عمران خان کی سیاست ختم نہیں ہوگی؟

عمران خان اب کبھی اقتدار میں نہیں آسکے گا، یہ جن کے ذریعے اقتدار میں آیا ہے اُن سے بگاڑ بیٹھا ہے، یہ بندہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو بھی ناراض کر بیٹھا ہے، عوام بھی جو اس کو پسند کرتے تھے وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں، 2028ءکے الیکشن تک عمران خان کا کوئی چانس نہیں، قائد تحریک انصاف کے بارے میں جلد ہی کچھ آڈیو، ویڈیوز منظر عام پر آئیں گی اور اُس کے بعد اُس کی سیاست ختم ہو جائے گی، خان صاحب کا ایک بار اقتدار ختم ہوا تو اس کا حال بھی ق لیگ جیسا ہوگا کہ جب 2007ءمیں ق لیگ نے حکومت چھوڑی تو اُس کے بعد آج تک وہ سنبھل نہ سکی، پھر کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی میں آنے والے موسمی پرندے اُڑ کر جلد یا بدیر واپس اپنی جماعتوں میں چلے جائیں گے۔ یہ وہ جملے ہیں جو گزشتہ ایک ماہ سے اُن کے مخالفین اُن کے لیے کہہ بھی رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں۔ لیکن آپ عمران خان کی اور اُن کی ٹیم کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے لاکھ اختلافات کریں مگر ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان نے جو ووٹر اپنے لیے تیار کیا ہے وہ ہمیشہ اُس کے ساتھ رہے گا۔ آپ لاکھ اُنہیں سمجھا بجھا کر دیکھ لیں کہ تحریک انصاف اب کبھی اقتدار میں نہیں آئے گی۔ لیکن وہ آپ کو Dedicatedلگیں گے اور لگیں گے کہ اُن کا اوڑھنا بچھونا سب کچھ پی ٹی آئی ہے۔ جس نے اُنہیں سیاسی شعور دیا، جس نے اُنہیں سمجھنے سوچنے پر مجبور کیا کہ پاکستان کے لیے بہتر کیا ہے؟ اس کی مثال آپ عمران خان کے حالیہ جلسوں سے لے لیں آپ کو کسی جلسے میں عوام کی کمی محسوس نہیں ہوگی، ہر جلسہ عوام سے بھرا ہوا نظر آئے گا۔ اور وہاں موجود کسی بھی شخص سے بات کر کے دیکھ لیں ہر بندہ آپ کو جذبات سے بھرپور تقریر کرتا نظر آئے گا کہ وہ کیوں عمران خان کے ساتھ ہے؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہمارے مذہبی و سیاسی لیڈر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اپنے پیروکاروں یا اپنے ورکروں کو جب بھی کہیں بلاتے ہیں تو اُلٹے پاﺅں دوڑتے چلے آتے ہیں، قادری صاحب خود فرماتے ہیں کہ ”میں نے جدوجہد سے پوری ایک لڑی تیار کی ہے جو میرے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے“ اسی لیے سب نے دیکھا کہ موصوف جب بھی اپنے معتقدین کو دھرنوں یا جلسوں میں بلاتے تھے تو ایک مخصوص طبقہ اُن کے پیچھے تھا۔ لہٰذاعمران خان کی جدوجہد شاید کسی کو نظر نہ آرہی ہو لیکن اُنہوں نے اپنی محنت سے جو نسل تیار کر لی ہے وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ رہے گی۔ حالانکہ خان صاحب کے دور اقتدار میں ہم نے اُن کی بہت سی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی، جسے خان صاحب نے ”یوٹرن“ کے ذریعے خود بھی تسلیم کیا لیکن اُن کے فالوورز نے اُس پر تحریک انصاف کا دفاع کیا ، بلکہ میری کئی ایک پی ٹی آئی ووٹرز سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ فی الوقت خان صاحب پر کافی دباﺅ ہے، مافیاز اُنہیں جینے نہیں دے رہی اس لیے اکیلا خان ہی ان سے نمٹنے کے لیے کافی ہے ۔ حتیٰ کہ آپ یہ دیکھیں گزشتہ ماہ جب عمران خان کا اقتدار ختم ہوا تو ساﺅتھ ایشیا جیسے بڑے میگزین نے سرورق پر عمران خان کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ”سورج طلوع ہونے کے لیے ڈوبا ہے“ ۔ ساﺅتھ ایشیا میگزین کے علاوہ ایک امریکہ دانشور کے تبصرے نے بڑی شہرت پائی ہے وہ لکھتے ہیں امریکہ نے پاکستان میں حکومت تبدیل کر کے بائیس کروڑ پاکستانیوں کو اپنا مخالف بنا لیا ہے، ان دنوں مغربی میڈیا کی ایک خوبصورت اور مقبول اینکر کا ٹیلی ویژن پر کیا گیا مختصر تبصرہ بڑی مقبولیت حاصل کر رہا ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ آج مغربی میڈیا کے لئے عمران خان کی کوریج کیوں ضروری ہے؟مغربی ذرائع ابلاغ کے لئے عمران خاں کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اگر آپ غور سے اس بات کا جائزہ لیں تو یہ شخص ایک عرصہ دراز سے رائے عامہ کے دس بڑے رہنماﺅں میں شامل ہے، یہ امن پسند مسلمان رہنما ہے، جو پاکستان کو جمہوریت کی طرف لے جا رہا ہے، دنیا بھر کی کل آبادی میں اٹھائیس (28) فیصد مسلمان اور تقریباً تیس(30) فیصد عیسائی رہتے ہیں ،عمران خاں دنیا بھر کے دو ارب مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ پھر اسی بات کو دوست کالم نگار میاں حبیب نے بھی خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”1990 ءکے انتخابات سے لے کر 2007 ءتک کے انتخابات میں بھی عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی ہر الیکشن میں 20فیصد سے 28فیصد لوگوں نے ووٹ کاسٹ کیا۔ لوگ پاکستان کی انتخابی سیاست سے لا تعلق سے ہو گئے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے کہ ان کی رائے کا احترام نہیں ہوتا بلکہ Manageکرکے حکومتیں لائی اور بھیجی جاتی ہیں۔روائتی سیاسی جماعتیں بھی اسی رنگ میں رنگی جا چکی تھیں۔ ان کی بھی باریاں لگی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بھی ایک خاص قسم کا انتخابی ماحول پیدا کر لیا تھا۔ ووٹروں کی بھی ایک خاص کلاس تھی جو الیکٹرول کالج کی ضرورت پوری کرتی تھی۔ان میں انتہائی غریب لوگ ، مفاداتی ورکر ،بااثر افراد، چوہدری اور روائتی سیاستدان شامل تھے۔مڈل کلاس اور اس سے اوپر کے طبقات سیاست سے لا تعلق ہو چکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ روائتی سیاسی جماعتیں بھی انہی ووٹروں کے گرد گھومتی رہیں جبکہ عمران خان نے ووٹروں کی ایک نئی کلاس پیدا کی جس کو روائتی سیاستدانوں نے کبھی ٹچ ہی نہیں کیا تھا۔عمران خان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہ نئے ووٹروں کی کلاس سوجھ بوجھ بھی رکھتی ہے اور اپنی بات کہنے کی ہمت اور سلیقہ بھی رکھتی ہے۔ جن کو دلیل کے ساتھ تو توڑا جا سکتا ہے لیکن کسی طاقت یا زور زبردستی سے ان کے خیالات تبدیل نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے برعکس روائتی ووٹروں پر جس کا زور چلتا تھا وہ ہانک کر اپنی طرف لے جاتا تھا۔ علاقے کا بدمعاش، جاگیردار، نمبردار، اور بااثر افراد فیصلہ کرتے تھے کہ اس بار کس کو ووٹ دینے ہیں جو امیدوار تھانہ کچہری پٹوار اور ان لوگوں کی اکثریت کو اپنی طرف مائل کر لیتا تھا وہ الیکشن جیت جاتا تھا۔ 2007 ءکے الیکشن سے تبدیلی شروع ہوئی عمران خان نے اپنے نئے ووٹرز کی سیاست میں دلچسپی پیدا کی۔ جس پر آج تک عمران خان کی اجارہ داری ہے کیونکہ باقی ساری سیاسی جماعتیں روائتی سیاست میں ہی کھیل رہی ہیں جبکہ عمران خان بہت آگے نکل چکا ہے۔ باقی کی جماعتیں عمران کی پیدا کی ہوئی کلاس کو ٹچ ہی نہیں کر پا رہیں۔دوسرے لفظوں میں ساری سیاسی جماعتیں آﺅٹ ڈیٹیڈ سیاست کر رہی ہیں جبکہ عمران خان کی سیاست دور حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ہر آنے والے دن میں یہ فرق بڑا نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ “ یہ الفاظ یقینا تحریک انصاف کے لیے کسی سند سے کم نہیں ہیں۔ حقیقت بھی انہی کے گرد گھومتی ہے۔ آپ خان صاحب سے لاکھ اختلاف کر لیں لیکن یہ بات سچ ہے کہ آج کے سیاسی نظام میں نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کرنے میں اہم ترین کردار عمران خان کا ہی ہے۔ اکثر لوگ اس کو ان کے کرکٹ کیریئر سے جوڑتے ہیں، جبکہ اگر غور کریں تو پی ٹی آئی کا نوجوان ووٹر اور سپورٹر عمران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی پیدا یا بڑا ہوا ہے۔اس لیے یہ ”لڑی“ عمران خان کے ساتھ رہے گی اور پھر یہ بات کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ عمران خان کی سیاست ختم ہوگئی! کیوں کہ اگر یہ نوجوان اگر پی ٹی آئی کے ساتھ ہے تو اس کی وجہ عمران خان کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کا آغاز شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے ساتھ ہوا جب انہوں نے عمران ٹائیگر کا استعارہ متعارف کرایا۔ اس کے بعد یہی نوجوان ان کے ساتھ 1995 میں بھی آیا مگر خاطر خواہ نتائج نہ مل سکے۔عمران خان کا سیاسی ستارہ عروج کی طرف دوبارہ جب 2011 میں عازم سفر ہوا تو اس سفر میں بھی کارواں نوجوانوں کا ہی تھا۔ یہ نوجوان 15سال پہلے والا نوجوان نہیں تھا بلکہ انٹرنیٹ کے عہد اور سمارٹ فون سے لیس تھا۔ اس پوری نوجوان نسل کو سیاست میں رول ملا اور اس رول کی وجہ سے ہماری سیاست میں ایک نئی جان پیدا ہوئی۔ دوسری جماعتوں کو بھی اس کے جواب میں کوشش کرنا پڑی اور سیاست کا رخ ایک شہری اور پڑھے لکھے طبقے طرف ہو گیا۔ مگر اس میں بھی پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہی نظر آتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو اس کوشش میں اتنی کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو سکی؟بلاول بھٹو زرداری 33 برس کے لگ بھگ ہونے کے باوجود نوجوانوں کے ساتھ اس طرح منسلک نہیں ہو سکے جس طرح 70 برس کے عمران خان نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ صرف عمران خان کا بطور سلیبریٹی ماضی یا بلاول کا موروثی سیاست نہیں بلکہ ان کا انداز سیاست ہے۔ اسی طرح ن لیگ کے نسبتاً کم عمر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف نوجوانوں سے ربط رکھنے کے بجائے اپنے آپ کو روایتی سیاست دان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ روایتی سیاست دان اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ نوجوانوں سے رابطے کے لیے ان کی مسائل اور ان کے خیالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ زبان اور وہ میڈیم بھی اہم ہیں جہاں نوجوان سرگرم ہیں۔ بہرکیف بقول علامہ اقبال نہیں ہے نوامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کا آبادی میں تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ان نوجوانوں کا سیاست میں کردار ہماری جمہوریت اور نظام کے لیے بے حد ضروری ہے۔یہ بھی خدشہ ہے کہ موجودہ سیاسی تنازعات نوجوانوں کو سیاست سے متنفر نہ کر دیں۔ تمام پارٹیوں کو چاہیے کہ اپنے اندر نوجوانوں کو آگے لائیں۔ کابینہ میں نوجوانوں خصوصاً خواتین کو موقع دینا چاہیے۔ اگر نوجوان سیاست سے مایوس ہو گئے تو خدشہ ہے اس کا جمہوریت اور سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا! جس کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔