اور پھر ڈاکٹر رضوان بھی سسٹم کی بھینٹ چڑھ گئے!

کہا جاتا ہے کہ اگر اس دُنیا میں مکمل انصاف ہونا ہوتا، تو اللہ کبھی روزِ جزا نہ رکھتا.... اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر انسان ساری زندگی ایمانداری میں گزار دے اور اگلی عمر میں اُس پر کوئی جھوٹا الزام لگ جائے تو پھر وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔ کیوں کہ اُس کے دل میں خوف پیدا ہوجاتا ہے کہ اسے اگر کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا، عدالتوں میں گھسیٹا گیا تو کون یقین کرے گا کہ وہ بے گناہ ہے۔ اگر وہ باعزت بری بھی ہو گیا تو اس کے چہرے پر ملی ہوئی کالک کون دھوئے گا۔ وہ اپنی اولاد کا سامنا کیسے کرے گا، جسے وہ رزق ِ حلال کی صعوبتوں میں پالتا رہا ہے۔ وہ اپنے رشتے داروں کا مقابلہ کیسے کرے گا جن کے لیے وہ کسی مسیحا سے کم نہیں تھا۔ وہ دوستوں کو کیا منہ دکھائے گا جن کے سامنے سینہ چوڑا کر کے بڑی بڑی بڑھکیں مارتا تھا اور کہتا تھا کہ اُس نے پوری سروس میں ایک روپیہ بھی حرام نہیں کمایا۔ وہ اسی خوف کو دل میں بٹھا لیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جب اُس کی بیٹی کو علم ہوگا کہ اُس کے بابا پر مقدمات قائم ہوگئے ہیں تو وہ اُسکا کیسے سامنا کرے گا۔ بس یہی کچھ ہوا ڈاکٹر رضوان کے ساتھ جو گزشتہ دنوں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کرگئے ۔ ڈاکٹر رضوان ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور پنجاب کے حاضر ڈائریکٹر ایف آئی اے تھے، یہ وہی تھے جن کے پاس بڑے سیاسی خاندانوں کے منی لانڈرنگ، شوگر سکینڈلز اور دیگر کئی اہم کیسز تھے، اس حوالے سے اُنہوں نے کافی تحقیقات کر رکھی تھیں۔ 9اپریل کو جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی ڈاکٹر رضوان اگلے ہی دن طویل رخصت پر چلے گئے تھے، بتایا جاتا ہے کہ اُنہیں جبری رخصت پر بھیجا گیا تھا۔ یعنی اُن کوڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ نہایت فرض شناس ، دلیر اور قابل ترین آفیسر تھے۔ بہت سے افسران کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وہ بہت زیادہ ذہنی دباﺅ میں تھے، جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اُنہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی تھیں، بلکہ ایک بڑے سیاسی رہنما جو پنجاب میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں، اُن کاعدالت کے اندر ہی کہنا تھا کہ ”ڈائریکٹر صاحب۔۔۔ آپ کو بتا دوں خیال رکھیں، وقت ایک جیسا نہیں رہتا“ اور پھر واقعی وقت ایک جیسا نہیں رہا ڈاکٹر رضوان چل بسے! آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ڈاکٹر رضوان نے کسی مخصوص خاندان کے خلاف ہی کیسز کی تحقیقات نہیں کیں بلکہ عمران خان کے دور میں ہونے والے میگا شوگر سکینڈل کیسز کے حوالے سے بھی اُن کی خاصی خدمات تھیں۔ لیکن بدلے میں اُنہیں ایک گروپ کے دباﺅ کے بعد عمران خان کو اُنہیں اُن کے عہدے سے ہٹانا پڑا۔ ہوا کچھ یوں کہ 2020 میں ملک میں اچانک چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پیدا ہونے والے بحران کے پیچھے چھپے عوامل اور دیگر وجوہات کا پتا چلانے کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے 16 مارچ 2020 کو ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیا کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔21 مئی 2020 کو چینی کمیشن نے اپنی رپورٹ مکمل کر کے وزیر اعظم کو جمع کروائی تھی جسے بعد میں پبلک کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔شوگر کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے بعد وفاقی کابینہ نے مزید تفتیش کے لیے کچھ ٹی او آرز منظور کر کے ایف آئی اے کو بھیج دیے تھے جہاں ڈاکٹر محمد رضوان کی سربراہی میں دو درجن کے قریب تفتیشی افسروں پر مشتمل ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔اس ٹیم نے بہت سے کیسز کو نا صرف پکڑا بلکہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ سمیت متعدد ایف آئی آرز درج کروائی تھیں۔ اسی طرح ایف آئی اے نے چینی کی صنعت میں ہونے والے غیر قانونی سٹے بازی پر بھی ایک درجن کے قریب ایف آئی آرز درج کی تھیں۔ اور ڈاکٹر رضوان نے سکینڈل میں ملوث بڑی بڑی شخصیات سے اپنی ٹیم کے ہمراہ سخت سوالات بھی کیے تھے۔ جسے بعد میں چینی مافیا نے عمران خان کو شکایت بھی کی تھی کہ اُن کا موقف بھی سنا جائے۔ لیکن ڈاکٹررضوان اور ان کی ٹیم ڈٹے رہے اور کارروائی کو آگے بڑھایا ۔ لیکن پھر کچھ ہی دن بعد وہ جب اپنے آفس سے نکلے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا کہ انہیں تبدیل کرنے کا کوئی پیغام آیا ہے لیکن شام ہوتے ہی ڈاکٹر رضوان کو تبدیل کرنے کی خبر میڈیا پر نشر ہونا شروع ہوگئی۔وہ خاصے دلبرداشتہ بھی ہوئے لیکن سنبھل گئے۔ میری اُنہی دنوں ڈاکٹر رضوان سے ایک عزیز کی شادی میں ملاقات ہوئی تو میں نے سابقے لاحقے لگائے بغیر پوچھا کہ ڈاکٹرصاحب عمران خان پر غصہ تو خوب آیا ہوگا۔ڈاکٹر صاحب جواب دینے کے موڈ میں نہیں لگ رہے تھے، مگر خاصے دلبرداشتہ ضرور تھے ، لیکن اُنہوں نے اتنا ہی کہا کہ یار! مسئلہ یہ نہیں کہ مجھ سے ٹیم کی سربراہی لے لی گئی ، مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اس کیس پر محنت بہت کی تھی جو رائیگاں گئی، جس کا مجھے دکھ ہمیشہ رہے گا۔ یہ بات انہوں نے مزاحاََ کہی مگر دل کی بات ہوتو چہرے کے آثار ہی بتا دیتے ہیں کہ بقول شاعر بندہ نااُمید نہیں ہے۔ دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے اور پھر افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس سسٹم میں اکیلے ڈاکٹر رضوان ہی نہیں ہیں، بلکہ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی بریگیڈیئر اسد منیر کا معصوم چہرہ گھومتا ہے جس کے خلاف نیب نے تحقیقات کا آغاز کیا تو اس نے چودہ مارچ 2019ءکو چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام ایک خط تحریر کیا کہ وہ بے قصور ہے، لیکن ایسی بدنامی برداشت نہیں کر سکتا اور پھر اس نے خودکشی کر لی۔ اپنی موت کے دو سال بعد مارچ 2022ءمیں اسے باعزت طور پر بری کرتے ہوئے تمام الزامات کو جھوٹ قرار دے دیا۔ لیکن اس شخص کی قبر ہمارے بدترین نظامِ حکومت اور مفلوج نظامِ عدل کا منہ چڑا رہی ہے۔ چلیں اسد منیر کو بھی بھول جائیں، ایان علی منی لانڈرنگ کیس کو دیکھ لیں، اس کیس میں جو شخص تفتیشی ٹیم میں شامل تھا اُس کا نام کسٹم آفیسر اعجاز چوہدری تھا، اُسے ایان علی کیس میں گواہان کے خانے میں اُسے رکھا گیا تھا۔ لیکن اُسے بھی براہ راست مارنے کے بجائے مبینہ ”ڈکیتی“ میں مزاحمت پر ڈاکوﺅں نے قتل کر دیا۔ اب بھلا کون یقین کرے کہ یہ واقعی ڈاکو تھے یا اُن ”بڑے سیاستدانوں“ کے کارندے تھے جن کے لیے منی لانڈرنگ کی جا رہی تھی۔ پھر گوجرانوالہ کے ڈی سی سہیل احمد ٹیپو کی مبینہ خودکشی کے بارے میں کون نہیں جانتا، اُن پر کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث افسر کو بچانے کے لیے دباﺅ تھا۔ سہیل احمد ٹیپو طویل رخصت پر جانا چاہتا تھا، اُن کی رخصت کی درخواست کمشنر گوجرانوالہ نے رخصت دینے کے بجائے ماہر نفسیات کو بلا کر ان کا چیک اپ بھی کروایا تھا۔ بعد میں سہیل احمد ٹیپو کا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے بھی انکشاف کیا تھا کہ اُنہوں نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ اُنہیں قتل کیا گیا تھا۔ پھر اس سے بھی پیچھے چلے جائیں، بینظیر بھٹو قتل کیس سے منسلک اموات میں سے ایک انتہائی اہم موت خالد شہنشاہ کی تھی جو کہ سابق وزیر اعظم کے سکیورٹی گارڈز میں سے ایک تھے۔ خالد شہنشاہ بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کے دن ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر تھے جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر ختم کر رہی تھیں۔اس دن کی ملنے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ نے کچھ عجیب و غریب حرکات کی تھیں جن کا کوئی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے ان کی تسلی بخش وضاحت کی ہے۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ کا سر تو اپنی جگہ ساکن تھا لیکن انھوں نے اپنی آنکھیں بینظیر بھٹو کی جانب اٹھائیں اور ساتھ ساتھ اپنی انگلیوں سے گلا کاٹنے کا اشارہ بنایا۔ یہ فوٹیج سامنے آنے کے بعد وائرل ہو گئی اور اس کے چند ماہ بعد، 22 جولائی 2008 کو انھیں کراچی میں اپنے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔ پھر رینٹل پاور کیس بھی سب کو یاد ہوگا جس کے تفتیشی کامران فیصل تھے ، کامران فیصل نیب راولپنڈی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹرتعینات تھے۔ وہ بدنام زمانہ رینٹل پاور کیس کی تحقیقاتی ٹیم کا حصہ تھے۔ 2008-9میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کرائے پر رینٹل پاور پلانٹس حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اٹھارہ مئی 2010میں آڈیٹر جنرل پاکستان نے اپنی رپورٹ میں رینٹل پاور کیس منصوبے میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی اور اعتراض کیا کہ کیوں وفاقی وزیر راجہ پرویز اشرف نے منصوبے شروع ہوئے بغیر ہی ایک اعشاریہ سات ارب روپے ان کمپنیوں کو ادا کر دیئے۔ تین دسمبر 2010کو سپریم کورٹ نے رینٹل پاور منصوبوں میں کرپشن کا از خود نوٹس لیا۔ مارچ 2012میں سپریم کورٹ نے رینٹل پاور منصوبوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے تمام معاہدے منسوخ کر تے ہوئے نیب کو راجہ پرویز اشرف سمیت تمام ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد کامران فیصل کو بھی 2013ءمیں ان کے کمرے میں مردہ حالت میں پایا گیا، کہا جاتا ہے کہ اُنہیں قتل کیا گیا، مگر یہ معمہ آج بھی حل طلب ہے۔ پھر آپ کو یاد ہوگا کہ سیف الرحمان کمیشن کے تحت آصف زرداری اور بے نظیر کے خلاف تفتیش کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس تفتیش کا ایک کردار سول سروس کا اہم آفیسر مرحوم حسن وسیم افضل تھا، جس نے سوئٹزر لینڈ جا کر تمام حقائق اکٹھے کئے۔ اگلی حکومت انہی کی آنے پر اسے جس طرح نشانِ عبرت بنایا وہ ایک تاریخ ہے۔ حسن صاحب ایک مضبوط اعصاب کے آدمی تھے، سب کچھ سہہ گئے ۔ الغرض بے شمار ایسے افسران تھے جو ”ایماندارانہ احتساب“ کے چکر میں ہر دَور میں رسوائی کی علامت بنائے گئے، پوسٹنگ اور پرموشن سے محروم کئے گئے۔ کئی ایسے تھے جو دلبرداشتہ ہو کر پہلے نوکری اور پھر ملک ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ڈاکٹر رضوان کی موت بھی ایک ایسے مسلسل خوف کے عالم کی موت ہے۔ جس سے شاید بچا تو نہیں جا سکتا مگر سسٹم کا نوحہ ضرور پڑھا جا سکتا ہے کہ اگر یہ ٹھیک نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب تفتیشی کیس لینے سے ہی گھبرا جائیں گے اور بغیر سوچے سمجھے مافیاﺅں کو کلین چٹ دے دیں گے! اور یہ وطن عزیز کے لیے اس قدر خطرناک بات ہے کہ ہمیں مزید تباہی سے پھر کوئی نہیں روک سکتا۔