چوہدری برادران پاکستان کی سیاست کے محور؟

سینیٹ الیکشن ہوں، جنرل الیکشن ہوں ، سیاسی تحریک ہویا کوئی ”آئینی“ تحریک ۔ پاکستان میں ”سیاسی مہرے“ ایسے متحرک ہوتے ہیں ، ایسی چالیں چلتے ہیں ، یا ایسے ایسے پتے کھیلتے ہیں کہ عام آدمی حیران و پریشان ہو جاتا ہے ۔ جیسے آج کل تحریک عدم اعتماد پر سیاست دیکھ لی جائے!.... توبہ توبہ! ایسی سیاست دنیا میں کہیں نہیں دیکھی جا رہی جیسی یہاں ہو رہی ہے، کہیں ممبران قومی اسمبلی کو ”سیف کسٹڈی“ میں رکھا جا رہا ہے تو کہیں اُنہیں ”غائب“ کیا جا رہا ہے، کہیں کہا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تو اُنہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے گا تو کہیں کہا جا رہا ہے کہ مخالفت میں ووٹ دینا ”غداری“ کے مترادف ہو گا، حد تو یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتوں کا نام بھی بے دھڑک لیا جا رہا ہے اور نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ وہ ”ہمارے ساتھ ہیں“ یا ایک طرف سے کہا جا رہا ہے کہ ” وہ نیوٹرل ہیں“ ۔ اس سیاست میں چوہدری برادران جو نسبتاََ چھوٹی جماعت ق لیگ کے روح رواں ہیں پاکستان کی سیاست کا محور بنے ہوئے ہیں۔ ویسے تو وہ شروع ہی سے سیاست کا محور رہے ہیں مگر موجودہ حالات میں جب تحریک عدم اعتماد کا آغاز ہوا تو سبھی بڑے سیاسی مہروں نے چوہدری برداران کے گھر کا رُخ کر لیا۔ یعنی سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے لاہور گلبرگ میں ظہورالٰہی پیلیس میں آکر ’نئے سیاسی‘ رابطوں کی داغ بیل ڈالی۔ زرداری اس سے پہلے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے ساتھ عدم اعتماد کا ’فارمولہ‘ ڈسکس کرکے ہی چوہدری برادران سے ملاقات کرنے آئے۔ بس پھر کیا تھا ظہور پیلیس نئے سیاسی گٹھ جوڑ کا مرکز دکھائی دینے لگا۔ شہباز شریف خود چل کر پرویز الٰہی سے دو دہائیوں کے بعد ان کے گھر پہنچے۔ تو مولانا فضل الرحمن بھی ایک الگ ملاقات کے لیے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملنے آ گئے۔ ایک اور حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں نے بھی اسی دوران ایک ملاقات چوہدری برادران سے کی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے سراج الحق بھی ظہور پیلیس تشریف لائے۔ جب یہ ملاقاتیں عروج پر تھیں تو اس وقت وزیراعظم دورہ چین کے بعد دورہ روس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ وزیراعظم نے البتہ اپنی تقریروں میں اپوزیشن کی چوہدری برادران سے ملاقاتوں پر تنقید کی اور اسے اپوزیشن کی کمزوری قرار دیا۔ لیکن خود بھی وزیراعظم چوہدریوں سے ملاقات کرنے یکم مارچ کو ان کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی تھے۔ اس ملاقات کے بعد یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ہی اپنی اگلی سیاسی چالوں میں گجرات کے چوہدریوں کا کردار دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ق لیگ کے پاس مرکز میں صرف پانچ جبکہ پنجاب میں دس سیٹیں ہیں۔ انہی نشستوں کے بل بوتے پر وفاق میں مونس الٰہی وزیر ہیں تو پنجاب میں پرویز الٰہی سپیکر اسمبلی ہیں۔ کم نشستیں ہونے کے باوجود ملکی سیاست میں اپنے آپ کو محور رکھنا گجرات کے چوہدریوں کی اصل سیاست ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں کو چوہدری پرویز الٰہی اپنی ’روایتی مہمان نوازی‘ قرار دیتے ہیں۔مگر اس مہمان نوازی میں انہوں نے ایک دفعہ عمران خان اور اُن کی کابینہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی اثناءمیں وفاقی وزراءکبھی چوہدریوں کے خلاف بیان دیتے ہیں تو اگلے ہی لمحے اُس پر ”نظر ثانی “ کرتے یا وضاحت دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ جیسے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید صاحب نے مسلم لیگ (ق) کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ میں عمران خان کے ساتھ سائے اور چٹان کی طرح کھڑا ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں جو 5 سیٹیں ہوتے ہوئے بھی صوبے میں وزارت اعلیٰ کا عہدہ مانگ رہی ہے۔لیکن چند گھنٹوں بعد شیخ رشید صاحب کا بیان آیا کہ چوہدری برادران کے اُن پر بہت احسانات ہیں اُن کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا! یعنی شیخ رشید کا حال تو یہ ہے کہ بقول مرزا غالب محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے الغرض بہت سے لوگ چوہدری برادران کو شاید پسند نہیں کرتے ، مگر وہ کھل کر اظہار بھی نہیں کرتے، بلکہ کچھ قریبی ساتھیوں سے سنا ہے کہ وزیر اعظم بھی چوہدریوں کے ساتھ دل سے ”محبت“ نہیں کرتے بلکہ اُن کی محبت اتحادی ہونے تک یا محض مفادات کے لیے ہے۔ اور سنا ہے کہ چوہدری برادران بھی اُن سے دلی محبت کرنے سے گریز کرتے ہیں اور محض مجبوری کی خاطر وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے گزشتہ دنوں انٹرویو میں خان صاحب کے خلاف وہ باتیں کہہ دیں جو شاید بطور اتحادی اُنہیں نہیں کہنی چاہیے تھیں۔ جیسے پرویز الٰہی نے کہا کہ بچہ کیسے سیکھے گا،اگر اُسے نیچے اتارو گے تو چلنا سیکھے گا، نیپیاں ہی بدلتے رہو گے، پشاور سے کوئی مدد نہیں آ رہی، اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا کوئی عمل دخل نہیں، فوج نے کہا ہم نیوٹرل ہیں تو خان صاحب نے کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ پرویز الٰہی نے یہ بھی کہا کہ ہمارے ایم این اے کو خان صاحب نے کہا کہ” اُن“ کی مان رہا ہوں اس لیے پرفارم نہیں کیا۔اورپھر اسی بدلے میں پرویز الہٰی نے بھی یہ بیان داغ دیا کہ عمران خان ملاقات کے لیے ضرورآئے تھے مگر اُنہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور ویسے ہی چلے گئے ! خیر یہ تو سیاست ہے یہاں سب لے دے کے لیے ہو رہا ہوتا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے یہ پانچ سیٹ والی پارٹی ضرورت اور مجبوری بن چکی ہے اور شاید یہی ان چوہدریوں کی جیت ہے! اگر اس جماعت پر طائرانہ نظر ڈالیں تو بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستانی سیاست میں جتنے بھونچال آئے ہیں ان میں کسی نہ کسی طرح گجرات کے چوہدری نمایاں رہے ہیں۔ پاکستان میں 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب پرویز مشرف کی سرپرستی میں چوہدریوں نے مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی جس نے پانچ سال تک وفاق اور پنجاب میں حکومت بھی کی۔صدر مشرف نے 2006ءمیں اپنی سوانح عمری ’ ان دی لائن آف فائر، اے میموائر‘ میں انکشاف کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کی تشکیل ان کے ایماءپر ہوئی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد انہوں نے سوچا کہ اس ملک میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو ان دو جماعتوں ( پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن) کا مقابلہ کر سکے اور اس موقع پر ان کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے چوہدری شجاعت حسین کی جنرل مشرف سے ملاقات کا اہتمام کیا جس کے بعد یہ جماعت وجود میں آئی۔پھر چوہدریوں کی حمایت سے ہی میر ظفر اللہ جمالی کو بلوچستان کی نمایندگی کے لیے وزیر اعظم بنایا گیا تھا مگر اصل اختیار جنرل پرویز مشرف کے پاس تھا کیونکہ جمالی صاحب خوشامدی نہیں تھے ،اپنے اصول پر چلتے تھے جس کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نے انھیں جلد فارغ کرا کر عارضی طور پر چوہدری شجاعت کو وزیر اعظم بنا کر شوکت عزیز کو نیا وزیراعظم بنوایاجو غیر سیاسی تھے جب کہ تب بھی سیاست چوہدریوں کے ہاتھ میں رہی۔ اور پھر 2008 کے انتخابات میں چوہدری برادران مرکز میں ن لیگ کے اتحاد چھوڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کی ساتھ اتحاد میں دوبارہ حکومت میں آ گئے۔پھر مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی دس سالہ حکومت میں (ق) لیگ کو کوئی اہمیت نہیں دی تو وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے ساتھ سیاسی اتحاد پر مجبور ہوئے اور پی ٹی آئی کے تعاون سے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 5 نشستیں اور پنجاب اسمبلی کی دس نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کی مجبوری بن گئی، اسپیکر اور ایک ایک قومی و صوبائی وزارتیں لینے میں کامیاب رہی۔ عمران خان نے چوہدریوں کو اہمیت نہیں دی مگر پھر وہ چوہدریوں کے گھر جانے پر مجبور ہوئے کیونکہ (ق) لیگ اچھی سیاست کر رہی تھی۔عمران خان ، مونس الٰہی کو وزارت دینے پر اس وقت مجبور ہوئے جب پرویز الٰہی آصف زرداری سے ملے تو عمران خان کو پالیسی بدلنا پڑی۔ مسلم لیگ (ق) نے اپنی سیاست سیاسی فوائد تک محدود کر رکھی ہے اور اب وہ پی پی حکومت کے بعد تحریک انصاف کی بھی مجبوری بنی ہوئی ہے اور پنجاب میں اپنا وجود نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ بہرکیف ابھی ”گیم آن“ہے ، اگر چوہدری برادران بولڈ گیم کھیل رہے ہیں تو عمران خان بھی سرنڈر کرنے اور بزادار کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن خان صاحب کو یہ سمجھنا ہو گا کہ چوہدریوں کی سیاست شروع سے ہی ایسی ہے، اُنہوں نے ایک وقت میں نواز شریف سے راستے جدا کیے، پرویز مشرف سے بھی دوری اختیار کی، پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مدوجزر کا ماحول رہا اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ساس بہو والا معاملہ ہے۔لہٰذااگر عمران خان اپنی حکومت بچانا چاہتے ہیں تو کم از کم چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب میں کام کرنے کا موقع دیں۔ اور یہی بات کہتے ہوئے مجھے ساڑھے تین سال ہوگئے ہیں، جبکہ شاید آج عمران خان کے لیے یہ بات مجبوری بن چکی ہے ،کیوں کہ پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب میں ترقی اور متعدد نئے منصوبے مکمل ہوئے ، جن کی تفصیل ہر جگہ موجود ہے۔ پرویز الٰہی نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو انتقام کا نشانہ اتنا نہیں بنایا جتنا جنرل پرویز مشرف چاہتے تھے۔ پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی ٹرالی کا چالان تک نہیں ہونے دیا تھا جب کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں چوہدری ضرور انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے تھے شاید اسی لیے وہ سیاست کے ماہر بھی سمجھے جاتے ہیں۔لہٰذاق لیگ کو بھی چاہیے کہ اس بھرپور موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالیں تاکہ اگلے جنرل الیکشن کے لیے وہ بھرپور تیاری کرسکیں اور ق لیگ پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی بن کر اُبھرے!