عوامی مارچ: پیپلزپارٹی ہوش کے ناخن لے!

اقتدار حاصل کرنے کی تیزیاں اور اقتدار بچانے کی پھرتیاں دونوں اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں، اپوزیشن اپنے پتے کھیلنا چاہ رہی ہے جبکہ سرکار اپنے پتے، حکمرانوں کے پاس اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ”کرپشن“ سب سے بڑا ہتھیار ہے، جبکہ اپوزیشن کے پاس حکومت کی ناقص کاکردگی کاہتھیار موجود ہے۔ ادھر 2023کے عام انتخابات قریب آ رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف تمام جماعتیں عوام سے ہمدردیاں لینے کی غرض سے نئی حکمت عملیاں ترتیب دے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک حکمت عملی پیپلزپارٹی نے بھی ترتیب دی ہے، اور وہ ہے عوامی رابطہ مہم۔ عوامی رابطہ مہم میں پہلی ”فلائیٹ“ عوامی مارچ یعنی لانگ مارچ سے شروع ہو چکی ہے۔ جس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری خود کر رہے ہیں، یہ لانگ مارچ اتوار کو مزار قائد کراچی سے لانگ مارچ شروع کر دیا ہے جو8مارچ کو اسلام آباد پہنچ کر حکومت پر ”حملہ“ کرے گا۔ یہ لانگ مارچ 35شہروں سے ہوتا ہوا وفاقی دارالحکومت پہنچے گا۔ پارٹی نے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے 38نکاتی مطالبات پیش کئے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کا تحفظ ہے۔ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کے جواب میں تحریک انصاف نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سرکردگی میں حکومت سندھ کے خلاف ”سندھ حقوق مارچ“شروع کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ 2023کے انتخابات کے بعد سندھ میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہو گی۔مطلب ہر کوئی عوام کے سامنے اپنے آپ کو ”نجات دہندہ“ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو آخر عوام کی اس قدر یاد کیوں ستانے لگی ہے؟ حالانکہ سندھ کے 8کروڑ عوام بھی اُنہی کی ملکیت ہیں، جو پرلے درجے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، یہ وہی سندھ ہے جہاں گزشتہ 15سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ یہ وہی سندھ ہے جہاں کے عوام کے رہن سہن کا گراف پہلے سے گر چکا ہے، اور سندھ کا دارلخلافہ کراچی جس کے ساتھ پیپلزپارٹی نے سوتیلوں جیسا سلوک کیا ہے،وہاں تو حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکے ہیں۔ وہاں نالوں یا پارکوں پر بلڈنگیں تو بن ہی رہی تھیں، مگر اب قبضہ گروپ اس قدر ایکٹو ہیںکہ اُنہیں سیاسی پشت پناہی حاصل ہو چکی ہے۔ یعنی پی پی پی پہلے اُنہیں تو ٹھیک کر لے، پھر مارچ بھی کر لے۔ اور پھر پیپلزپارٹی گزشتہ 2مرتبہ ہوئے الیکشن میں وہ خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ اُن کی کیا پوزیشن ہے، آج اگر اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور عمران خان گھر چلے جائیں تو کیا اقتدار کا چانس پیپلزپارٹی کے پاس ہے؟ ہاں سندھ میں اُس کے حکومت بنانے کے چانسز زیادہ ہوں گے، مگر سندھ تو پیپلزپارٹی کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے، تو احتجاج کیسا؟ احتجاج کس لیے؟ کیا پیپلزپارٹی مرکز میں حکومت بنانا چاہتی ہے؟ وہ اپنی چند ایک سیٹوں کے ساتھ مرکز میں کیسے حکومت بنا سکتی ہے؟ اگر وہ پنجاب کا سہارا لے کر حکومت قائم کرناچا ہتی ہے تو کیا اُسے 2018ءکے الیکشن کے نتائج بھول گئے ہیں؟ کہ پنجاب کے عوام نے اُنہیں نمبر4پر پھینک دیا تھا۔ یعنی پہلے نمبر پر تحریک انصاف، دوسرے پر ن لیگ، تیسرے پر تحریک لبیک اور چوتھے پر پیپلزپارٹی آئی تھی۔ یعنی آپ اندازہ لگائیں کہ پنجاب میں پی پی پی کی کل 7نشستیں ہیں، جن میں 4 رحیم یار خان، ایک ملتان میں سید علی حیدر گیلانی ، ایک چنیوٹ کی اور ایک مخصوص نشست برائے خواتین ہے۔ جبکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی صرف 6 نشستیں ہیں، جن میں راولپنڈی کی راجہ پرویز اشرف کی سیٹ، 2رحیم یار خان کی اور 3مظفر گڑھ کی ہیں ۔اور پھر پنجاب میں 2013ءمیں پیپلزپارٹی کو 8فیصد ووٹ ملے جبکہ 2018ءمیں مزید کم ہو کر 5فیصد رہ گئے۔ چلیں پنجاب کو چھوڑیں کے پی کے پر آجائیں، کے پی کے میں ایک قومی اسمبلی کی نشست پی پی پی کے پاس ہے۔ جبکہ 4صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں،اور پھر بلوچستان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جبکہ اس کے بعد سندھ ہی بچتا ہے جہاں سے قومی اسمبلی کی 38نشستیں پی پی نے حاصل کر رکھی ہیں اور صوبے میں حکومت بھی انہی کی ہے۔ لہٰذاپی پی پی کو میرے خیال میں مسئلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن جو مسئلہ یہاں پر موضوع بحث بنایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ پی پی پی کو سندھ حکومت سنبھالے 15سال ہوگئے ہیں، کیا انہوں نے یہاں کوئی ایسی مثالی کارکردگی دکھائی ہے انہوں نے جو دوسرے صوبوں کی عوام اپنے صوبے میں پیپلزپارٹی کو خوش آمدید کہیں؟ یا پیپلزپارٹی کی دوسرے صوبے تقلید کریں ۔ لیکن وہاں کے حکمرانوں کی کارکردگی محض اتنی ہے کہ نت نئے کرپشن کے سکینڈلز سامنے آرہے ہیں، انہوں نے پرائیویٹ بلڈرز کے ساتھ مل کر وہاں کے سیاستدانوں نے زمینیں اپنے نام کروائیں، اور بے دھڑک ہو کر بیچ ڈالیں، اور وہاں جن کی زمینیں تھیں اُن کے ساتھ ظلم ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں۔ اور نہلے پر دہلا یہ کہ کون نہیں جانتا کہ ایک پرائیویٹ ہاﺅسنگ سکیم کے مالک پراپرٹی ٹائیکون نے لاہور میں ”بلاول ہاﺅس“ گفٹ کیا۔ کیا ایسے گفٹ لیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے جیالوں کو بھی شرم نہ آئی کہ وہ اپنے قائدین سے پوچھ سکیں ۔ کیا پیپلزپارٹی ایسی جمہوریت لانا چاہتی ہے؟ خیر پھر ایک اور اہم بات یہ کہ جنرل الیکشن میں پی پی کے ساتھ دھاندلی بھی نہیں ہوئی، بلکہ سندھ میں اُن پر دھاندلی کے بے تحاشہ الزامات لگائے گئے ہیں تو پھر وہی سوال کہ یہ لانگ مارچ کس لیے؟ سب سے پہلے پیپلزپارٹی اپنی پوزیشن دیکھے، کہ اُسے آخری جنرل الیکشن میں 11کروڑ ووٹروں میں سے مجموعی طور پر 69 لاکھ 13 ہزار 410 ووٹ پڑے۔پی پی پی کی قومی اسمبلی میں کامیابی کا تناسب صرف 17 فیصد رہا۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 12.59 فیصد رہا۔اور پھر حیران کن طور پر 2013ءکے مقابلے میں پی پی پی کو 16فیصد سے کم ہو کر 13فیصد ووٹ ملے۔ یہ سب چیزیں ایک طرف، آج ن لیگ اور پیپلزپارٹی کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں، آج صرف اتنا بتا دیا جائے کہ کس دور میں ن لیگ نے پیپلزپارٹی پر اور پیپلزپارٹی نے ن لیگ پر کرپشن، دھاندلی اور پتہ نہیں کون کون سے الزام نہیں لگائے ۔ مطلب عوامی مارچ نکال کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ صرف عوام کو دھوکہ دینا چاہ رہے ہیں، اگر یہ کچھ بھی نہیں ہے تو پھر بادی النظر میں پیپلزپارٹی صرف پارٹی کارکنوں کو متحرک رکھنے، فنڈز اکٹھا کرنے، اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے عوامی مارچ نکالنا چاہتی ہے، جس کا حقیقت اور عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور پھر خبریں یہ بھی گردش کر رہی ہیں کہ جس طرح مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے مارچ نکالا اور اُن پر الزام لگا کہ اُن کی جماعت نے کوئٹہ سے بیشتر سمگلنگ کی گاڑیاں پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہنچائیں، اور ڈرگ مافیا، اسمگل مافیا اور دیگر مافیاز کو فائدہ پہنچایا جبکہ موجودہ مارچ کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی خبریں آرہی ہیں۔ بہرکیف ویسے تو دنیا بھر کی تاریخ میں لانگ مارچ خاصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اور ان مارچ وغیرہ کا مقصد خالص عوامی ہو تو نتائج انقلاب کی صورت میں بھی نکل سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ لانگ مارچ ہمیشہ کسی نہ کسی کے اشارے پر ہوئے ہیں۔ جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 16نومبر 1992ءکو اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ 1990ءکے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تھی۔ بعد ازاں 26مئی 1993 ءکو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دوبارہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا اور وفاقی دارالحکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔اگرچہ پیپلز پارٹی کے اس لانگ مارچ سے سیاسی اہداف توحاصل ہو گئے لیکن خود پیپلز پارٹی کی قیادت اس کامیابی پر افسوس کا اظہار کرتی رہی کیونکہ اسے بعد میں احساس ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پیپلز پارٹی کی اس خالص سیاسی سرگرمی کو اپنے اہداف کےلئے استعمال کیا ، جنکے تحت 1988 سے 1999 ءتک کے سیاسی وقفہ میں جمہوری اور سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنا اور آئینی مدت سے پہلے انہیں برطرف کرنا مقصود تھا۔ قبل ازیں 1989ءمیں میاں نواز شریف نے بھی آئی جے آئی کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔پھر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے عمران خان کی حکومت کے خلاف نومبر 2019ءمیں لانگ مارچ اور اسلام آباد میں 13 دن کے دھرنے سے ایوان لرزنے لگے تھے لیکن بظاہر اس میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ 2013ءاور 2014 ءمیں ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے لاہور سے اسلام آباد مارچ اور پھر تحریک انصاف کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنے سے بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت ہل کر رہ گئی تھی لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کی جماعتوں نے مل کر نواز شریف کی جمہوری حکومت کا دفاع کیا اور حکومت اس جھٹکے سے بچ گئی لیکن 2016 ءمیں تحریک انصاف کے دوبارہ دھرنے سے صورت حال بدل گئی۔دھرنے کی وجہ سے یہ طے ہوا کہ میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس عدالت میں چلے گا۔ پھر اسی کیس میں وزیر اعظم نواز شریف ایوان وزیر اعظم سے جیل چلے گئے۔ اس طرح 2016ءکا تحریک انصاف کا دھرنا کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذااگر بلاول اس قسم کے مارچ کو کامیاب بنانا چاہ رہے ہیں تو سب سے پہلے اُنہیں سندھ کو ٹھیک کرنا پڑے گا، پھر عوامی جماعت بننا پڑے گا، پھر عوامی ایشوز حل کرنا ہوں گے تب جا کر وہ عوام کے دلوں میں جگہ بنا سکیں گے! اُس کے علاوہ کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ مارچ بری طرح ناکام ہو جائے گا! #Pakistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon