الزام تراشی کے بجائے کام کیا جائے!

بالآخر عوام کی ”سونامی“ کے ساتھ اقتدار میں آئے وزیراعظم عمران خان ساڑھے تین سال کی ہنگامہ خیز حکومت کے بعد ”مسائل “ کی سونامی میں بہہ گئے۔ اُنہیں اس سونامی سے بچاﺅ کی تراکیب سوچنی چاہیے تھیں، اُنہیں پیشگی اقدامات کرنے چاہیے تھے، اُنہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ہر سیلاب، ہر طوفان اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا۔ مگر طوفان نے اُنہیں ایسا گھیرا کہ وہ بچ نہ سکے اوراس لیے انہوں نے اپنے دامن کو لہروں کے سپرد کردیا۔ افسوس تو اس بات کا ہوا کہ ”جمہوری ادارہ“ ایک بار پھر ناکام ہوا اور ایسا ناکام ہوا کہ اب اگلے کئی سال تک دوبارہ اس پر کمزور ہونے کی چھاپ برقرار رہے گی۔ مثلاََ اس جمہوری ادارے میں جہاں بھات بھات کی بولیاں بولنے والی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اقتدار میں آنے کے بعد کبھی عدالتوں کے ذریعے گھروں کو جاتی رہیں،تو کبھی فیصلہ کرنے والی قوتوں کے ذریعے تو کبھی عالمی سازشوں کے ذریعے انہیں اقتدار چھوڑکر جانا پڑتا رہا۔ جیسے 75سالوں میں 29وزیر اعظم آئے لیکن ایک بھی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اسے سیاسی اداروں کے کمزور ہونے کا عندیہ کہیں یا سیاسی جماعتوں کی کمزوریاں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ تاریخ میں سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش اور بیرونی عناصر کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے یہ ادارہ آج بھی بری طرح پٹ رہا ہے۔ورنہ دنیا بھر میں سیاسی ادارے اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ آنکھیں بند کرکے پورے کا پورا ملک اُن کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے تو دس ادارے اور دس بڑے ممالک اُس پر نظر رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں یہ اُن کے مفادات کے خلاف کام تو نہیں کر رہا۔ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں عمران خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ کام کرنا چاہتے تھے مگر اُنہیں حد درجہ تک اس قدر تنگ کیا گیا یا کروایا گیا کہ اُنہیں منصب اعلیٰ سے الگ کرکے ہی دم لیا گیا۔ خیر تحریک انصاف کی حکومت کیوں ختم ہوئی اس پر تو آئندہ بھی بحث ہوتی رہے گی مگر تادم تحریر نئی مخلوط حکومت بننے کے لیے ایک طرف شہباز شریف تیار بیٹھے ہیں جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی بھی مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ اُمید تو یہی ہے کہ شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لہٰذانئی حکومت کے بننے کے بعد اصل کام شروع ہوگا۔ اس مبینہ نئی حکومت میں یقینی طور پر 12وزارتیں ن لیگ کے حصہ میں آئیں گی، جبکہ 7وزارتیں پیپلزپارٹی کے حصہ میں آئیں گی۔ اور بقیہ چند ایک وزارتیں دیگر اتحادیوں کے حصہ میں آئیں گی۔ لیکن یہاں یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ حکومت کے اگلے 18ماہ اتنے آسان نہیں ہوںگے۔ کیوں کہ معیشت ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ پھر آگے فوری طور پر بجٹ آنے والا ہے، شہباز شریف ایک تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں، تین تین دفعہ حکومتیں کر چکے ہیں، اور جن جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی ہے، اُنہوں نے 35سال اس ملک پر حکومت کی ہے۔ پھر آپ کے پاس ایک تجربہ کار ٹیم ہے، شہباز شریف تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، آپ کے بڑے بھائی تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ اور بارہا یہ سب لوگ کہتے پائے گئے ہیں کہ تحریک انصاف نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، اور اسی راگ کو الاپنے کے بعد انہیں اب حکومت بھی مل چکی ہے۔حالانکہ دیکھا جائے تو اُس نے محض ساڑھے تین سال حکومت کی ہے، اور یہ لوگ 35سال سے اقتدار میں تھے، لہٰذاان حکمرانوں کے ترجمانوں نے کہا کہ سارا کیا دھرا سابقہ حکومت کا ہے تو ان سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوگا۔ اور پھر اگر ان کے اتحادیوں کی بات کی جائے تو سب سے پہلے پیپلزپارٹی آتی ہے جوتین بار حکومت میں رہ چکی ہے۔ اُنہیں تو حکومت چلانے کا 1971ءسے تجربہ ہے۔ اُن کے پاس بھی ہر قسم کی ٹیم موجود ہے۔ اُن کے پاس تو گیلانی و پرویز اشرف کی صورت میں دو سابقہ وزرائے اعظم بھی موجود ہیں، پھر سندھ میں اُن کے پاس 15سال سے حکومت ہے۔ اس لیے اُنہیں اب کسی صورت یہ نہیں کہنا چاہیے کہ پچھلی حکومت نے یہ کیا وہ کیا ۔ پھر ان کے پاس مولانا فضل الرحمن کی شکل میں جمعیت علمائے اسلام ف موجود ہے، جو ہر ماسوائے تحریک انصاف کی حکومت کے ہر حکومت کے ساتھ رہی ہے۔ جبکہ خود مولانا فضل الرحمن ایک دہائی تک کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہے ہیں۔ اب اُنہیں چاہیے کہ وہ دوبارہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنیں، مراعات انجوائے کریں اور کشمیر کو ہر محاذ پر موضوع بحث بنائیں تاکہ اُن کے ساتھ بھی انصاف ہو سکے۔ پھر ایم کیو ایم کے پاس بھی اچھا خاصا تجربہ ہے، انہیں استعمال کرکے کراچی کے حالات بہتر کیے جائیں۔ یعنی اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ نئی بننے والی حکومت ہر چیز کا ملبہ عمران خان پر ڈال کر معیشت کی مزید تباہی کا باعث بنے۔ جبکہ اس کے برعکس عمران خان کو تو پہلی بار حکومت ملی تھی، وہ تو خود کہتے تھے کہ مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی۔ اس لیے اُنہیں چھوڑ کر ہمیں آگے کی جانب دیکھنا ہوگا اور مسائل کے حل کی بات کرنا ہوگی۔ لہٰذانئی نویلی حکومت کے بارے میں اگر بات کی جائے تو اسے سب سے بڑا چیلنج معاشی بدحالی کا ہوگا۔ اس وقت معاشی سطح پر مہنگائی عروج پر ہے۔ ڈالر آسمان کی بلندی پر اور قرضوں کا بوجھ عوام پر۔ ملک پر سوا سو ارب ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ پہلے ہی چڑھا ہوا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے یہ قرضہ مزید بڑھے گا جبکہ سرمایہ کار حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ شرح سود بڑھانے سے معیشت کا مزید جنازہ نکلے گا۔افسوسناک خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے تجارت کے فروغ کے ادارے UNCTD نے پاکستان کو دنیا کے ان 5 ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جن پر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا ناقابل برداشت دباﺅ ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ سری لنکا، مصر، انگولا اور کولمبیا شامل ہیں۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 2.9ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور 25مارچ 2022ءکو اسٹیٹ بینک کے ذخائر 14.9 ارب ڈالر سے گرکر 12ارب ڈالر کی نچلی سطح تک پہنچ گئے جبکہ اس دوران کمرشل بینکوںکے ڈپازٹس 6.5ارب ڈالر رہے ، اس طرح پاکستان کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر5.19فیصد کمی کے ساتھ 18.5رب ڈالر رہ گئے جو فروری 2022ءمیں 22.6ارب ڈالر تھے۔قرضوں کی حالیہ ادائیگیوں میں 2.5ارب ڈالر چین کا قرضہ شامل ہے جس کو سابق وزیراعظم نے اپنے حالیہ دورہ چین میں رول بیک کرنے کی درخواست کی تھی اور امید کی جارہی ہے کہ چین اس قرضے کو مزید ایک سال کیلئے رول بیک کردے گا۔ چین پہلے بھی 2 ارب ڈالر کا قرضہ رول بیک کرچکا ہے ،اس طرح چین کے مجموعی 4.5ارب ڈالر کے قرضے مزید ایک سال کیلئے رول بیک ہوجائیں گے۔ یاد رہے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جاتے وقت چین نے پاکستان کو 4 ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ 31 دسمبر 2021ءتک کیلئے دیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان نے نان پیرس کلب ممالک سے 16ارب ڈالر کے قرضے لئے ہیں جن میں چین سے گزشتہ 3سال میں لئے گئے 14.8ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جبکہ پاکستان نے مختلف انٹرنیشنل کنسوریشمز اور بینکوں سے 10.8ارب ڈالر کے قرضے بھی لئے جس میں چین کے 2.5ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں جس سے پاکستان کے مجموعی قرضے 127ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں پھر دوسری طرف سفارتی محاذ پر پاکستان تنہائی کا شکار ہے۔ چین سی پیک کی رفتار سست ہونے سے پریشان ہے۔ امریکہ، چین اور روس سے بڑھتی ہوئی قربت پر خفا ہے جب کہ یورپی یونین کی بھی کم و بیش پاکستان کے بارے میں وہی رائے ہے، جو امریکہ کی ہے۔اس کے علاوہ سب سے بڑا چیلنج میری نظر میں عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ۔۔۔عوام کا روٹی، کپڑا اور مکان تب بھی مسئلہ تھا اور اب بھی ہیں۔ خدارا کوئی ان کے بارے میں سوچے، ورنہ اس نظام سے ان کا رہا سہا اعتبار بھی اٹھ گیا تو پھر کوئی بھی نظام اس ملک کو نہیں چلا پائے گا!