13دسمبر جلسہ : اپوزیشن کی خودغرضی!

پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں اقتدار کی رسہ کشی اس قدر ہولناک منظر پیش کرتی ہے کہ یہاں ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح کر دی جاتی ہے، مطلب اگر اپوزیشن سے پوچھا جائے کہ موجودہ جلسوں اور اس سارے شور شرابے کے پیچھے اُن کے مقاصد کیا ہیں؟ تو جواب دیا جاتا ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے، مہنگائی ہو گئی ہے یاکرپشن بڑھ گئی ہے۔ اور پھر اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کو اقتدار ملا تو آپ ان چیزوں کا کیا حل نکالیں گے، تو جواب میں آئیں، بائیں شائیں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور اب جبکہ اپوزیشن لاہور میں 13 دسمبر کو اپنا آخری جلسہ کرنا چاہ رہی ہے تو لگ یہی رہا ہے کہ وہ اس بار اپنا آخری پتا ضرور کھیلیں گے، آخری پتا لانگ مارچ یا دھرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور اجتماعی استعفوں کی صورت میں بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو اس بار اتنی جلدی کیوں ہے؟ وہ کیوں سارے آپشنز استعمال کرکے خود کو خطرے میں ڈالنا چاہ رہی ہے تو قارئین کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ اپوزیشن اپنا لائحہ عمل اگلے سال مارچ تک مکمل کرنا چاہتی ہے، کیوں کہ مارچ 2021ءمیں سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں۔ جس میں تحریک انصاف کو قومی و صوبائی اسمبلیوں میں سیٹوں کی تعداد کے تناسب سے برتری حاصل ہو جائے گی جو قانون سازی کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرے گی۔ اور چونکہ فی الوقت موجودہ سینٹ میں اپوزیشن کو سادہ اکثریت حاصل ہے اس لیے موجودہ اسمبلیوں سے سینٹ انتخابات کرانے کی صورت میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سینٹ میں بالادستی قائم ہو جائے گی۔اور اس موسم میں کورونا کے ہوتے ہوئے اپوزیشن کا جلسہ کرنا ، اپوزیشن کی خود غرضی کے سوا کچھ نہیں ہے، حالانکہ اپوزیشن 2، 4مہینے صبر بھی کر سکتی تھی، مگر انہوں نے محض سینیٹ الیکشن رکوانے کے لیے یہ کام کیا، اپنے پارٹی کارکنوں کو موت کے منہ میں دھکیلا ہے۔ لہٰذا فی الوقت 12 مارچ 2021 سے قبل جو 53 سینیٹرز اپنی چھ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو رہے ہیں ان میں زیادہ کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے ان میں مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ 17 ، پیپلز پار ٹی کے 8، جے یو آئی کے 2، اے این پی، جماعت اسلامی، پختونخوا ہ ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک ، آزاد5، نیشنل پارٹی اور بی اے پی مینگل کے دو دو سینیٹرز کے علاوہ پی ٹی آئی کے 8 اور ایم کیو ایم کے 4 اور دیگر جماعتوں کے 3 سینیٹرز شامل ہیں۔لہٰذاپی ڈی ایم کا سب سے پہلا اور اولین مقصد فی الوقت یہی نظر آرہا ہے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو کر سینیٹ انتخابات کو ملتوی کروا دے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ استعفے دینے کے آپشنز زیادہ واضع بھی نظر نہیں آرہے ، کیوں کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں موجود 11سیاسی جماعتوں کے مفادات ایک دوسرے سے بالکل اُلٹ لگ رہے ہیں، اور پیپلزپارٹی تو کبھی بھی استعفوں کے آپشن پر غور نہیں کرے گی کیوں کہ وہ کبھی بھی سندھ حکومت کو نہیں چھوڑے گی، یہ اپوزیشن کی بدقسمتی سمجھ لیں یا حکومت کی خوش بختی کہPDM اس معاملے میں یکسو نہ یکدل و یک زباں اور نہ جرا¿ت مندانہ فیصلوں کی اہل ہے۔اور ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں آج تک کبھی اپوزیشن نے اجتماعی استعفے پیش نہیں کیے، البتہ 20سے زائد مرتبہ اس حوالے سے تحریکیں ضرور چلیں۔ جیسے 1977ءمیں صرف ایک بار اپوزیشن واقعتاً متحد ہوئی تھی، جب ذوالفقار علی بھٹو پر انتخابی دھاندلی کے ریکارڈ قائم کرنے کا الزام لگا تھا، اُس وقت پاکستان قومی اتحاد کے نومنتخب ارکان نے حلف اٹھانے اور جھرلو سے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا حصہ بننے سے انکار کر دیاتھا۔عوام کو اپوزیشن کی یہ ادا پسند آئی تھی۔جب احتجاجی تحریک کا اعلان ہوا تو مشتعل عوام نے درمے، سخنے قدمے اپوزیشن کا بھر پور ساتھ دیا،ہوا کے گھوڑے پر سوار قائد عوام نے مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپوزیشن کی منت سماجت شروع کر دی۔ لیکن تیسری قوت نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سب کچھ ملیا میٹ کر دیا تھا۔ پھر 2007ءمیں جنرل پرویز مشرف متحدہ مجلس عمل سے کیے گئے معاہدے کے بالکل برعکس 2002ءمیں وجود میں آنے والی اسمبلیوں سے دوسری بار باوردی صدر منتخب ہونا چاہتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کی جگہ وجود میں آنے والے اتحاد نے یہ کوشش ناکام بنانے کے لئے اجتماعی استعفوں کی دھمکی دی، جمہوریت پسند حلقوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ جونہی اجتماعی استعفے آئے پرویز مشرف کا راج سنگھاسن ڈولنے لگے گا مگر ساری خوش گمانیوں کی لٹیا محترمہ بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے ڈبو دی۔ قاضی حسین احمد، میاں نواز شریف اور دیگر منہ دیکھتے رہ گئے۔ استدلال ان دونوں کا یہ تھا کہ وہ فوجی آمر کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کے تدریجی عمل کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہیے، محترمہ کو صلے میں این آر او ملا وہ خود اور ان کے شوہر اربوں روپے کرپشن کے ثابت شدہ مقدمات سے بری ہو گئے۔ ”اُصولی موقف“ کے صلے میں مولانا کی وصولی کا ریکارڈ اب تک سامنے نہیں آیا۔خیر یہ تو تھی پاکستان کے ماضی کی باتیں مگر دنیا بھر کی تاریخ کھنگال لیں، ماسوائے سوڈان کی اسمبلی میں اپوزیشن کے استعفوں نے وہاں کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا اس کے علاوہ کہیں ایسا نہیں دیکھنے میں آیا، کیوں کہ مہذب ممالک کے اپوزیشن رہنما اسمبلیوں میں رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیتے اور مدت پوری کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، کیوں کہ وہاں کے عوام حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ بہرکیف موجودہ حالات میں یہ بات لکھ لیں کہ اپوزیشن استعفوں کے اعلانات سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکے گی کیوں کہ اس کے لیے انہیں جرا¿ت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جو فی الوقت نظر نہیں آرہا۔ اور دیوار سے لگے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی تو اپنی نااہلی کا بدلہ چکانے کے لئے غالباً استعفوں سمیت ہر کارڈ کھیلنے کے لئے تیار ہیں مگر پیپلز پارٹی اور اے این پی ان سے متفق ہے نہ مولانا کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا آسان کہ وہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالیں گے۔اور مولانا کی توویسے بھی قومی اسمبلی میں ایک سیٹ سے زیادہ حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر جلسوں جلوسوں میں عوام آ بھی جاتے ہیں تو یہ عام عوام نہیں بلکہ ان جماعتوں کے کارکنان ہیں۔ اور ملتان جلسے میں تو ویسے بھی 10ہزار کے اکٹھ میں سے 4ہزار پیپلزپارٹی کے کارکن تھے، جو سندھ سے یوم تاسیس منانے خاص طور پر ملتان آئے تھے، اسی طرح لاہور میں بھی یہی حال ہو گا، ہر قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو پابند کیا جائے گا کہ وہ 2, 4بسوں کا قافلہ لے کر لاہور پہنچے تو ایسے میں نہ تو آج تک حکومت گری ہے اور نہ ہی کسی حکومت پر کوئی اثر پڑا ہے۔ اور ابھی تو یہ بھی علم نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کے سارے ارکان اسمبلی استعفوں پر راضی ہیں یا نہیں؟ لہٰذاموجودہ احتجاج اور دھرنوں، استعفوں سے عمران خان کا تو شائد کچھ نہ بگڑے، میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن بھی اپنی جگہ مطمئن کہ انہیں تین چار ماہ تک دل کا غبار نکالنے کا بھر پور موقع ملا،دونوں کو قائد جمہوریت، محافظ جمہوریت، سقراط، حسین حلاج اور چی گویرا نہ جانے کیا کچھ سمجھا اور کہا گیا، مگر ان خوش فہموں کو ضرورت سے زیادہ مایوسی ہو گی جو پی ڈی ایم کی تحریک سے پاکستان میں مثالی جمہوریت کی بحالی ،اسٹیبلشمنٹ کی شکست، شریف خاندان کی باردگر حکمرانی اور معلوم نہیں مزید کیسی کیسی توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ اور رہی بات لاہور جلسے کی تو حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے تاریخ ساز جلسوں سے مسلسل خطاب محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986میں طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹ کر فرماتی رہی ہیں۔جونیجو حکومت اس کے باوجود مئی 1988تک قائم رہی۔ دو برس گزرجانے کے بعد وہ بلکہ اتنی توانا ہوگئی کہ اس کے حقیقی ”خالق“ جنرل ضیاءکو بالآخر آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسے گھر بھیجنا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم ہوتے ہی نواز شریف صاحب نے بھی پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کے طویل راﺅنڈ کے ذریعے اس کے خلاف دباﺅ بڑھانے کی کوشش کی تھی۔جلسوں کے بعد ”تحریک نجات“کے نام پر ”ٹرین مارچ“ بھی ہوا۔ یہ حکومت مگر اپنی جگہ قائم رہی۔ بالآخر محلاتی سازشوں سے رجوع کرتے ہوئے ان دنوں کے صدر فاروق لغاری سے روابط استوار ہوئے۔ آئین کی آٹھویں ترمیم ایک بار پھر بروئے کار آئی۔ ”فاروق بھائی“ نے سنگین الزامات لگاتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزارتِ عظمیٰ سے اسمبلیوں سمیت فارغ کردیا۔ 2020میں ایوانِ صدر میں براجمان عارف علوی کو آٹھویں ترمیم والے اختیارات میسر نہیں ہیں۔ عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کا واحد راستہ قومی اسمبلی میں ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے ذریعے ہی بنایا جاسکتا ہے۔فی الوقت مگر اس کی گنجائش نظر نہیں آرہی۔ تحریک عدم اعتماد والا ہتھیار اگرچہ محترمہ بے نظیربھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف بھی موثر انداز میں استعمال میں نہیں ہوپایا تھا۔ حالانکہ اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اس حکومت سے نجات کے برملا خواہش مند تھے۔ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف بھی دل وجان سے ان کی معاونت کو آمادہ تھے۔لیکن محترمہ کامیاب رہیں تھیں۔ اس لیے آج کی اپوزیشن کی یہی آزمائش ہے کہ وہ استعفوں یا عدم اعتماد کی سیاست میں خود کتنی مضبوط اور متحد ہے۔ اگر اسے اپنی مضبوط صف بندی کا یقین ہو جائے تو استعفوں کا آپشن ویسے ہی بیکار ہو جائیگا اور پھر انتقامی سیاست کو بھی بیک گیئر لگ جائیگا ورنہ جس طرح میں نے پہلے ذکر کیا کہ استعفوں کی سیاست میں پیپلزپارٹی بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریگی جس کے پاس سندھ کا اقتدار ہے اور اس اقتدار کے بل بوتے پر ہی وہ آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس جانے کی پوزیشن میں ہوگی جس کے پاس عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا یہ جواز موجود ہوگا کہ وفاقی حکومت نے ہمیں کام کرنے ہی نہیں دیا۔