اُسامہ ستی کو بھی انصاف نہیں ملے گا!

ہندوستان میں راجاایلان چولان ایلارا نے 205 قبل مسیح سے 161 قبل مسیح تک ریاست انورادھاپورہ پر حکمرانی کی۔ ایلارا ایک انصاف پرور راجا تھا۔ اسکے لاڈلے بیٹے ”ویدھی ویدنگن“ کی رتھ کے نیچے آکرگائے کا بچھڑاکچلا گیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے ایلارا نے بڑا عجیب فیصلہ کیا۔ ایلارا نے اپنے بیٹے کو اُسی رتھ کے نیچے کچلنے کا حکم دیدیا۔ فیصلے پر عمل درآمد ہوچکا تو بیٹے کی ارتھی کو شعلہ دکھانے سے پہلے ایلارا نے ویدھی کے ماتھے پر بوسہ دیا ”ویدھی! تو مجھے بہت پیارا تھا، لیکن انصاف سے زیادہ ہرگز نہیں تھا“۔پھر چرچل کے قول کا بھی میں اکثر اپنے کالموں میں ذکر کرتا رہتا ہوں ۔ یہ وہ ماضی کی مثالیں ہیں جن پر معاشرے کی بنیادیں استوار ہوئیں اور جن قوموں، ملکوں نے ان پر عمل کیا وہ معاشرے پروان چڑھے اور جنہوں نے عمل نہیں کیا وہ تیسری دنیا میں دھکیل دیے گئے۔ انصاف کے حوالے سے یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہی پولیس کے ہاتھوں ایک اور نوجوان لڑکا قتل ہوا، ہر طرف ایک ہی صدا تھی کہ اب ”اس کیس کا بھی کچھ نہیں ہوگا، اور ملزمان بری ہو جائیں گے“۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں ہم عوام کو یقین ہوگیا کہ اس معاشرے میں انصاف نہیں مل سکتا؟ اگر ایسا ہے تو یہ خطرناک بھی ہے اور خوش آئند بھی۔ خطرناک اس لیے کہ اب معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جبکہ خوش آئند اس لیے کہ شاید اب بادی النظر میں انقلابی تبدیلیاں آنے والی ہیں، یعنی کہیں سے بھی کوئی انقلاب کی کرن پھوٹ سکتی ہے۔ لیکن فی الحال تو بقول شاعر ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے خیر !میرے سامنے وفاقی دارالحکومت میں انسداد دہشت گردی فورس کے ہاتھوں مارے جانے والے نوجوان اسامہ ندیم ستی کی تصویر ہے۔ پولیس نے”نئے سال کے دوسرے دن“ اس بارہویں جماعت کے طالب علم کو”مبینہ طور پر“ عقب سے سترہ گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس تصویر میں اسامہ کی آنکھوں سے چھلکتے خواب دیکھے جاسکتے ہیں، اس عمر میں خواب ،امنگیں اور ارمان ہی تو ہوتے ہیں اسامہ کی آنکھوں میں بھی یہ سب کچھ تھا جو آن کی آن ختم ہو گیا،پولیس کا کہنا ہے کہ وائرلیس پر ڈکیتی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی روکنے کی کوشش کی گئی اور نہ رکنے پر ”اے ٹی ایس “ اہلکاروں نے فائر کھول دیا ،پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسامہ کے جوان لاشے میں چھ گولیاں پیوست ہوئیں اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا،ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد نے واقعے کی اطلاع ملنے پر ملوث اہلکاروں مدثر مختار‘ شکیل احمد‘ سعید احمد‘ محمد مصطفی اور افتخار احمد‘ کو حراست میں لئے جانے کی اطلاع کے ساتھ ساتھ ٹوئٹ کیا کہ مشکوک کار کا تعاقب کیا گیا،اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین تک اس کارکا تعاقب کیا گیا جس کے بعد فائرنگ کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ مشکوک کار کو روکنے کے لئے کیا یہ ہی آخری حربہ رہ گیا تھا ؟اگر کسی کار کے کالے شیشوں کا ہونا ہی اسے مشکوک ٹھہراتا ہے تو اسلام آباد میں کالے شیشوںاور مشکوک نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں تو عام پھرتی ہیں ،پولیس جانتی ہے کہ ان کالے شیشے والی لینڈ کروزروں اور ڈالوں پر ہاتھ نہیں ڈالنا لیکن یہاں یہ گاڑی 660سی سی کی تھی، قانون کو علم تھا کہ پارٹی ”ہلکی اور عوامی “ ہے اس لئے اس کے لمبے ہاتھوں نے جا لیااور دائیں بائیںآگے پیچھے سے فائر کھول کر ایک نوجوان کی زندگی کی کتاب بند کردی ،سوال یہ ہے کہ ا س قتل کا محرک کیا تھا ؟ یہ غلطی سے ہوا ہے َ ایسا ہے تو کار کو گھیر کر فائر کیوں کیا گیا ؟ تعاقب کرتے ہوئے فائر کئے گئے تو گولیاں لگنے کے بعد مقتول کی گاڑی کسی سے ٹکرائی کیوں نہیں ؟ یا پھر نوجوان نے گولیاں کھا کر بریک لگالی تھی۔جبکہ اس کے برعکس مقتول کے والد کا موقف ہے کہ اس کے بقول‘ ایک دن پہلے پولیس کے ان پانچ جوانوں کی مقتول کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ انہوں نے دھمکی دی کہ وہ مزہ چکھائیں گے؛ چنانچہ انہوں نے گاڑی کا پیچھا کیا اور روک کر سترہ گولیاں ماریں۔ اس نوجوان کے بے گناہ ہونے کے لیے میرے خیال میں یہ ثبوت کافی ہے کہ متعلقہ ڈی ایس پی نے مقتول کے والد اور دیگر اعزّہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیقات کی رُو سے مقتول بے گناہ نکلا۔ ڈکیتی سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ڈکیتی کیس کے مدعی سے لڑکے کی شناخت کرائی گئی تو اس نے بھی اسے پہچاننے سے انکار کیا۔ آپ یہ تمام شواہد دنیا کی کسی عدالت میں لے جائیں جو مقتول کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن اس معاشرے میں عمومی تاثر یہی بن چکا ہے کہ ”یہاں قاتلوں کا کچھ نہیں بن سکتا“ ایسا صرف اس لیے ہے کہ یہاں طاقتور ہمیشہ چھوٹ جاتے ہیں، یہاں ایک نہیں دو پاکستان ہیں، طاقتور ڈنڈے کے زور پر ”انصاف“ لے لیتا ہے مگر کمزور عدالتوں کی دہلیز پر سسک سسک کر جان دے دیتا ہے، مگر اُسے انصاف نہیں ملتا۔ اب اگر سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو سزا دے دی جاتی تو یقینا یہ سانحہ نہ ہوتا، مگر اُس کیس کے تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا، یہ فیصلہ پوری قوم کو اپنے منہ پر طمانچے کی طرح محسوس ہو تارہاکہ بچوں کے سامنے پولیس کے ہاتھوں والدین کا قتل اور پھر قاتلوں کی بریت کا عدالتی فیصلہ جس نے معاشرے کے ضمیر کو بری طرح مسخ کر دیا۔ یقین مانیں سانحہ ساہیوال میں 49گواہ تھے مگرسب نے ”یو ٹرن“ لے لیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے ضمیر کے مطابق گواہی نہیں دے سکا۔ کچھ گواہوں نے تو یہ تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ موقع واردات پر موجود تھے۔ باقی تمام گواہوں نے کہا کہ اگر ملزمان کو بری کر دیا جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم ملزمان کو نہیں پہچان سکے۔ حتیٰ کہ مقتول کا چھوٹا بیٹا بھی ملزمان کے ملوث ہونے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ اس کی گواہی بھی ملزمان کے حق میں گئی۔ پھر آپ سانحہ موٹروے کو دیکھ لیں، ابھی تک ملزمان کا چالان پیش نہیں کیا جاسکا۔ آپ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کو دیکھ لیں، دن دیہاڑے احتجاج کرنے والوں پر اس طرح سیدھے فائر کیے گئے کہ سانحہ جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ ہوگئی، مقدمے کا کیا بنا؟ کچھ نہیں!سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے وقت تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی۔ شریف برادران نے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پرنسپل سیکرٹری کو عبرتناک سزا یوں دی کہ اسے عالمی تجارتی ادارے میں سفیر مقرر کر کے بیرونِ ملک بھیج دیا۔ موجودہ حکومت نے آکر اُس کیس کا ذکر اذکار تو کبھی نہ کیا مگر انصاف ضرور کیا۔ جن پولیس والوں نے یہ چودہ قتل کیے تھے انہیں کچھ بھی نہ کہا۔ بال تک ان کا بیکا نہ کیا ۔ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کو دیکھ لیں ملزمان کو سزا ہو چکی مگر عمل درآمد ہونا باقی ہے، جس میں یقینا سیاسی رہنماﺅں کے ملوث ہونے کا شبہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شاید اس کیس میں بھی سزائے موت عمر قید میں تبدیل ہو جائے۔ابھی تو ہمارے حافظے میں نقیب اللہ کی زمین پر پڑی مڑی تڑی لاش ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر نقیب اللہ کے قاتلوں کو سزا دے دی جاتی تو اُس کا باپ کبھی نا مرتا۔ اس کیس میں بھی ” انصاف“ کے سارے تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ایسا انصاف ہوا تھا کہ نوشیروان عادل کے زمانے میں بھی کیا ہوتا ہو گا۔لیکن نقیب اللہ کا والد محمد خان اس انصاف پر اَش اَش کرتا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ یہ تو امریکی حکومت نے ظلم کیا کہ راﺅ صاحب کو بلیک لسٹ کر دیا ورنہ وطن ِعزیز میں تو وہ یوں محفوظ اور سلامت ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان! پھر سانحہ سندر وغیرہ کو ہی دیکھ لیں الغرض آپ پاکستان میں کسی بھی مقدمے کو دیکھ لیں انصاف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔خدا گواہ ہے کہ آج تک کسی بڑے ملزم کو سزا نہیں ہوئی، میری ناقص معلومات کے مطابق صرف لاہور کی عدالتوں میں 94ہزار ایسے کیسز ہیں جن کی مدت 20سال سے زائد ہو چکی ہے مگر اُن کے فیصلے نہیں ہو سکے۔ آپ یقین مانیں کہ میرا ایک ذاتی کیس قصور سول کورٹ میں لگا ہوا ہے، 10،12سال ہوگئے ہیں کیس کو، کبھی جج تبدیل تو کبھی مخالفین کے وکلاءتبدیل علم ہی نہیں ہے کہ کیس کہاں تک پہنچا ، اس کیس کے حوالے سے اگلے کسی کالم میں خصوصی طور پر روشنی ڈالوں گا لیکن فی الوقت اتنا ہی بتاتا چلوں کہ میرا اپنا وکیل یہی کہتا ہے کہ میری زندگی میں یہ کیس مکمل نہیں ہو سکتا! ان واضح اور تابناک مثالوں کی موجودگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ حکومت نوجوان طالب علم کے قتل کے معاملے میں انصاف نہ کرے۔لیکن معذرت کے ساتھ ایسی اُمید نہ رکھیے گاکیوں کہ اس ملک میں ہزاروں افراد پولیس کے ہاتھوں قتل ہو چکے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ معذرت کے ساتھ ہر چیف جسٹس نے رول آف لاءکی باتیں کیں، نئی عدالتوں کے قیام کی باتیں کیں، سپیڈی ٹرائل کی باتیں کیں، مگر مجال ہے کہ ہمارے انصاف کا نظام بہتر ہوا ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا نیب کورٹس دہشت گردی کورٹس کی طرح بالکل الگ کورٹس نہیں بنا سکتیں تاکہ ایک ماہ کے اندر اندر ان کے فیصلے ہوں۔ کیوں قوم کو کس مصیبت میں ڈال دیا گیا ہے۔ اور کیوں حالات ایسے بنائے جا رہے ہیں کہ عوام سولی پر لٹکے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ اسامہ کو انصاف نہیں ملے گا۔ لیکن اسامہ کی تحریک انصاف کے پرچمی مفلر اورٹوپی میں تصاویر سوشل میڈیا پرپھیلی ہوئی ہیں اور کپتان کے ٹائیگرز میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے، وزیر اعظم نے اس واقعے پر نوٹس تو لیا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ایسے نوٹس تو لئے جاتے رہے ہیں ، وزیر اعظم کے پاس موقع ہے کہ وہ اس سلسلے کے سامنے فل اسٹاپ لگا دیںجس سے شائد ہم عام شہریوں کو جینے کا لائسنس مل جائے گا!!