ناظم جوکھیو قتل کیس :طاقت پھرجیت گئی!

بالآخر وہی ہوا جس کی اُمید کی جارہی تھی کہ ناظم جوکھیو قتل کیس میں ملزمان کو کبھی سزا ہو ہی نہیں سکتی! کیوں کہ اس کیس میں بھی سابقہ کیسز کی طرح ملزمان طاقتور جبکہ مقتولین کمزور طبقے کے افراد ہیں۔ تبھی گزشتہ دنوں ناظم جوکھیو کی بیوہ کا ویڈیو بیان منظر عام پرآیا جس میں اُس کا کہا ریاست کے منہ پر طمانچہ ہے ، وہ کہتی ہیں کہ ”میں نے تمام ملزمان کو معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔جو بچوں والا ہوگا وہ ہی ان کی مجبوری سمجھ سکتا ہے اور جو ماں بہن والا ہوگا وہ ہی ان کا درد محسوس کر سکتا ہے۔میں جس وقت سے گزر رہی ہوں اللہ نہ کرے یہ وقت کسی پر آئے۔ میں ایک ایماندار اور وفادار لڑکی ہوں، میں مقدمہ لڑنا چاہتی تھی، میں آگے اس لیے لڑ نہیں پا رہی ہوں کیونکہ میرے اپنوں نے ہی میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے، سب نے تنہا کر دیا ہے۔ میں اس مجبوری میں مقدمے سے ہٹ رہی ہوں، مجھے ڈیل کی کوئی پیشکش نہیں ہوئی ہے، میں نے معاف کر کے اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور وہ انصاف دے گا۔ میری کوئی لالچ نہیں ہے، میں آگے نہیں لڑ سکتی مجھ میں مزید طاقت نہیں ہے۔“ ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جو چار بچوں کی ماں ہے، اُس کے اپنوں نے اُسے چھوڑ دیا تھا، وہ اس وقت اپنے ماں باپ کے گھر میں رہتی تھی، باپ بیمار تھا، اور بہنیں دوسروں کے گھروں میں کام کرکے گزر بسر کر رہی تھیں تو ایسے میں وہ لاچار کیسے جام خاندان کا مقابلہ کر سکتی تھی؟ اور پھر اُن پر اتنا دباو¿ تھا کہ آخر کار ان کے والدین نے بھی کہہ دیا کہ یا تو معاف کردو یا گھر چھوڑ دو۔ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔قارئین! آپ کو یہ بات جان کر شاید حیرت ہوگی کہ اس کیس کی دیت پر اگر بات کی جائے تو اس کی دیت ایک اونٹ کی قیمت کے برابر بتائی جا رہی ہے ۔ اور پھر حد تو یہ ہے کہ کئی لوگ تو یہ قیمت بھی وصول کرنے سے ڈرتے ہیں کہ بعد میں اُنہیں اس سے کئی گنا زیادہ واپس کرنا پڑسکتا ہے۔ بہرحال یہاں ایک بار پھر طاقتور طبقے کی جیت ہوئی اور کمزور طبقے نے پیچھے ہٹنا ہی مناسب جانا۔ راقم نے گزشتہ سال نومبر میں ہی اپنے کالم میں یہ بات کہہ دی تھی کہ ناظم جوکھیو کے قاتلوں کو کبھی سزا نہیں ہوگی۔ لیکن فی الوقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے کیس میں ریاست کہاں کھڑی ہے؟ حالانکہ عام آدمی ریاست کی پراپرٹی ہوتا ہے، اور ریاست اپنی پراپرٹی کی حفاظت دل و جان سے کرتی ہے، وہ اس کا تحفظ اس حد تک کرتی ہے کہ وہ اپنا نفع نقصان بھی بھول جاتی ہے۔ تبھی ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہے۔ اور پاکستان میں بھی یہ قانون پہلے پوری آب و تاب کے ساتھ موجود تھا کہ جو شخص قتل ہوتا ریاست اُس کے پیچھے کھڑی ہوتی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اور پھر ہمارے ملک میں یہ المیہ ہے کہ ہم ہراس قسم کے کام میں ”دیت“کے اسلامی قانون کا سہارا لے کر خود کو بری الذمہ کردیتے ہیں اور سزا سے بچ جاتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے بھی یہ قانون اس لیے نافذ کیا تھا کہ جس خاندان کا فرد قتل ہو، اُس کا کسی نہ کسی طرح فائدہ ہوجائے، مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں، کہ اس قانون کو پاکستان میں کسی نہ کسی انداز میں غلط استعمال کیا جا رہا ہے،اسی قانون کی آڑ میں پولیس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، ریاستی مشینری کا بے دردی سے استعمال کیا جا رہا ہے، عدالتوں کو اپنے استعمال میں لایا جا رہا ہے، ریاستی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ ریاست کے سیکیورٹی ادارے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ اس لیے میرے خیال میں اس قانون پر نظر ثانی کی جانی چاہیے ورنہ اس کا غلط استعمال اس معاشرے کو لے ڈوبے گا۔ کیوں کہ ہمارے ہاں ملزمان اس قدرطاقتور ہو چکے ہیں کہ اُن کے لیے وکلائ، ججز کو خریدنا، ملزمان کو دباﺅ میں لانا اور اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنا معمولی بات بن چکی ہے۔ تو ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ عام آدمی کو انصاف مل سکے؟ اور پھر ہوتا یہ ہے کہ جس بیوہ کا شوہر یا جس باپ کا بیٹا یا جس بیٹے کا باپ قتل ہوا ہوتا ہے وہ خود اس قدر غیر محفوظ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی بچی کھچی فیملی کو بچانے کے لیے تگ و دو شروع کر دیتا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں شاہ زیب قتل کیس میں مدعی پیچھے ہٹ گئے اور مقتول کے باپ نے اپنی بیٹیوں کی حفاظت کے لیے پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ سال جنوری میں اسلام آباد کے ایک نوجوان اسامہ ستی کو چار سرکاری اہلکاروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ کیا نتیجہ نکلا؟ نو ماہ ہو گئے کیا قاتلوں کو سزا ملی؟ اس سفاکانہ قتل کے ایک ماہ بعد وفاقی دارالحکومت ہی میں ایک بڑی گاڑی نے مانسہرہ کے چار نوجوانوں کو کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں گھر سے نکلے تھے۔ اس حوالے سے ایک با اثر خاتون کے بیٹے کا ذکر بھی میڈیا میں ہوتا رہا۔ یوں تو ماڈل ٹاو¿ن کے قتلِ عام کا مقدمہ بھی موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر تھا۔ توقع تھی کہ قاتلوں کو سزا ملے گی‘ مگر کچھ بھی نہ ہوا! بہرکیف شاہ رخ جتوئی ہو یا جام اویس ،ساری شکلیں ایک سی ہیں۔سب ظلم کرنے کے عادی اور احتجاج کرنیوالوں کو دشمنوں کا آلہ کار قرار دیتے ہیں۔لیکن ریاست میں انصاف اُسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب ریاست بلاخوف و خطر کارروائی کرے، گواہوں کو تحفظ فراہم کرے۔ غریب کا ساتھ دے، امیر کو کٹہرے میں کھڑا کرے تب مزہ آئے کہ ہم واقعی ریاست مدینہ میں رہ رہے ہیں۔ قاتلوں کے پاس کروڑوں روپے کے وکلاءہوتے ہیں، غنڈے ہوتے ہیں، سیاسی اثرورسوخ رکھتے ہیں تبھی ہمارے ملک کا بیڑہ غرق ہورہا ہے۔ بیڑہ غرق اس لیے کہ شاید یہ کیس عام پاکستانی کے لیے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر یقین مانیں دکھ اس بات کا ہو رہا ہے کہ پوری دنیا کا میڈیا ایسی خبروں کو اپنی چینلزاخبارات کی زینت بناتا ہے اور دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھو ! پاکستان میں کیا ہورہا ہے، آج بھی گزشتہ دو دن سے یہ خبریں برطانوی، امریکی اور خاص طور پر بھارتی میڈیا میں چلائی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے ادارے طاقتور طبقے کے سامنے کس قدر بے بس ہیں۔ بلکہ وہاں کے مبصرین اپنے تبصروں میں پاکستان کو اس قدر ناکام ریاست دکھارہے ہوتے ہیں کہ جہاں سب لوگوں کو اپنے اپنے مفاد کی پڑی ہے، حکمران اقتدار کے لیے لڑرہے ہیں، بیوروکریسی کرپشن کے لیے لڑ رہی ہے اور اپوزیشن اقتدار چھیننے کی تگ و دو کر رہی ہے ۔ کسی کا کوئی Concernنہیں کہ عام آدمی محفوظ ہے یا غیر محفوظ؟ عام آدمی کو انصاف مل رہا ہے یا نہیں۔ مدعی محفوظ ہے یا غیر محفوظ ۔ مقتول کی فیملی بھی محفوظ ہے یا غیر محفوظ۔ الغرض ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے واقعی پاکستان ایک مکمل غیر محفوظ ریاست بن چکا ہے۔ ابھی چند دن پہلے پاکستان بار کے سابق صدر ااور سینیٹرا عظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں یہ باتیں چیخ چیخ کر کہیں اور بے بسی بتائی کہ کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جانی چاہیے کہ مقتول کے پیچھے ریاست کھڑی ہو۔ لیکن کسی کا دھیان قانون سازی میں نہیں ہے سب کا دھیان وزارتوں کی چھینا جھپٹی میں ہے، ڈالرز اکٹھا کرنے اور منی لانڈرنگ کی طرف ہے، یا عہدے حاصل کرنے میں ہے، اور اب جبکہ تحریک جب سے تحریک عدم اعتماد کی کہانی شروع ہوئی ہے اور اسمبلیوں میں بھی کسی چیز پر کام نہیں کیا جاسکا۔ دوسرے ملکوں میں حکومتیں بدلتی ہیں، حکومتوں کے اندرونی مسائل بھی ہوتے ہیں آپسی جھگڑے بھی ہوتے ہیں، اور چونکہ یہ جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ پولیس بھی اپنا کام چھوڑ دے، ادارے بھی اپنا کام چھوڑ دیں، عدالتیں بھی اپنا کام چھوڑ دیں اور مدعی کانوں کا ہاتھ لگاتا اور اپنے فیصلے اللہ پر چھوڑتا ہوا پیچھے ہٹ جائے۔ قصہ مختصر کہ ناظم جوکھیو قتل کیس ایک عام مثال ہے، ہمارے معاشرے میں سینکڑوں مثالیں اس قسم کے واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہیں کہ ریاست بدنام ہو رہی ہے۔ یہاں نہ تو سانحہ ساہیوال کے ذمہ داروں کو سزا ملی، نہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ذمہ داروں کو ، نہ جتوئیوں کو اور نہ ہی سانحہ بلدیہ ٹاﺅن و سانحہ سندر والوں کو۔ اور اب جبکہ ناظم کا قتل ہوا ہے تو ہر طرف ایک ہی صدا تھی کہ اب ”اس کیس کا بھی کچھ نہیں ہوگا، اور ملزمان بری ہو جائیں گے“۔ ایسا کیوں ہے؟ کیوں ہم عوام کو یقین ہوگیا کہ اس معاشرے میں انصاف نہیں مل سکتا؟ اگر ایسا ہے تو یہ خطرناک بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ خطرناک اس لیے کہ اب معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جبکہ خوش آئند اس لیے کہ شاید اب بادی النظر میں انقلابی تبدیلیاں آنے والی ہیں، یعنی کہیں سے بھی کوئی انقلاب کی کرن پھوٹ سکتی ہے۔ لیکن فی الحال تو بقول شاعر ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے یعنی ناظم جوکھیو کے قتل کی تمام کڑیاں بھلے قاتل کے خلاف گواہی دے رہی ہیں، اس کی بیوہ واقعات کی کڑیاں ملا کر اپنی دنیا لٹ جانے کا حال سنا رہی ہے، اور کہہ رہی ہے کہ دعا کریں کہ اللہ آپ کو ایسے حالات میں نہ رکھے۔یہاں آپ کو تاریخ کا ایک قصہ بتاتا چلوں کہ پتہ چل سکے کہ کس طرح کوئی ریاست چلتی ہے۔ ہندوستان میں راجاایلان چولان ایلارا نے 205 قبل مسیح سے 161 قبل مسیح تک ریاست انورادھاپورہ پر حکمرانی کی۔ ایلارا ایک انصاف پرور راجا تھا۔ اسکے لاڈلے بیٹے ”ویدھی ویدنگن“ کی رتھ کے نیچے آکرگائے کا بچھڑاکچلا گیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایلارا نے بڑا عجیب فیصلہ کیا۔ ایلارا نے اپنے بیٹے کو اُسی رتھ کے نیچے کچلنے کا حکم دیدیا۔ فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا تو بیٹے کی ارتھی کو شعلہ دکھانے سے پہلے ایلارا نے ویدھی کے ماتھے پر بوسہ دیا ”ویدھی! تو مجھے بہت پیارا تھا، لیکن انصاف سے زیادہ ہرگز نہیں تھا“۔ پھر آپ خلفاءراشدین کے انصاف کو دیکھ لیںکہ کس طرح وہ غریبوں کی آواز بنتے تھے اور طاقتور کو انصاف کے کٹہرے میں لاتے تھے۔ ان سب کے مقابلے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے یہ حکمرانوں سمیت فیصلہ کرنے والی قوتوں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے!