ملک کا دفاع ایسے بھی ہوتا ہے، ویلڈن بلاول !

وہ طاقت کے نشے میں چور ایک جرنیل کا کمرہ تھا جہاں جاپان کے بادشاہ کو طلب کیا گیا تھا۔جاپانی بادشاہ جہاں بیٹھا تھا،جنرل بڑی رعونت کے ساتھ وہاں براجمان تھا ، تذلیل کی حد تو یہ تھی کہ جنرل نے بادشاہ کو توہین کے طور پر اپنے پاو¿ں میں پہنا ہوا جوتا بھی دکھایا تھا۔یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی کہانی ہے جب ہیرو شیما اور ناگاساکا پر امریکی اٹیمی حملوں کی جس کے بعد جاپان کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور کئی نسلوں میں اس ایٹمی حملے کے برے اثرات دیکھے گئے،جاپان کی کئی نسلیں معذور پیداہوئیں۔بات ہو رہی تھی کہ امریکی جنرل نے جاپان کے بادشاہ کو طلب کیاہوا تھا، جنرل نے جاپان سے اُس کی معیشت کی ”چابیاں“ طلب کیں اور مزاحاََ پوچھا کہ آپ کو آپ کے جرنیلوں پر غصہ نہیں آیا کہ جب امریکا اُنہیں بار بار تنبیہ کر رہا تھا کہ جنگ سے باز رہواور ہتھیار پھینک دو۔ مگر وہ پھر بھی امریکی طاقت کو نہ سمجھ سکے اور اپنا جانی و مالی نقصان کر بیٹھے۔ اس پر جاپانی بادشاہ ہیروہیتو(Hirohito) نے کہا کہ تمام جرنیل، بیوروکریسی اور شہنشاہی وزیر ایک پیج پر تھے، اور جنگ میں جرمنی کا اتحادی بننا ہماری واضح خارجہ پالیسی تھی۔ جسے سب نے متفقہ طور پر تسلیم کیا۔ اور اب جبکہ ہم جنگ ہار چکے ہیں، ہم گھٹنوں کے بل بیٹھے ہیں اور تب بھی ہم سب ایک پیج پر ہیں ۔ کیوں کہ ہم ایک قوم ہیں، اور جب قوم کو شکست ہوتی ہے تو وہ اُس سے سیکھتی ہے، آگے بڑھنے کے لیے! اس پر امریکی جنرل مسکرایا اور طنزیہ کہا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ آپ کے ارد گرد بھوک، افلاس اور غربت کے ڈیرے ہیں۔ اور کوئی آپ سے تجارت بھی نہیں کرنا چاہتا۔ لہٰذاآپ ملک کے ادارے ہمارے حوالے کردیں۔ اس پر جاپان کے بادشاہ نے جواب میں صرف ایک ہی درخواست کی کہ بے شک جاپان کی معیشت ، سیاست اور ہر چیز پر امریکا کا قبضہ ہو لیکن صرف ایک شعبہ جاپان کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ امریکی جنرل نے حیرانی سے پوچھا کہ ایسا کون سا شعبہ ہے تو بادشاہ نے جواب دیا کہ وہ شعبہ تعلیم کا ہے جس کی نگرانی خود جاپان کی حکومت کرے گی۔ خیر امریکا کو کیا اعتراض ہونا تھا،لہٰذا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا اور یہی بات جاپان کی ترقی کا راز ٹھہری۔ یوں ایک جنرل جنگ ہار گیا لیکن ایک بادشاہ اورعلم کا داعی فتح سے ہمکنار ہوگیا۔جاپان کے بادشاہ ہیروہتو نے جنگ عظیم دوم کے بعد 43سال مزید حکومت کی اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ایسا ڈالا کہ آج دنیا ٹیکنالوجی کے میدان میں جاپان کی محتاج بن کر رہ گئی ہے۔ یہ ملک اس وقت دنیا کی تیسری بڑی اکانومی ہے ، جس کی معیشت کا حجم 2020کے اعداد وشمار کے مطابق 5ہزارارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ اس واقعہ میں بتانے والی اہم چیز یہ کہ تاریخ گواہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان میں حالات سخت کشیدہ ہوگئے تھے، تمام ادارے آپسی لڑائیوں میں جکڑے ہوئے تھے، جاپانی فوج کے جرنیل آپس میں گتھم گتھا تھے۔ لیکن ہیروہتو نے امریکی جرنیل کے سامنے نہ صرف اپنے ملک کا دفاع کیا بلکہ کسی کو یہ بات کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا کہ جاپان میں کیا چل رہا تھا، کیوں کہ ہیروہتو جانتا تھا کہ اگر اُس نے یہ کہہ دیا کہ ہاں ہم اندرونی طور پر خلفشار یا اختلافات کا شکار تھے تو اس سے پوری جاپانی قوم کا سر شرم سے جھک جائے گا اور پوری دنیا میں اس چیز کا دفاع کرنا سب کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اس کے برعکس ہم پوری دنیا میں باہمی اختلافات کے باعث مشہور ترین قوم ہیں، بلکہ ”ہجوم“ کہیں گے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ یہاں ہم نہ صرف اپنی چھاتیاں کھول کھول کر دوسرے کے سامنے روتے نظر آتے ہیں بلکہ دوسروں کو اپنے ملک میں دخل اندازی دینے کی کھلی دعوتیں دے رہے ہوتے ہیں۔ آپ حالیہ سیاسی کشیدگی کو ہی دیکھ لیں۔ لندن میں ہر روز سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی رہائش گاہوں کے باہر کھڑے ہو کر سیاسی نعرے بازی کر رہے ہوتے ہیں،بلکہ میں آج کل نیویارک آیا ہوا ہوں یہاں بھی پاکستانی سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر تے دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ ہمیں کون سمجھائے کہ دلیل کے ساتھ کی گئی باتیں میرے خیال میں زیادہ اثررکھتی ہیں۔ خیر ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کے دورہ امریکہ و چین کو قومی حلقوں کی طرف سے سراہا جا رہا ہے۔ بطور وزیرخارجہ یہ ان کا پہلا دورہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ بھی نہیں رہا، اس کے باوجود انہوں نے اس دورے میں جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے دورہ روس کے حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کا دفاع کیا اور کہا یہ قومی پالیسی تھی کہ دورہ کیا جائے، اس وقت یوکرین جنگ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لڑائی وزیراعظم کے روس پہنچنے کے بعد شروع ہوئی، اس لئے اسے منسوخ کرنا ممکن نہیں تھا۔ یہ بڑی اہم بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر قومی پالیسی کا دفاع کیا۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ سابق وزرائے اعظم اپنے مختلف غیر ملکی دوروں میں ملکی حالات کے بارے میں اظہارِ خیال کرکے پاکستان میں کرپشن اور سیاسی شخصیات کی لوٹ مار کا ذکر کرتے تھے، جس سے ملک کی بدنامی ہوتی تھی، حالانکہ قومی معاملات کو ملک کے اندر ہی رکھنا چاہیے اور دنیا کے سامنے صرف ملک کا مثبت چہرہ لایا جائے تو بہتر ہے۔ کبھی کسی دوسرے ملک کا سربراہ پاکستان آکر یہ نہیں کہتا کہ اس کے ملک میں بڑی کرپشن ہے اور وہ مافیاز کے خلاف جہاد کر رہا ہے، لیکن اس سے پہلے یہ کام ہوتے رہے ۔ بہرکیف بلاول بھٹو زرداری نے بطور وزیر خارجہ موجودہ حکومت کے پہلے 50دن میں سب سے بہتر کام کیا ہے، اسے زرداری کی چال سمجھ لیں یا کچھ اور لیکن انہوں نے اپنے گھوڑے کو صحیح وقت پر میدان میں اُتارا ہے کہ تربیت کے ساتھ ساتھ تجربہ بھی حاصل ہو جائے، جو بلاول کے لیے مستقبل میں بھی کام آسکے۔ کیوں کہ اس وقت بلاول کے جو امریکیوں کے ساتھ تعلقات بن رہے ہیں وہ یقینا مستقبل میں بھی پاکستان کے کام آئیں گے جیسے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اُنہیں دورے کی دعوت دینے کے لیے 50منٹ طویل کال کی تھی ، کسی ملک کے نئے وزیرخارجہ سے اتنی طویل کال بھی شاید امریکی وزیر خارجہ نے کم کم ہی کی ہو۔لہٰذااُمید کی جا سکتی ہے کہ بلاول نئی نسل کے لیے اُمید کی کرن ہوں گے، اور روایتی سیاستدانوں کی طرح کرپٹ نہیں ہوں گے۔ اُنہیں اپنے آپ کو کرپشن سے بچائے رکھنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا جہاد ہوگا۔ لہٰذابلاول اگر اُمید ہیں تو آنے والے دنوں میں یہ سیٹ اُن کے لیے پھولوں کا سیج ثابت نہیں ہوگی کیوں کہ اُن کے لیے سب سے بڑا چیلنج امریکا اور چین کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اور بلاول کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی خواہش کے باوجود پاکستان چین کو کوئی غلط اشارہ دینے کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ اس وقت امریکی پالیسی کا مقصد چین اور روس کو ٹارگٹ کرنا ہے اور پاکستان کو بھی اسی لائن پر چلنے کا کہا جائے گا، جس کی حمایت اسلام آباد کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسرا چیلنج بھارت سے تعلقات کی بنیاد ہوسکتا ہے، کیوں کہ بھارت خطے میں امریکہ کا مرکزی پارٹنر ہے اور واشنگٹن چاہے گا کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات بہتر ہوں۔اس لیے واشنگٹن پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور تجارت شروع کرنے کا مشورہ دے گا۔ اس کے علاوہ امریکی بلاول بھٹو زرداری کو کچھ ایسی باتیں بھی سمجھانے کی کوشش کریں گے، جو مستقبل میں پاکستان سے منوا کر امریکی مفادات کا حصول ممکن ہو سکے گا۔ کیوں کہ امریکیوں کا طریقہ کار یہی ہے، وہ ایک ڈیمانڈ پوری ہونے پر دوسرا مطالبہ رکھ دیتے ہیں اور یوں ہمیشہ ڈو مور ہی چلتا رہتا ہے۔پھر ایک اور بڑا چیلنج افغانستان کی شکل میں موجود ہے جہاں دنیا کے ناپسندیدہ ترین حکمران بیٹھے ہیں، بلاول کو طالبان اور بڑی طاقتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا ہوگا اور اس کے عوض اُنہیں سب سے پہلے پاکستان کے مفادات کو دیکھنا ہوگا۔ کیوں کہ امریکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کروانے کے لیے پاکستان کا تعاون اور امداد چاہتا ہے۔ لہٰذااس سلسلے میں پاکستان مرکزی کردا ادا کرکے آسان شرائط پر قرضے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پھر ایک اور اہم ایشو جو بلاول کے لیے آنے والے وقت میں سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کروانا ۔ اورپاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا۔ اس کے لیے سخت لابنگ کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اگر آج اسلام آباد نے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی خاطر امریکی پالیسی اپنائی تو مستقبل میں اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اور پھر امریکی مطالبات اس حد تک بڑھ سکتے ہیں کہ ایک دن پاکستان کو نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) پر دستخط کرنے کا بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس کے مطابق آپ کو اپنا سب کچھ امریکا کے حوالے کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہرکیف کہا جاتا ہے کہ امریکی بہت لمبی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو اتنی اہمیت دینے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ابھی ایک لمبی سیاسی اننگ کھیلنے کے قابل ہیں۔ اگلی تین چار دہائی تک وہ پاکستان کی سیاست پر راج کر سکتے ہیں۔ اس وقت ہماری لیڈرشپ میں سے اکثر 70کی عمر کو چھو رہے ہیں۔ پیچھے ایک خلاءنظر آتا ہے، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کو بہت کم عمری میں ایک بڑی جماعت کو لیڈ کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت ہے کہ انہوں نے خود کو پیچھے کرکے بلاول بھٹو زرداری کو آگے کر دیا۔اور اب بلاول کو چاہیے کہ میدان بھی صاف ہے، اور مخالف کھلاڑی بھی اتنے کارگر نہیں ہیں۔ اس لیے پچ پر آئیں اور ارد گرد کے حالات سے بے خبر ہو کر قومی مفاد کے لیے ایسے ایسے کارنامے کریں کہ عوام بخوشی اُنہیں بھی قومی لیڈر تسلیم کرلیںاور پاکستان کو بھی بہترین قیادت میسر آئے۔