تحریک انصاف : استعفے غیر جمہوری روش !

جب سے حکومت تبدیل ہوئی ہے اور وزارت عظمیٰ کا قلمدان شہباز شریف کے ہاتھ میں آیا ہے، تحریک انصاف استعفوں کی سیاست کا آغاز کرنا چاہ رہی ہے، اس حوالے سے قائد تحریک انصاف عمران خان اعلان بھی کر چکے ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا تحریک انصاف کی قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی حکمت عملی سیاسی طور پر اس جماعت کے لیے فائدہ مند ہو گی یا نقصان دہ؟ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے 2014 میں بھی تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے دیے تھے۔ اس وقت کے سپیکر ایاز صادق نے ان استعفوں کو منظور نہیں کیا تھا اور مستعفی ہونے والے اراکین اسمبلی کو تاکید کی تھی کہ وہ ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے اپنے استعفے کی تصدیق کریں۔سپیکر کی جانب سے بتائے گئے طریقہ کار پر عمل نہیں ہوا اور آخرکار مستعفی ہونے کے اعلان کے باوجود تحریک انصاف پارلیمان کا حصہ رہی اور 2018 کے عام انتخابات تک اپوزیشن کا کردار ادا کرتی رہی۔سوال یہ ہے کہ درجنوں اراکین کے مستعفی ہونے کے بعد قومی اسمبلی کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اور آیا الیکشن کمیشن اتنے بڑے پیمانے پر ضمنی الیکشن کروا بھی پائے گا یا نہیں۔ خیر راقم کے پاس جو اطلاعات موجود ہیں، اُن کے مطابق تو تحریک انصاف کی اکثریت چاہتی ہے کہ سسٹم میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا جائے۔ قومی اسمبلی میں بھی رہیں اور ساتھ ساتھ جلسے ہوں، عوامی اجتماعات ہوں۔اور یہ بات بھی درست ہے، اس پر بحث تو بعد میں کریں گے مگر اس وقت اسمبلی سے استعفوں کی قانونی حیثیت پر غور کریں تو اس وقت تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 155ہے، جن میں جنرل نشستوں پر کامیاب ہو کر آنے والوں کی تعداد 122 ہے۔اسی حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کے 135اراکین کے استعفے جمع ہو چکے ہیں۔ اگر ان کے بقول یہ سب لوگ استعفے دے دیتے ہیں تو قومی اسمبلی سے ایک بڑی تعداد میں نشستیں خالی ہو جائیں تو قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو ان تمام نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانا ہوں گے۔اور پھر اگر پی ٹی آئی کے اراکین مستعفی ہوتے ہیں اور ان کے استعفے منظور کر لیے جاتے ہیں تو الیکشن کمیشن 60 روز کے اندر خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروائے گا۔چلیں یہ مان لیا کہ تحریک انصاف کے تمام 155اراکین مستعفی ہو جاتے ہیں تو تو اسمبلی کی قانونی حیثیت کیا رہ جائے گی؟تو ماہرین کی رائے میں اسمبلی بالکل قانونی طور پر کام کرتی رہے گی۔ اس کی حیثیت بالکل قانونی ہو گی۔پی ٹی آئی کے اراکین اگر مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد سے لے کر ضمنی انتخابات ہونے تک قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف نہیں ہو گی اور ایسا پاکستان میں پہلی مرتبہ نہیں ہو گا۔اس سے قبل بلوچستان کی ایک اسمبلی ایسی بھی رہی ہے جس میں ایک کو چھوڑ کر تمام اراکین کابینہ کے ممبر تھے۔ اور وہ اسمبلی چلتی رہی تھی۔ اس میں نہ تو کوئی پبلک اکاو¿نٹس کمیٹی تھی اور نہ ہی دیگر کوئی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔پاکستان تحریکِ انصاف کے استعفے دینے اور ضمنی الیکشن کا حصہ نہ بننے کے بعد ایک ایسی ممکنہ صورتحال جنم لے سکتی ہے جس میں موجودہ حکمراں جماعتوں کے پاس یہ موقع ہو گا کہ وہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دو تہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں واپس آ جائیں۔ایسی صورت میں ان کے پاس مکمل اختیار ہو گا کہ وہ کوئی بھی قانون سازی کرنا چاہیں تو انھیں روک ٹوک یا مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا۔ لہٰذامیرے خیال میں استعفے دینا کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر مقابلہ کرناچاہیے۔ چلیں مان لیا کہ پاکستان میں ہر چیز جانبدار ہے، لیکن اتنے برے حالات بھی نہیں ہیں کہ خان صاحب کو دوبارہ اقتدار نہ مل سکے۔ اگر بے نظیر بھٹو جنرل ضیاءالحق کی زبردست آمریت کے بعد بھی اقتدار میں آسکتی ہیں، تو عمران خان کیوں نہیں؟ اگر شہباز شریف گھمبیر حالات کے بعد اور درجنوں رہنماﺅں کی گرفتاری و رہائی کے بعد اقتدار میں آسکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں؟ ٹھیک ہے بادی النظر میں فیصلہ کرنے والی قوتوں پر بے شمار شبہات ہیں، لیکن حکومتیں بدل جاتی ہیں ۔ اورپھر جس طرح عوام باہر آرہی ہے، اسی طرح اگر آپ عوام کو باہر لانے میں کامیاب ہوگئے تو اگلی جنگ آپ کی ہے۔ کیوں کہ ہر امریکی سازش اور فیصلہ کرنے والوں کی جو قوت ہے وہ ایک حد تک عوام کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے وہ عوام کی طاقت کے ذریعے آئے۔ دنیا میں جتنی بھی مزاحمتی تحریکوں کا مقابلہ کیا وہ عوام ہی نے کیا تھا۔ طیب اردگان کی حکومت کے خلاف جو بغاوت ہوئی، اُسے عوام نے ناکام بنا تھا۔ خیر اگر ہم پاکستانی تاریخ کی بات کریں تو وطن عزیز کی تاریخ میں 20مرتبہ استعفوں کی سیاست کی گئی۔ لیکن آج تک کبھی اپوزیشن نے اجتماعی استعفے پیش نہیں کیے، جیسے 1977ءمیں صرف ایک بار اپوزیشن واقعتاً متحد ہوئی تھی، جب ذوالفقار علی بھٹو پر انتخابی دھاندلی کے ریکارڈ قائم کرنے کا الزام لگا تھا، اُس وقت پاکستان قومی اتحاد کے نومنتخب ارکان نے حلف اٹھانے اور جھرلو سے وجود میں آنے والی پارلیمنٹ کا حصہ بننے سے انکار کر دیاتھا۔پھر 2007ءمیں جنرل پرویز مشرف متحدہ مجلس عمل سے کیے گئے معاہدے کے بالکل برعکس 2002ءمیں وجود میں آنے والی اسمبلیوں سے دوسری بار باوردی صدر منتخب ہونا چاہتے تھے۔ متحدہ مجلس عمل اور اے آر ڈی کی جگہ وجود میں آنے والے اتحاد نے یہ کوشش ناکام بنانے کے لئے اجتماعی استعفوں کی دھمکی دی، جمہوریت پسند حلقوں نے خوشی سے بغلیں بجائیں کہ جونہی اجتماعی استعفے آئے پرویز مشرف کا راج سنگھاسن ڈولنے لگے گا مگر ساری خوش گمانیوں کی لٹیا محترمہ بے نظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے ڈبو دی۔ قاضی حسین احمد، میاں نواز شریف اور دیگر منہ دیکھتے رہ گئے۔ استدلال ان دونوں کا یہ تھا کہ وہ فوجی آمر کی طرف سے جمہوریت کی بحالی کے تدریجی عمل کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہیے، محترمہ کو صلے میں این آر او ملا وہ خود اور ان کے شوہر اربوں روپے کرپشن کے ثابت شدہ مقدمات سے بری ہو گئے۔ ”اُصولی موقف“ کے صلے میں مولانا کی وصولی کا ریکارڈ اب تک سامنے نہیں آیا۔خیر یہ تو تھی پاکستان کے ماضی کی باتیں مگر دنیا بھر کی تاریخ کھنگال لیں، ماسوائے سوڈان کی اسمبلی میں اپوزیشن کے استعفوں نے وہاں کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا اس کے علاوہ کہیں ایسا نہیں دیکھنے میں آیا، کیوں کہ مہذب ممالک کے اپوزیشن رہنما اسمبلیوں میں رہ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیتے اور مدت پوری کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، کیوں کہ وہاں کے عوام حکومتی مدت پوری ہونے کے بعد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ لہٰذاگھبرانے کی ضرورت نہیں! بلکہ اس وقت مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اور پھر عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان پر مقدمے بھی قائم ہوں، کیوں کہ مقدمے بنانے میں ہمارے ملک کو خاصی شہرت حاصل ہے، لیکن مقدموں، مشکل حالاتوں کا مقابلہ کرکے ہی انسان بہترین لیڈر بنتا ہے، ویسے تو محترمہ بے نظیر بھٹو پر بے شمار مقدمے تھے، اور اُن میں سے زیادہ کی تعداد جھوٹے مقدمات کی تھیں۔پھر نیلسن منڈیلا جن کا خان صاحب خود بھی بار بار ذکر کرتے ہیں پر سینکڑوں جھوٹے مقدمات بنائے گئے، اور تین دہائیاں جیل میں رکھا گیا، اُن کی زندگی پر آپ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے کبھی میدان نہیں چھوڑا ۔ انہوں نے جنوبی افریقا میں 1918ءمیں تھیمبو قبیلے میں آنکھ کھولی۔ وہ پسماندہ علاقے سے ہونے کے باوجود اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ وہ سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ اور1956ءمیں منڈیلا اور ان کے ساتھی کارکنوں پر غداری کا مقدمہ چلا، لیکن 4 سال بعد الزامات خارج کر دیے گئے۔ تاہم ملک میں سیاہ فام اکثریت کے لیے رہائش اور روزگار سے متعلق ایک نیا بدنیتی پر مبنی قانون بنایا گیا جس نے نیلسن منڈیلا کو ایک بار پھر میدان میں نکلنے پر مجبور کردیا۔ اے این سی کو 1960ءمیں کالعدم قرار دے دیا گیا اور منڈیلا روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ اسی برس ملک کی نسل پرست حکومت کے خلاف سیاہ فام اکثریت اس وقت سخت مشتعل ہوگئی جب پولیس نے 69 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ تمام سیاہ فام تھے۔اس بدترین واقعے نے نیلسن منڈیلا کی پرامن مزاحمت کو بھی جارحیت اور بغاوت کی طرف دھکیل دیا اور اے این سی کے نائب صدر کی حیثیت سے انھوں نے ملکی معیشت کے نظام کو بکھیر کر رکھ دینے کی مہم چلا دی۔ اس پر منڈیلا کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور انھیں پرتشدد اور حکومت کا باغی قرار دیا گیا۔نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقا میں نسل پرست سفید فام حکم رانوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنی جوانی کے 27 سال جیل میں گزارے۔ وہ فروری 1990ءمیں رہا ہوئے، 1993ءمیں منڈیلا کو امن کا نوبل انعام دیا گیا اور اگلے ہی سال بھاری اکثریت سے وہ ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔ لہٰذالیڈر بننے کے لیے آپ کو اگر جیل بھی جانا پڑتا ہے تو عوام کی خاطر اس مصیبت کو بھی گلے لگانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے، میدان کو خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ استعفے دینے سے خان صاحب کا خود کا امیج خراب ہوگا، جیسے پہلے ہی اُنہوں نے چند ایک غیر جمہوری اقدامات کرکے اپنی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ یعنی جس دن آپ کے پاس اکثریت نہیں تھی، آپ کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ اس سے آپ کا سیاسی قد بڑھ جانا تھا، اس لیے حوصلے کے ساتھ ان ساری چیزوں کو فیس کریں۔ بہرکیف پاکستان کی سیاست میں استعفوں کے کبھی اچھے نتائج نہی نکلے، تم روٹھے ، ہم چھوٹے کے مصداق، استعفوں کے بعد برسراقتدار پارٹی مزید مضبوط ہوجائےگی، ملک میں طالع ازماوں کے لئے نئے مواقع پیدا ہونگے، لوٹا کریسی کو فروغ ملے گا، نظریاتی محاذ پر اسلام پسندوں کا توازن کا مزید خراب ہوجائےگا، ضمیر کی خرید و فروخت کی وجہ سے ، ملک کے غریب اور مشکلات میں پھنسی عوام کا مزید بھیانک نقصان ہوگا۔اس لیے گھبرائیں نہیں اور ان کرپٹ حکمرانوں کا مقابلہ کریں اسی میں سب کی بقاہے!