پریانتھا کمارا کیس فیصلہ: اندھیرے میں اُمید کی کرن!

پاکستان میں عدلیہ کے حوالے سے کسی بڑے کیس کا فیصلہ شفافیت کے عمل سے گزر کر ہو جانا کسی انہونی سے کم نہیں ہوتا ۔ بلکہ زیادہ تر تو یہی ہوتا ہے کہ لوگ اُمید ہی ختم کر دیتے ہیں کہ فلاں کیس کا فیصلہ میرٹ پر آسکتا ہے! یہ اس لیے بھی ہے کہ پاکستان میں کمزور طبقے کے لیے عدلیہ کا انصاف فراہم کرنا ایک خواب سا لگتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس پر تو بعد میں بات کی جائے گی مگر سب سے پہلے خوش آئند بات یہ ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے گزشتہ روز ایک فیصلہ آیا ہے جسے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے حوالے سے ہے جو پاکستان میں ایک کمپنی میں منیجر کے طور پر کام کر رہا تھا کوبے دردی سے قتل، اُس کی لاش کر برہنہ کرکے گھسیٹا اور جلادیا گیا تھا۔ اس جرم میں 6افراد کو سزائے موت، 9 کو عمر قید اور 72 افراد کو دو دو سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔اس کیس میں 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا تھا جن میں سے 88 کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ ایک شخص کو پانچ سال قید جبکہ ایک ملزم کو بری کر دیا گیا ہے۔ مقدمے کی سماعت ایک ماہ چار روز تک جاری رہی۔ مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر کیس ٹرائل گوجرانوالہ میں خصوصی عدالت میں کرنے کی بجائے تمام ملزمان کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا تھا۔اس مقدمے میں ملزمان کی گرفتاری اور چالان کی تیاری کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے گئے اور لگ بھگ دو سو افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں سے 89 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا جبکہ باقی افراد کو چھوڑ دیا گیا تھا۔اس واقعے کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی تھی اور پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لے کر ملزمان کو سخت سے سخت سزا دلوانے کا اعلان کیا تھا۔ ایسے فیصلے یقینا اندھیرے میں روشنی کی کرن ہیں، کیوں کہ اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی تھی، اور ہم پر شدت پسند ہونے کے حوالے سے ایک بار پھر مہر ثبت ہوئی تھی۔ اس فیصلے کو عمران خان حکومت نے صحیح ہینڈل کیا تھا، اور سماعت کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کرکے دانشمندی کا فیصلہ کیا تھا۔ کیوں کہ اس بڑے کیس میں بڑی سفارشیں، عوامی دباﺅ اور سیاسی اثر ورسوخ کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ جس میں کیسز پر بعدا زاں شبہات غالب آجاتے ہیں اور فیصلے غلط ہو جاتے ہیں۔ جیسے حال ہی میں ناظم جوکھیو قتل کیس کی مثال لے لیں جس میں رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم ، رکن صوبائی اسمبلی جام اویس نامزد ہوئے تھے۔ اس کیس میں ایک طرف طاقتور طبقہ تھا جبکہ دوسری جانب عام سادہ لوح طبقہ اور کمزور ریاست تھی۔ کیس چلتا رہا اور اب پچھلے ہفتے پولیس نے ہی مرکزی ملزمان ہی کا نام تفتیش سے باہر نکالنے کی عدالت میں استدعا کر دی۔ جبکہ اس سے پہلے مقتول ناظم جو کھیو کی اہلیہ بھی یہ کہہ کر اس کیس سے دستبردار ہو گئی تھیں کہ وہ کمزور ہیں اور طاقتور طبقے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے وہ اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتی ہیں۔ خیر اس قسم کے فیصلوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے، ماڈل ٹاﺅن کیس دیکھ لیں، سانحہ ساہیوال دیکھ لیں، سانحہ بلدیہ ٹاﺅن دیکھ لیں اور اس جیسے سینکڑوں کیسز دیکھ لیں تبھی تو انصاف کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہمارا نمبر آخری نمبروں پر آتا ہے۔ یعنی ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کی قانون کی بالادستی کی فہرست میں پاکستان 2019 میں 126 ممالک میں 117 ویں نمبر پر تھا۔ 2020 میں 128 ممالک کی فہرست میں 120 ویں نمبر پر جب کہ تازہ رپورٹ میں پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر رہا ہے۔عدلیہ کی اس تنزلی میں میرے خیال میں سب سے بڑا ہاتھ خود عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار کا ہے۔ معذرت کے ساتھ جب ججز کو کسی بھی عدالت میں براہ راست بھرتی کیا جائے گا تو دیگر سینئر ججز کی حق تلفی ہوتی۔ جس سے معیار کم ہوگا اور فیصلے میں سیاسی اثرو رسوخ بڑھنے کی بھی بازگشت سنائی دے گی۔ لہٰذاججز کی سلیکشن میں بہتری کی گنجائش ہونی چاہیے، اس کا بھی سی ایس ایس طرز کا امتحان ہونا چاہیے، جو سول جج بھرتی ہوںاور گریڈ 17کے سکیل میں ہوں،پھر وہی جج سپریم کورٹ تک سینیارٹی کی بنیاد پر جائے۔ اگر عدالت عالیہ میں ایک جج کی سیٹ خالی ہو اور اُمیدوار ججز کی تعداد زیادہ ہوتو ان ججز کے درمیان مقابلے کا امتحان کروایا جائے اور جو بہترین ہو اُسے قابلیت کی بنیاد پر تعینات کیا جائے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار پاکستان میں دوسرے محکموں میں عام ہے،یعنی پاک فوج میں ایسا ہوتا ہے، پھر محکمہ پولیس میں ایسا ہوتا ہے، کبھی کسی نے نہیں دیکھا کہ آرمی چیف کو براہ راست لگا دیا گیا ہے یا آئی جی ڈی آئی جی کو براہ راست تعینات کر دیا گیا ہے۔ یا پھر یہ بھی کسی نے نہیں دیکھا کہ کسی شخصیت کو براہ راست کمیشنر بھرتی کر دیا گیا ہے۔ لہٰذامہربانی فرما کر اس پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ جس شخصیت کی لابنگ اچھی ہوتی ہے، وہ آگے چلا جاتا ہے اور جج بن جاتا ہے۔ اور پھر اُس کے کیے گئے فیصلوں پر سوال اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ خیر اگر ہم اس حوالے سے بات کریں کہ ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا دیگر عدالتوں میں ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار کیا ہے تو اس حوالے سے ملک میں اس وقت 19 ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کا تقرر عمل میں لایا جاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 175۔ اے میں سپریم کورٹ کے ججز کے تقرر کا طریقہ کار دیا گیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ میں جج تعینات کرنے کے اختیارات سپریم کورٹ ہی کے پاس ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم ہے جس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج، ایک سابق چیف جسٹس جو دو سال کے لیے تعینات ہو گا، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے نامزد ایک سینئر وکیل شامل ہوتے ہیں۔(یعنی بقول بار کونسلز اُن کا ججز کی تعیناتی کے حوالے سے کردار محض بطور ربڑ سٹیمپ کا ہے۔) خیر اسی طرح اس مقصد کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی الگ سے قائم کی گئی ہے جس میں چار اراکین سینیٹ اور چار ہی قومی اسمبلی کے ارکان شامل ہوتے ہیں اور ان میں سے چار کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں جب کہ چار کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن جج کی قابلیت اور اس کی پیشہ وارانہ اہلیت دیکھ کر سفارشات مرتب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نامزدگی موصول ہونے کے 14 روز کے اندر سادہ اکثریت سے ان ناموں کی منظوری دیتی ہے اور اگر اس دوران یہ فیصلہ نہ ہو سکے تو عدالتی کمیشن کا ہی فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا ہے۔اگر پارلیمانی کمیٹی کسی نام کو مسترد کرتی ہے تو تین چوتھائی ممبران کی حمایت کے ساتھ اس نام کو مسترد کرنے کی وجوہات کو بھی بیان کر کے سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کی جاتی ہیں جس پر جوڈیشل کمیشن اس نام کے بجائے کوئی اور نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کرتی ہے۔ بہت سے مبصرین اس ترمیم کو عدلیہ کے حکم پر آئین میں کی جانے والی ترمیم کو اپنی نوعیت کی پہلی مثال قرار دیتے ہیں اور تب سے ملک میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور شریعت کورٹ کے ججز کی تقرریوں کا یہی طریقہ کار رائج ہے۔ لہٰذااس طریقہ کار کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ بادی النظر میں ججز کی تقرری کے لیے قائم کیے گئے جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت ہے جس کی وجہ سے کمیشن میں موجود بار کونسل، انتظامیہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔کمیشن میں عدلیہ، بار کونسل، پارلیمان اور انتظامیہ کے نمائندوں کی تعداد برابر ہونی چاہیے۔ تاکہ کوئی بھی اکثریت کی وجہ سے دوسرے کی رائے کو دبا نہ سکے اور ایک اتفاق رائے کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرریاں کی جائیں۔ایسا کرنے سے ہمارا عدلیہ کا نظام مثالی قرار دیا جاسکے گا۔ جو فی الوقت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ نظام تباہ ہو چکا ہے اور اب اس سے تعفن پھوٹ رہا ہے اور کسی کو بھی اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔نظام کے اندر موجود خامیوں کا طاقتور طبقات فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جب کہ کمزور طبقہ پس رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی اکثریت اس نظام کے وجود سے کوئی فیض حاصل نہیں کر پا رہے۔اس کے علاوہ یقین مانیں کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگوں کو پھانسی دیے جانے کے بعد ان کی اپیلوں کے فیصلے ہوتے ہیں جس میں وہ بری ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑا سوالیہ نشان اس نظام پر کیا رہ گیا ہے؟ پرینتھا کمارا کے حوالے سے فیصلہ یقینا خوش آئند فیصلہ ہے، جس کے بعد یقینا عدلیہ پر جمی گرد تھوڑی بہت اُڑ جائے گی مگر عدلیہ کو دیگر امور کے حوالے سے بھی کام کرنا چاہیے کیوں کہ اس ملک میں انصاف کے لئے نسلیں خرچ ہو جاتی ہیں مگر پھر بھی انصاف نہیں ملتا۔ جب تک سپریم کورٹ کسی کو سزائے موت سے بری کرتی ہے تب تک اس ملزم کو پھانسی بھی دے دی گئی ہوتی ہے۔ یہاں پر ناکافی ثبوتوں کے عذر کے تحت امیروں اورطاقتور مجرموں کو رہا کر دیا جاتا ہے اور بے قصور ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا پھر وہ معاشرہ اسی ذلت و پستی میں آ کر گرتا ہے جس پستی میں ہم بطور معاشرہ گر چکے ہیں۔ایسی بات نہیں کہ ہر شخص اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔ کچھ نہیں بھی کرتے اور ان کے نام تاریخ کا حصہ ہیں۔ جو آج بھی آئین و قانون اور اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت چل رہے ہیں ، ان کا نام بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہو گا۔اور وہ اندھیرے میں اُمید کی کرن ثابت ہوں گے!