکٹ حوالدار“لگے ہوئے ہیں ۔ پھر اسی لیے انہی نام نہاد صحافیوں نے ”فیک جنرلزم“ کے نام پر بلیک میلنگ شروع کی ہوئی ہے۔ ہم بھی صحافی ہیں، ہم بھی اخلاقیات میں رہ کر کام کرتے رہے ہیں، ہم بھی انوسٹی گیٹو سٹوریز کرتے رہے ہیں، ہم تو اُن ادوار میں سٹوریز کرتے تھے جب چند ایک نیوز پیپرز ہوا کرتے تھے، اور قارئین اور حکومتی اداروں کی انہی نیوز پیپرز پر گہری نظر بھی ہوا کرتی تھی۔ لیکن سٹوری حقائق پر مبنی ہوتی تھی جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔ اُن دنوں بقول جلال الدین رومی ہماری حالت یہ ہوا کرتی تھی کہ ”میں پرندوں کی طرح گانا چاہتا ہوں۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کوئی کیا سنتا اور سوچتا ہے۔“ اور پھر ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ جیسے میں نے بتایا کہ ہمارے بیشتر اینکرز نے کہیں سے کوئی ٹریننگ نہیں لی ہوئی، اور پھر مسئلہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ اُنہی اینکرز نے اپنے اپنے یوٹیوب چینلز بھی بنا رکھے ہیں، اور پھر اُن پر ایسا ایسا بے لاگ تبصرہ فرماتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ اور تواور ریٹنگ بڑھانے کے لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور دیگر رہنماﺅں کی گھریلو خواتین کو بھی نہیں چھوڑا جاتا ۔ اسی لیے سوشل میڈیا تو انتہا کی دھجیاں اُڑا رہا ہے، انتہائی نان پروفیشنل Behaviourدکھا رہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کے درمیان میں کوئی ”برج“ نہیں ہے۔ حالانکہ فیک اخبارات یا مین اسٹریم میڈیا میں تو پھر بھی کہیں نہ کہیں بیرئیرز لگے ہیں جہاں آپ کا کالم، مضمون، پروگرام یا ڈاکیومنٹری چیک ہو جاتی ہے، اور ”فیک معلومات“ پکڑی جاتی ہیں مگر سوشل میڈیا پر آپ محض جھوٹی سچی پوسٹ تیار کریں اور اُسے لوگوں کے درمیان پھینک دیں۔ اور پھر تماشہ دیکھتے رہیں! اور پھر ہمارے ہاں ہو یہ رہا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف ہم فیک خبروں کو استعمال کررہے ہیں، جیسے ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کے خلاف پیسے دے کر مہم چلواتا اور پھر اُنہیں وائرل بھی کرواتا ہے۔ اور پھر کیا ہر سیاسی جماعت نے اپنا میڈیا سیل قائم نہیں کیا ہوا؟ سب نے کیا ہوا ہے، اور ان میڈیا سیلز میں عموماََ ہمارے صحافی بھائیوں ہی کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے پراپرٹی ٹائیکونز نے اپنے ملازمین میں ریٹائرڈ ججز، ریٹائرڈ جرنیلوں یا ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو نوکریوں پر رکھا ہوا ہے۔ بہرکیف سوشل میڈیا ہو یا مین اسٹریم میڈیا ہمیں اس کو مثبت انداز میں چلانے اور معاشرے کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے قوانین بنانے چاہیئں جن کی اس ملک و ملت کو اشد ضرورت ہے۔ پھر ایسے سینئر صحافیوں کو بھی میدان عمل میں آناچاہیے جو اچھا کام کر رہے ہیں، ویسے تو چند ذمہ دار صحافیوں نے بھی اپنے اپنے چینلز کھول رکھے ہیں، وہ مثبت تبصرہ بھی پیش کرتے ہیں، وہ دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں، وہ حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہیں، وہ کسی کے کپڑے نہیں اُتارتے بلکہ اصلاح کا پہلو اپنے پاس رکھتے ہیں، وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے بھی کام کر رہے ہیں اور اُنہیں آئیڈیا بھی ہوتا ہے کہ وہ کیا ڈلیور کر رہے ہیں لیکن میں پھر وہی کہوں گا کہ ان میں اکثریت گھس بیٹھیوں ہی کی ہے جس کی وجہ سے پھر حکومت کو ”پیکا“ جیسے قوانین متعارف کروانا پڑتے ہیں۔ لہٰذااس کام میں صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں ہے، اس میں صحافی برادری بھی مکمل ذمہ دار ہے۔ کہ وہ اپنی صفوں میں اُن افراد کی نشاندہی کرے جو اس عظیم پیشے کو بدنام کر رہی ہے۔ کیوں کہ پاکستان میں اس وقت دس کروڑ کے قریب رجسٹرڈ ووٹر زہیں۔ پی ٹی اے کے مطابق پاکستان میں براڈ بینڈ کے پانچ کروڑ اسی لاکھ کے قریب کنیکشن ہیں جن کا استعمال ایک سے زائد افراد کر رہے ہیں۔مطلب پاکستان کی آدھی آبادی سوشل میڈیا استعمال کرنے کے قابل ہے ، اس لیے ایسے قوانین وقت کی ضرورت ہیں۔ تاکہ حکومتی رٹ قائم ہو سکے، اور جعلی لوگ جو یہ جھوٹا مواد تیار کررہے ہیں، فوٹو اور ویڈیو ایڈیٹنگ کے ذریعے آسانی سے لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور مرضی کے نتائج حاصل کرکے پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اُن پر پکڑ ضروری تھی۔ لیکن سزائیں کچھ زیادہ ہیں، سزاﺅں سے زیادہ اگر حکومت اس بات پر فوکس کرتی کہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بناتی تو بہت سے ابہام دور ہو سکتے تھے اور پھر میں نے اپنے سابقہ کالموں میں کہا ہے کہ اگرمیڈیا میں فیک نیوز پر کنٹرول کرنا ہی ہے تو ”فیکٹ چیک اتھارٹی“ بنائی جائے جس میں سابق جج، سینئر صحافی اور سابق بیوروکریٹ شامل ہوں جو روزانہ کی بنیاد پر فیکٹس چیک کریں، اگر خبر غلط ہو تو صحافی کو وارننگ دیں، اُس کی کریڈیبلٹی خود بخو خراب ہو جائے گی اور حکومتی عزت بھی بچی رہے گی! #Fake News #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan