خواتین ڈے: عورتوں کے اصل مسائل آج بھی توجہ طلب!

بلا شک و شبہ عورت زندگی کا ایک خاص جزو ہے جس کے بغیر شاید کائنات ادھوری رہتی....تبھی علامہ اقبالؒ نے کہا تھا وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں تبھی کسی مفکر نے زندگی کے حسین ترین راز کو” عورت“ کہا ،تو کسی نے قدرت کی تمام خوبیوں کا مجموعہ کہا....کسی نے کہا عورت کا خمیر وفا ، محبت ایثار و قربانی کے جذبوں سے گندھا ہے ،کسی نے عورت کو وفاکے نام کی پتلی سے موسوم کیا ۔کسی نے کہا عورت بنی نوع کا لازمی حصہ ہے اورنسل انسانی کی صالح بنیادوں پرنشو ونما کا انحصار اسی کے طرز عمل پر ہے اورکسی نے اسے حواکی بیٹی، گلاب کی ایک شگفتہ کلی اور شفاف پانی کا ایک چشمہ کہاہے ....آج عورت بیٹی، بہن، بیوی، ماں سبھی کے روپ میں ہمارے سماج کا حصہ ہے، اسے اتنی ہی عزت ملنی چاہیے جتنی مردوں کی کی جاتی ہے۔ جو اس کی عزت نہیں کرتا، وہ بھی عزت کے لائق نہیں ہونا چاہیے۔بلکہ میر ا تو یہ یقین ہے کہ جو مرد عورت کی عزت نہیں کرتا، اُسے پاﺅں کی جوتی سمجھتا ہے، یا بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھتا ہے، یامحض گھریلو کام کاج والی خاتون سمجھتا ہے، یا گھر کی چار دیواری میں رہنے والا شو پیس سمجھتا ہے، یا وہ اسے محض جنسی تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے تو وہ یقینا ذہنی طور پر بیمار ہے، اپاہج ہے، مفلوج ہے۔ اس کی تربیت ہونی چاہیے، اُس کا علاج ہونا چاہیے،اُسے تعلیم کی ضرورت ہے، اُسے یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ عورت بھی اسی گاڑی کا ایک پہیہ ہے جسے ہم چلانے کی اپنے تئیں کوشش کر رہے ہیں۔ تبھی دنیا بھر میں عورت کو اُتنے ہی حقوق دیے جارہے ہیں جتنے مرد کو حاصل ہیں۔ آج 8مارچ اسی مناسبت سے انٹرنیشنل وومن ڈے منایا جا رہا ہے، ہر سال کی طرح ملکی و عالمی سطح پر تقریبات کا انعقاد کیاجاتا ہے اور ”عورت“ کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور اُس کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، لیکن اس کے برعکس افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اسے سخت ناپسند کیا جاتا ہے، سخت ناپسند اس لیے کہ شاید عورت کی آزادی کے علمبرداروں نے عورت کے اصل حقوق سے آگہی دلانے کے بجائے اُسے متنازع بناکر پیش کیا ہے۔ اور ایسے ایسے نعرے متعارف کروائے ہیں جو ہمارے معاشرے کو حقیقی معنوں میں زیب نہیں دیتے۔ لیکن اگر زمینی حقائق کی روشنی میں بات کی جائے تو قارئین آپ کو یہ بات جان کر حیرت ہو گی کہ ورلڈ اکنامک فورم کی 2020ءمیں شائع شدہ جینڈر گیپ رپورٹ کے مطابق پاکستان 153 ممالک کی فہرست میں 151ویں نمبر پر ہے اور یوں پاکستان اس میدان میں صرف عراق اور یمن سے آگے ہے۔پھر معاشی طور پر خودمختار خواتین کے حوالے سے ہماری رینکنگ 153ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے، پھر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ہمارا نمبر 143واں ہے،پھر خواتین کی صحت کی سہولیات کے حوالے سے 149واں ہے، پھر خواتین کے سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے ہم93ویں نمبر پر ہیں، زچگی کے دوران شرح اموات میں ہم تیسرے نمبر پر ہیں، یہی نہیں ہم جنوبی ایشیا میں بھی خواتین کو حقوق دینے میں آخری نمبر پر ہیں۔اور پھر اولمپک گیمز میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے ہمارے ملک کا نمبر 111ہے۔ چلیں باقی چیزیں چھوڑ دیں صرف تعلیم کو ہی دیکھ لیں تو یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم میں بھی اچھا خاصا فرق موجود ہے۔ جیسے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 25لاکھ بچےاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، 32 فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کی لڑکیاں سکول نہیں جاتیں ۔ چھٹی جماعت تک 59 فیصد لڑکیاں سکول سے باہر ہیں۔نویں جماعت میں صرف 13 فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں۔ اور کالج لیول تک تو یہ تناسب شرمناک حد تک گر جاتا ہے، یعنی محض 6فیصد رہ جاتا ہے۔ پھر یہاں زبردستی شادیوں کے رواج ، جائیداد میں خواتین کے حقوق سلب کرنے کے مسائل، پھر یہاں زنا بالجبر یا ریپ کے ہزاروں مسائل ہیں جنہیں کوئی نہیں روک پا رہا، ایک تحقیق کے مطابق سال 2021میں ان کیسوں کی تعداد میں 200فیصد اضافہ ہوا، اور صر ف لاہور میں ایک ماہ میں 73 ریپ کیسز اور 5 گینگ ریپ کیسز رپورٹ کیے گئے۔سوال یہ ہے کہ ہم نے سکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کیا اقدامات کیے؟ اگر 6فیصد لڑکیاں سکول جاتی ہیں تو ہم نے یہ تناسب 12فیصد تک لانے کے لیے کیا اقدامات اُٹھائے؟ کوئی نہیں! پھر یہ سب کچھ بھی ایک طرف رکھ دیں۔ہماری فیملی کورٹس کا حال ہی دیکھ لیں، وہاں کیسز اتنے طویل اور پیچیدہ ہوتے ہیںکہ عورت اُنہیں لڑ ہی نہیں سکتی۔ یعنی ہماری عدلیہ کا جو خواتین کے حوالے سے جو کیسز ہیں ، وہ اس قدر مشکل ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے حقوق کے لیے آگے نہیں بڑھ سکتی، اس لیے وہ بیشتر جگہوں پر خاموش رہنے پر اکتفاءکرتی ہے۔ لہٰذاٹھیک ہے کہ آپ اُن خواتین کو حقوق نہ دیں، کیوں کہ بادی النظر میں وہ خود حقوق لے لیتی ہیںلیکن باقی 11کروڑ سے زائد خواتین کو حقوق تو دیں جو ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں۔ اور پھر ہم تو ایسے ہیں کہ قرآن پاک کی رو سے اُنہیں اُن کا وراثتی حق بھی نہیں دیتے، وہ بھی ہم ہڑپ کر جاتے ہیں۔اور پھر آپ کے پاس خواتین کو حقوق نہ دینے کا کوئی مناسب جواز بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس ملک میں شاید خواتین نے وہ کارنامے سر انجام دیے ہیں جو شاید مردوں کے بس کی بات بھی نہیں تھے۔ اور پھر اسی ملک نے فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی بہادر بیٹیاں پیدا کی ہیں، اسی ملک نے ارفعہ کریم اور ملالہ یوسف زئی جیسی عظیم لڑکیاں پیدا کی ہیں، اسی ملک نے بیگم عابدہ حسین، شائستہ اکرام اللہ اور بیگم فہمیدہ مرزا جیسی نڈر خواتین پیدا کی ہیں، اسی ملک نے فردوس عاشق اعوان پیدا اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی سوشل ورکرخواتین پیدا کی ہیں، اسی ملک نے شیریں مزاری اور شیری رحمن جیسی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والی خواتین کو پیدا کیا ہے۔ اسی ملک نے کلثوم نواز ، مریم نواز، حنا ربانی کھر، شرمین عبید چنائی، عائشہ فاروق، تبسم عدنان، ثمینہ خیال بیگ، شمیم اختر، طاہرہ قاضی، بشریٰ انصاری،جہاں آرا، رابعہ غریب، سبین محمود، ثمینہ فاضل، ندا فرید، روشانے ظفر، شیبہ نجمی، سلمیٰ جعفری، کلثوم لاکھانی، ماریہ عمر، صبا گل، مومنہ مستحسن، منیبہ مزاری، مسرت مصباح، رافعہ بیگ، ماہرہ خان، صبا قمر، صنم بلوچ اور بہت سی ایسی خواتین دیں جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا۔ اور پھر ان سب سے بڑھ کر ملیحہ لودھی، مریم اورنگ زیب،تہمینہ درانی، شازیہ مری، ماروی میمن، کشمالہ طارق، شرمیلا فاروقی، سمیرا ملک، انوشے رحمن،نصرت بھٹو، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم وقارالنسائ، بشریٰ گوہر، شہلا رضا، نسرین جلیل، بلقیس ایدھی، آمنہ بٹر، سسی پلیجو، تہمینہ دولتانہ،بیگم سلمیٰ تصدق حسین، مہناز رفیع ،بیگم عابدہ حسین، بانو قدسیہ، صہبا مشرف، صغریٰ امام اور فوزیہ وہاب جیسی نامور اور معتبر خواتین کو بھی اسی ملک نے جنم دیا ہے۔ تو پھر خواتین کسی بھی فیلڈ میں کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں؟ پھر آپ اُن عام بچیوں کو دیکھ لیں جو انٹرمیڈیٹ، گریجوایشن یا میٹرک کے امتحانات کی ٹاپر ہوتی ہیں، لیکن ان سب کے باوجود ہم اُنہیں کیا دیتے ہیں؟ کیاہم اُنہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیں، الغرض ایسی تو کوئی بات نہیں کہ پاکستانی خواتین کسی سے پیچھے ہیں یا مرد سے کم تر ہیں۔ لہٰذاDependکرتا ہے کہ آپ اُنہیں ماحول کیا دیتے ہیں؟ لہٰذا”عورت مارچ“ کے پراپیگنڈے کو عورتوں کے اصل حقوق سے دور رکھا جائے اور عورت کو جائز اور اصل حقوق کی طرف توجہ دلائی جائے۔ یقین مانیں ! حیرت تو اس وقت بھی ہوتی ہے کہ جب مغرب کی مثالیں دے کر عورت کی آزادی کی بات کی جاتی ہے۔میں ہر سال دو تین دفعہ امریکا جاتا ہوں، وہاں میں نے کبھی ایسا ماحول نہیں دیکھا جو یہاں ایک خاص ایجنڈے کے تحت تھونپا جا رہا ہے۔ وہاں خواتین اپنے مردوں، بچوں اور بوڑھوں کی نہ صرف خدمت کرتی ہیں بلکہ ساتھ وہ جاب بھی کرتی ہیں۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ اپنے موزے خود ڈھونڈو.... یا اپنا سالن خود گرم کرو۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہاں خواتین کی تعلیم 100فیصد ہے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے ایجوکیشن مانگنی چاہیے، آزادی تو بعد کی باتیں ہیں۔ لہٰذااگر آپ نے کوئی چیز منوانی ہے تو اُس کی اچھی تصویر پیش کی جائے اور لوگوں کو ذہنی طور پر ایجوکیٹ کیا جائے، عورت کے ساتھ ساتھ ابھی میرے خیال میں اس حوالے سے مرد کی تربیت بھی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو مرد کی مثال یوں ہے جیسے چڑیا گھر میں ہر جانور کا مزاج بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اور ہم ہر جانور کے سامنے سے بھی اُس کی کیفیت اور فطرت کے مطابق گزرتے ہیں اسی طرح ہمارے معاشرے میں موجود مردوں کی بھی مختلف اقسام ہیں، تبھی جنسی زیادتی کی مثالیں ہر گزرتے روز بڑھتی جا رہی ہیں۔ بہرکیف یہ بات درست ہے کہ عورتوں کو با اختیار بنانے کی ضرورت ہے۔ انھیں حقوق، مقام، آزادی اور احترام سبھی کچھ ملنا چاہیے آزادی کپڑوں سے نہیں ذہنیت سے ہونی چاہیے، ترقی پسندی لباس سے زیادہ خیالوں سے ہونا ضروی ہے۔ عورتوں کی تعلیم، ان کی شخصی آزادی، ان کی پسند و ناپسند، ان کا نظریہ وغیرہ۔ اظہار خیال کی آزادی انتہائی اہم ہے اور اسی سمت میں کام کیا جانا چاہیے۔جب ایجوکیشن آتی ہے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کپڑے کیسے پہننے ہیں اور اپنے آپ کو کس حد تک کنٹرول میں رکھنا ہے۔ ایجوکیشن ہمیشہ تہذیب سکھاتی اور انڈرسٹینڈنگ کو فروغ دیتی ہے۔ میرا یقین ہے کہ میاں بیوی گاڑی کے دوپہیے ہوتے ہیں۔ ہم کب کہتے ہیں کہ عورت غلام ہے؟ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ عورت اپنے شوہر کی بہترین دوست ہوتی ہے اور میرے خیال میں یہی آزادی ہے، لہٰذااسے بے ہودگی کے لبادے میں ڈھالنے سے باز رہیے!!! #Pakistan #Women Day #Ali Ahmed Dhillon